کوئی سمجھے یا نہ سمجھے پنجاب کی سیاست 2018 تک بہت گھمبیر رہی ہے، ملک کی سیاست ایک طرف، پنجاب کی سیاست کے خدو خال کی پیچیدگیاں دوسری طرف۔ اسی لیے میڈیا میں یہ تاثر رہا کہ تحریک انصاف کو پنجاب کی سیاست سنبھالنے کے لیے ایسا لیڈر درکار ہوگا جو سیاسی قد اور تجربہ کاری بہت اونچا ہو، لیکن عمران خان نے اس تاثر کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا۔
انھوں نے عثمان بزدار کو نامزد کیا۔ یہ چیلنج عثمان بزدار کو بھی آج تک درپیش ہے۔ ایک عام آدمی ہونے کا چیلنج۔ ایک بڑے سیاسی قد آور نہ ہونے کا چیلنج۔ پہلے کبھی اقتدار میں نہ رہنے کا چیلنج۔ شاید لوگ ان کے نام سے مرعوب نہیں تھے۔ اسی لیے عام آدمی اور ہمارے دانشوروں نے انھیں پہلے دن سے ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ہمارے دانشور دوستوں کی دانش کے مطابق عمران خان جنھیں ٹیم میں تبدیلیاں کرنے کا بہت شوق ہے۔ وہ عثمان بزدار کو بھی بہت جلد تبدیل کر دیں گے۔ لیکن میں نے مسلسل لکھا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومتی ٹیم میں سب تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن عثمان بزدار تبدیل نہیں ہو سکتے۔
اسی لیے جب عثمان بزدار کے تبدیل ہونے کی افواہیں پھیلائی گئیں، میں نے لکھا کہ عثمان بزدار تبدیل نہیں ہو سکتے۔ ایک بڑے کالم نگار نے عثمان بزدار کی تبدیلی کے حوالے سے کئی کالم لکھ مارے کہ عثمان بزدار کو ہٹانے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ لیکن میں نے انھیں بھی سمجھایا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ عثمان بزدار ایک محفوظ قلعہ میں بیٹھے ہیں جہاں شب خون مارنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن دانشوروں کی اپنی رائے تھی جو وقت نے غلط ثابت کی ہے۔
عثمان بزدار کے خلاف جب کچھ نہ ملے تو یہ پراپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے کہ ان کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔ گورننس کا ماڈل ٹھیک نہیں ہے۔ تاہم دوست یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاسی کارکردگی کوئی ہتھیلی پر سرسوں پر جمانے کی طرح راتوں رات نظر نہیں آسکتی۔ کام کرنے اور نظر میں آنے میں وقت لگتا ہے۔ مگر اب 3 سال گزرنے کے بعد کام ضرور نظر آرہا ہے۔ آپ مجھے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن عثمان بزدار نے پنجاب میں سیاست اور کارکردگی کے پیمانوں کو بھی تبدیل کر دیا ہے اور نئے پیمانے سیٹ کر دیے ہیں۔ جو آنے والوں کے لیے مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔
شاید آپ ابھی کہیں کہ میں غلط کہہ رہا ہوں لیکن وقت یہ بات درست ثابت کرے گا۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں جو کام ہوئے ہیں اس کے بعد اب پنجاب کی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب کی سیاست اب نعروں سے نہیں کر سکیں گی۔
عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد میں نے لکھا تھا کہ جنوبی پنجاب عثمان بزدار کی ہوم گراؤنڈ ہے اور اپنے سیاسی مخالفین سے وہیں میچ کھیلیں گے۔ شاید کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ عثمان بزدار جنوبی پنجاب کو اس قدر سمجھتے ہیں۔ وہ وہاں کے مسائل کو اتنا جانتے ہیں کیونکہ اس سے پہلے جنوبی پنجاب سے جو سیاسی قیادت سامنے آئی انھیں جنوبی پنجاب کے مسائل کا خود ہی اندازہ نہیں تھا۔ اس لیے ملتان اور ڈیرہ غازی خان کو جہاں اسپتال کی ضرورت تھی وہاں ایئرپورٹ بنا دیے گئے۔ لیکن عثمان بزدار نے ملتان میں نشتر ٹو بنایا ہے، ڈیرہ غازی خان میں کارڈیالوجی اسپتال بنایا ہے۔
