جہانگیر ترین نے بظاہر سیاست سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے پہلے علیم خان بھی سیاست سے ایک طرح کی کنارہ کشی کر چکے ہیں۔ انھیں تو نیب کی حراست سے بھی گزرنا پڑا۔ سیاسی حلقوں میں ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ کہ کہیں جہانگیر ترین کو بھی ایسے تجربے سے نہ گزرنا پڑجائے۔ جہانگیر ترین رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سے یہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا ہے۔
جہانگیر ترین عام انتخابات سے قبل نا اہل ہو گئے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد بھی انھوں نے اپنی سیاست کو بچانے کی بھر پور کوشش کی۔ ان کی نااہلی کے بعد ایک تاثر یہ بھی تھا کہ ان کی نا اہلی دراصل عمران خان کے لیے قربانی ہے۔ اگر انھیں نا اہل نہ کیا جاتا تو عمران خان کو اہل کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ان کی قربانی کو تحریک انصاف اور عمران خان قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ اسی لیے نااہلی کے باوجود جہانگیر ترین کا سیاسی کردار ختم نہیں ہوا۔ عمران خان نے انھیں اپنے ساتھ رکھا۔
گزشتہ عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف پر جہانگیر ترین اور علیم خان کا سیاسی اثر ورسوخ خاصا مستحکم تھا۔ ٹکٹوں کی تقسیم ان کی مشاورت سے ہوئی۔ الیکٹیبلز کی شمولیت ان کی مشاورت سے ہوئی۔ عرف عام میں یہ کہا جاتا تھا کہ پوری تحریک انصاف جہانگیر ترین کے لیپ ٹاپ میں بند ہے۔ کس کو ٹکٹ دینا ہے، کس کو نہیں دینا اس لیپ ٹاپ میں بند ہے۔ ہر وقت یہ لیپ ٹاپ جہانگیر ترین کے پاس ہوتا تھا۔ ایک تاثر بن گیا تھا کہ تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کو چیلنج کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔
عام انتخابات کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں بھی جہانگیر ترین اور علیم خان کا مرکزی کردار تھا۔ لیکن آزاد ارکان کو توڑنے کا بظاہر کام ان دونوں نے ہی کیا تھا۔ دونوں کے مخالفین کے اس موقف میں بھی جان ہے کہ خفیہ مدد کے بغیر وہ یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن عمران خان کے اعتماد کی وجہ سے ہی ان کو یہ ٹاسک ملا تھا۔
تاہم انتخابات کے بعد بھی دونوں مرکزی حیثیت میں موجود تھے۔ انتخابات کے بعد بھی جہانگیر ترین کی حیثیت ڈپٹی وزیر اعظم سے کم نہیں تھی۔ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں موجود رہتے تھے۔ اہم اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے۔ حتیٰ کے وہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی موجود ہوتے تھے۔ انھیں زراعت میں ریفارمز کا اہم ٹاسک دیا گیا۔ لیکن وہ زراعت تک محدود نہیں تھے۔ دیگر اہم معاملات میں بھی ان کی مشاورت اہم تھی۔ بعض حضرات تو یہاں تک کہتے تھے کہ جہانگیر ترین ہی ملک چلا رہے تھے۔ اتحادیوں سے معاملات بھی وہی طے کرتے تھے۔
عام انتخابات کے بعد علیم خان کو پہلا جھٹکا تب لگا، جب انھیں نیب کی زیر التوا انکوائریوں کا بہانہ بنا کر وزیر اعلیٰ نہیں بنایا گیا۔ سیاسی حلقوں میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہو ںگے۔ شاہ محمود قریشی بھی وزیر اعلیٰ کی گیم میں تھے۔ اسی لیے وہ صوبائی سیٹ پر انتخاب لڑ رہے تھے۔ لیکن جہانگیر ترین اور علیم خان اتنے مضبوط تھے کہ انھوں نے شاہ محمود قریشی کی اس سیٹ کی مخالفت کی۔ شاہ محمود صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے۔ انھیں شکست دینے والے ایم پی اے تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ یوں بیچارے شاہ محمود قریشی کچھ بھی نہیں کر سکے۔
