Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Edmund Burke Ki Siyasat

Edmund Burke Ki Siyasat

سچ کہدوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے

میں کبھی بھی آئرش نژاد برطانوی مفکر اور فلسفی ایڈمنڈ برک کی سیاسی سوچ کو اپنا فکری موضوع نہ بناتا، اگر میری پارلیمنٹ میں کچھ ارکان ایڈمنڈ برک جیسے فصیع و بلیغ ہوتے، اسمبلی اور سینیٹرز کی تقریریں فصاحت و بلاغت کی ایک بہتی ندیا کی طرح سنائی دیتیں۔

میں ان کی پریس کانفرنسیں سنتا، پڑھتا تو تدبراور دور اندیشی کی ان سے لہریں اٹھتیں، وہ عوام کے لیے قانون سازی کرتے نظر آتے، پبلک ایشوز پر مناظرہ ہوتا، کوئی بوم میرٹھی اور علامہ چرکین نہ ہوتا، کسی دن رکن اسمبلی ایسا خطاب کرتا کہ میڈیا دوسرے دن اس کی شہ سرخی لگاتا، مگر میری بد نصیبی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔

میں نے دو روز قبل ایک وفاقی وزیر کو ٹی وی ٹاک میں اپوزیشن کے خلاف یہ نفرت بھری گفتگو کرتے سنا کہ " میں تو ان سے بات نہیں کرتا، ان کی شکل تک نہیں دیکھتا۔" خیر سے وہ پارلیمنٹیرین کہلاتے ہیں، گزشتہ ڈیڑھ سال میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا " خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔"

میرا مطلب پارلیمانی جمہوریت کو پژمردہ، بے مغز اور فرسودہ سیاسی لڑائی کا میدان جنگ سمجھنا نہیں، نہ میں ایڈمنڈ برک کو قبر سے نکال کر ملکی پارلیمانی سیاسی روح کے نئے قالب میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ برک مرگئے، مگر سچ تو یہ ہے کہ ان کے خیالات جاگ رہے ہیں، آج انھیں پڑھتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ ہمارا سیاسی مکتب خیال الزام تراشی، کردار کشی، بہتان طرازی، گالم گلوچ اور دروغ گوئی سے آلودہ کیوں ہے؟ ہماری پارلیمنٹ عوام کے مسائل کے حل کے لیے بہترین قانون سازی کیوں نہیں کرتی، احتساب ویسا قابل توقیر اور شفاف کیوں نہیں ہوتا جیسا برطانوی الیکشن ہوا ہے۔

ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں، پانچ سال کی سیاسی کشمکش میں یہ تیسرا برطانوی الیکشن ہے، بریگزٹ کی گہما گہمی، سرگرمی، شعلہ بیانی کیا کچھ کم تھی، پارلیمان میں سابق وزیر اعظم تھریسامے کو ریفرنڈم اور پھر الیکشن کے نتیجہ میں مستعفی ہونا پڑا لیکن ڈاؤن اسٹریٹ میں کوئی لشکر دھاوا بولنے نہیں آیا، الیکشن نامنظور کے نعرے نہیں لگے، بینرز اور پر تشدد احتجاجی مظاہرے نہیں ہوئے، اسی طرح کل ہی کی بات ہے کہ وزیراعظم بورس جانسن نے الیکشن لڑا اور پھر سے جیت گئے۔

فاتح قرار پائے، سارا انتخابی عمل شائستگی، جمہوری جوش وخروش اور پارلیمانی روایات کے ساتھ مکمل ہوا۔ کوئی گملہ نہیں ٹوٹا، کسی طرف سے شور نہیں اٹھا کہ الیکشن کیوں؟ جیرمی کوربن نے شکست تسلیم کی، اور ووٹوں کی گنتی ابھی جاری تھی کہ پارٹی کی قیادت سے بھی فی الفور استعفیٰ دے دیا۔ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ کیا روئے زمین پر ایسی بھی سیاست ہوتی ہے۔ جمہوریت کی روح، اس کی روایت، اس کا خمیر ایک ہے تو پارلیمینٹیرینز کے ضمیرکی خلش گرگٹ جیسا رنگ کاہے کو بدلے ہے؟ ہم اپنے سابق آقاؤں کی پارلیمنٹ کو ماں کا درجہ دیتے ہیں، لیکن اپنی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں آنا اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہمیں گوارا نہیں۔ بہرحال اس سوز غم کو یہیں چھوڑتے ہیں اور اجنبی سیاسی مفکر ایڈمنڈ برک کی باتیں کرتے ہیں۔