بہاولپور کے وکٹوریہ اسپتال کی ایمرجنسی کی توسیع کی ہے وہاں نئے بلاک بنائے ہیں۔ یہ سوال ابھی باقی ہے کہ کیا جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ وہاں عوام کے وہ مسائل حل کر سکے گا جس کی وجہ سے وہ کہتے رہے ہیں کہ ہم قیدی ہیں تخت لاہور کے۔ کیا جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے بعد لوگوں کو لاہور سیکریٹریٹ کے چکر نہیں لگانا پڑیں گے، اس حوالے سے کام ہو رہا ہے لیکن اس کے نتائج ابھی دور ہیں۔ عثمان بزدار نے جنوبی پنجاب میں بہت کام کیا ہے۔
اس سے قبل کام کم ہوتا تھا ڈھنڈورا زیادہ ہوتا تھا۔ الگ صوبے کا لالی پاپ دیکر چکر دینے کی کوشش کی جاتی تھی۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی کی مصداق نہ صوبہ بننا اور نہ ہی عوام کے مسائل حل ہونے۔ لیکن عثمان بزدار نے الگ صوبہ بننے کا انتظار نہیں کیا۔ انھوں نے پہلے مسائل حل کرنے پر توجہ دی ہے اور صوبہ بننے کا معاملہ ان کی رائے میں بعد میں دیکھا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں یہ درست حکمت عملی ہے۔ اس کے اچھے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ کم از کم لوگوں کے مسائل تو حل ہو رہے ہیں۔
ملتان میں نشتر 2 اسپتال پر کام کیا جارہا ہے۔ ڈی جی خان، بہاولپور اور راجن پور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں مدر اینڈ چائلڈ اسپتال بنائے جارہے ہیں۔ پچھلے ادوار میں ایک بھی مدر اینڈ چائلڈ اسپتال نہیں بنایا گیا، رحیم یار خان میں شیخ زید اسپتال 2 اور ڈی جی خان میں دل کا اسپتال بن رہا ہے، راجن پور میں انڈس یونیورسٹی، بہاولنگر اور ڈی جی خان میں بھی یونیورسٹیوں کے قیام کے ساتھ ٹوٹل 15 نئی یونیورسٹیاں بنائی جارہی ہیں۔ نئی سرکاری یونیورسٹیوں کے قیام سے تعلیم کا کاروبار کرنے والے لوگ عثمان بزدار سے بہت ناراض ہیں۔ وہ وہاں تعلیم کی کم سہولیات کو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ لیکن اب اعلیٰ معیار کی سرکاری یونیورسٹیاں وہاں پہنچ جائیں گی تو ان کا بوریا بستر گول ہو جائے گا۔
گزشتہ دنوں مجھے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں اب طلبا کی تعداد پنجاب یونیورسٹی کے برابر ہو گئی ہے۔ وہاں اس قدر سہولیات دی گئی ہیں کہ ساٹھ کلومیٹر دور تک سے بچوں کو لانے کے لیے یونیورسٹی خو د بسیں چلا رہی ہے۔ نئے بلاک بنے ہیں۔ یونیورسٹی نے اپنا 2.5میگا واٹ کا سولر پلانٹ لگا لیا ہے۔ اسی طرح بہاولپور کی چولستان یونیورسٹی برائے ویٹنری سائنسز میں بھی کلاسز شروع ہو گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں کے بچوں کو بھی اب لاہور نہیں آنا پڑتا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب سمیت پورے پنجاب میں 88 نئے کالج بنائے جارہے ہیں جب کہ 75 نئے کالجز بنائے جاچکے ہیں۔
میں نے گزشتہ روز کے کالم میں بھی لکھا ہے کہ عثمان بزدار کی کارکردگی تب تک سامنے نہیں آئے گی جب تک وفاقی حکومت معیشت کے بنیادی اعشاریے ٹھیک نہیں کرے گی۔ اگر بجلی پھر مہنگی کر دی جائے گی تو عثمان بزدار جتنا چاہے کام کر لے اس کا سیاسی اثر نظر نہیں آئے گا۔ بجلی مہنگی کرنے کا ایک عمل ان تمام کاموں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی ان تمام کاموں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ مہنگا پٹرول سب کچھ ختم کر دیتا ہے۔ لیکن یہ کام عثمان بزدار نے نہیں کرنے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ عثمان بزدار اپنے حصہ کا کام کر رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے وفاقی حکومت بھی اپنے حصہ کا کام کرے۔ یہ ایک ٹیم ورک ہے۔ اگر گزشتہ حکومت کی مثالیں دی جاتی ہیں تو تب وفاقی حکومت نے ڈالر، بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں کو کنٹرول کیا ہوا تھا۔ جس کے بعد صوبائی حکومت کی کارکردگی سامنے آتی ہے۔ اس لیے جب ایک ہی جماعت کی مرکز اور صوبہ میں حکومت ہو تو لوگ ان کو ایک ہی سمجھتے ہیں۔ اس لیے وفاقی حکومت کی کارکردگی کا اثر بھی عثمان بزدار پر ہوتا ہے۔ یہی حقیقت ہے۔ باقی سب سیاسی بیانیوں کا کھیل ہے۔