پنجاب میں علیم خان وزیراعلیٰ تو نہ بن سکے البتہ وہ سنیئر وزیر بن گئے۔ یوں آغاز میں ہی پنجاب میں اختیارات کا کھیل شروع ہوگیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عثمان بزدار کو اپنی اننگ کے شروع میں ہی ایسی باولنگ کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ آج تک سنبھل نہیں سکے ہیں۔ پنجاب میں پہلے دن سے یہ تاثر بن گیا کہ اصل وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نہیں کوئی اور ہے۔ بہرحال جیسے آج جہانگیر ترین چینی کی رپورٹ کا شکار ہو گئے ہیں ویسے ہی علیم خان نیب میں گرفتاری کا شکار ہوئے ہیں۔ ان کے بعد پنجاب کے صوبائی وزیر سبطین خان بھی نیب میں گرفتار ہوئے لیکن نیب سے رہائی کے بعد دوبارہ وزیر بن گئے ہیں۔ لیکن علیم خان نیب سے رہائی کے بعد دوبارہ وزیر نہیں بنے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ پاور گیم کی سیاست میں خاصے پس منظر میں چلے گئے۔
علیم خان اور جہانگیر ترین کے ساتھ جو بھی ہوا ہے وہ پاکستان کی سیاست میں کوئی نیا نہیں ہے۔ اقتدار کا بے رحم کھیل حکمران سے اپنے قریبی اور مخلص لوگوں کی قربانی مانگتا رہتا ہے۔ حکمران اقتدار بچانے کے اپنے قریبی ساتھیوں کی قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ پی پی پی نے بھی اپنے دور اقتدار میں ایسی قربانیاں دی ہیں۔ ن لیگ کوبھی ایسی قربانیاں دینی پڑی ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ علیم خان اور جہانگیر ترین کے ساتھ وہی ہوا ہے جو پی پی پی میں مخدوم امین فہیم کے ساتھ ہوا تھا۔ ن لیگ نے ماضی میں چوہدری برادران کے ساتھ کیا تھا۔ انھیں وعدہ کے باوجود وزیر اعلیٰ نہیں بنایا تھا۔ جاوید ہاشمی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ چوہدری نثار علی کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ چوہدری نثار علی خان نے تو اپنی قیادت کو چیلنج کیا تھا۔ ہم ایسی قربانیوں کی بات کر رہے ہیں جہاں متاثرہ فریق کی جانب سے پارٹی قیادت کو چیلنج نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی اس کی قربانی ہو گئی۔
یہ بات ناقابل قبول ہے کہ جہانگیر ترین شوگر کی رپورٹ کی وجہ سے آؤٹ ہو ئے ہیں۔ انھوں نے خو د تسلیم کر لیا ہے کہ وہ گزشتہ دو ماہ سے ٓآؤٹ ہو چکے تھے۔ وہ سائیڈ لائن تھے۔ بس اعلان اب ہوا ہے۔ اس سے پہلے اسد عمر کی بھی قربانی ہو ئی تھی لیکن ان کی بعد میں واپسی ہو گئی۔ لیکن اسد عمر کی قربانی اور جہانگیر ترین اور علیم خان کی قربانیوں میں فرق ہے۔ اسد عمر کی قربانی کے وقت عمران خان کسی حد تک ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ متبادل وزارت کی پیشکش موجود تھی۔ بعد میں قومی اسمبلی میں خزانہ کی اسٹینڈگ کمیٹی کا چیئرمین بھی اسد عمر کی خواہش پر انھیں بنایا گیا۔ جہانگیر ترین کے کیس میں ایسا نہیں ہے۔
اس وقت عمران خان اتنے مضبو ط ہیں کہ انھیں جہانگیر ترین اور علیم خان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بے شک نوے فیصد ٹکٹیں جہانگیر ترین کی مرضی سے دی گئی ہیں۔ بے شک نوے فیصد نئے لوگ جہانگیر ترین کی مشاورت سے شامل ہوئے ہیں۔ لیکن اس وقت جہانگیر ترین تنہا ہیں۔ ویسے تو وہ سمجھدار انسان ہیں۔ انھوں نے عمران خان اور حکومت کو چیلنج نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انھیں معلوم ہے کہ ابھی چیلنج کرنے کا وقت نہیں ہے۔ سیاست میں ٹائمنگ اہم ہوتی ہے۔ ابھی علیم خان اور جہانگیر ترین کا وقت نہیں ہے۔ ابھی کوئی ان کے ساتھ کھڑا بھی نہیں ہوگا۔ لوگ انھیں خاموش رہنے کا ہی مشورہ دیں گے۔ اس لیے فی الحال ان کے پاس خاموشی کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ سیاسی قرنطینہ میں چلے جائیں۔
جیسے علیم خان کو سائیڈ لائن کرنے میں نیب کا کوئی کردار نہیں۔ سبطین خان کی مثال سامنے ہے۔ ایسے ہی جہانگیر ترین کو سائیڈ لائن کرنے میں شوگر رپورٹ کاکوئی کردار نہیں۔ یہ بس بہانہ ہے۔ آپ دیکھیں خسرو پرویز کی تو اس رپورٹ کے بعد ترقی کر دی گئی ہے۔ دیگر افراد کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ آخر جہانگیر ترین کے خلاف ٹوئٹ کی اتنی جلدی کیا تھی۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ جہانگیرترین اور علیم خان کی تحریک انصاف میں اننگز ختم ہو گئی ہے۔ لیکن اگلی اننگز کے لیے انھیں ابھی انتظار کرنا ہے تاہم لگتا ہے کہ اگلے کھیل کی تیار ی ہو رہی ہے۔ اس حکومت کے خلاف چارج شیٹ بننا شروع ہو گئی ہے۔ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