ایڈمنڈ برک عظیم مقرر، بے مثال فلسفی اور منفرد سیاسی مفکر تھے، انھیں رائٹر آف جی نیئس کہا جاتا تھا۔ وہ سیاسی کلاسیک تھے۔ ان کی تحریروں اور تقاریرکے لیے کہا جاتا تھا کہ وہ خیالات اور تاریخ کا بہترین انتساب تھیں۔ ایڈمنڈ برک نے1730میں آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں جنم لیا۔ برک اپنے ایک عظیم فلسفی کی طرح اسی سوچ کے حامل تھے کہ بیانیہ سے متعلق تخلیقی کاموں میں پیسہ زیادہ ملتا تھا، ان کی پارلیمانی تقاریر آج بھی سیاسی خطابات کے طور پر حوالہ کا بہترین اثاثہ سمجھی جاتی ہیں۔ انھیں سیاست کے انتظامی جھمیلوں سے زیادہ ایک سیاسی " پنڈت " کی حیثیت حاصل تھی۔

اتنی زبردست خطابت اور تخلیقی سوچ کو بوجود برک نے اپنی کسی خانوادی کی تشکیل نہیں کی، اور پارلیمانی سیاست میں اپنا کوئی مکتب خیال پیدا نہیں کیا، ایڈمنڈ برک کی ایک خوبی یہ شمار کی جاتی ہے کہ اپنی تقلید پرستانہ کوئی روایت بھی چھوڑ کر نہیں گئے، نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے لیے اپنے زریں خیالات، فلسفہ اور نظریاتی برانڈ کا ورثہ کسی کو دے کر گئے جب کہ ان کی پیروی اور احترام میں سیکڑوں پارلیمینٹیرنز نے ان کی سوچ کی عکاسی اور ترجمانی کی کوشش تو کی مگر مشکل یہ تھی کہ برک جیسا فلسفیانہ ذہن اور سیاسی حکمت ودانش کہاں سے لاتے؟

وہ مذہب و سیاست میں نئی اورینٹیشن چاہتے تھے، ان کی سیاست فلسفیانہ میتھڈ سے مستعار تھی۔ ایڈمنڈ برک نے عمر بھر ایک تعلیم یافتہ اشرافیہ، دولت مند اور طاقتور طبقہ کی بہتری اور اصلاح میں گزاری، اس نے تشدد کو ہمیشہ لاحاصل گردانا۔ برک کی ذہنی استعداد کی یہی تبدیلی تجرباتی طور پر واضح اور بلند سیاسی فکر کی شکل میں نمایاں ہوئی جسے آئر لینڈ کی نشاۃ ثانیہ کے آئینہ میں تاریخ کے طالب علم آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔

برطانوی پارلیمانی تاریخ میں ان کی تقاریر نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اگرچہ یہ تقریریں مخصوص موضوعات، سیاسی تنازعات، پارلیمانی مسائل پر مبنی تھیں، لیکن برک کی فصاحت اور ان کے فلسفیانہ تخیل کی پرواز نے سیاست، منطق اور استدلال کو پارلیمنٹ اور جمہوریت کو عملی اور فکری استقامت بخشی۔ ایڈمنڈ برک کے خیالات کی فلاسفی دو حصوں میں منقسم تھی۔ پہلا تو یہ کہ ان کی سوچ فلسفیانہ تصورات میں گندھی ہوئی ہے، جس سے وہ پیچیدہ سیاسی گھتیوں کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں، پھر وہ فلسفہ کی نفسیات سے رجوع کرتے ہیں، فلسفہ اور لسانیات کے دریا میں اترتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان کا خطیبانہ انداز فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتا ہے، وہ طویل ترین جادو بھری تقریروں کی روایت میں اپنا کوئی جانشین نہیں چھوڑتے، لیکن جو چیز ایڈمنڈ برک کو منفرد بناتی ہے وہ ان کے خیالات کی طاقت ہے جو امریکا، برطانیہ اور یورپی ملکوں کے ماضی کو ایک لڑی میں پروتی ہے۔

اسے ایک عملی سوچ اور تحریک عطا کرتی ہے، برک کی سوچ تجزیاتی ہے، وہ ذہن پر خیالات کی علمی چھاپ ثبت کرتے ہیں، یہ اثرات ترقی، استحکام اور فروغ علم سے متعلق ہیں۔ برک کی سیاسی خدمات کا کم مطالعہ کیا گیا ہے، مگر جو لوگ برک سے اوراق پارینہ کے تاریخی مکالمے اور علمی رابطے میں آتے ہیں، انھیں لگتا ہے کہ برک کے خیالات و احساسات اور فکر نے انھیں انگیج کرلیا ہے۔

سیاست، ریاست، امارت، حکومت، پارلیمان اور جمہوریت کے باب میں ان کے خیالات کا اشہب دوراں خوب دوڑتا ہے۔ ان کا قول ہے کہ بادشاہ پالیسی کے حوالہ سے ظالم ہوتے ہیں جب کہ عوام اصولی طور پر باغی۔ منافقت اور ریاکاری اس بات کی متحمل ہوتی ہے کہ وعدہ کرنے میں اسے کوئی عار نہ ہو، کیونکہ اس کام میں وہ بڑی شاندار ہوتی ہے، ایسے لوگ اپنے وعدوں سے نہیں پھرتے چونکہ ایسا کرنے میں انھیں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دولت ہماری دسترس میں رہے تو ہم امیر ہونگے، لیکن اگر ہماری دولت کا ہم پر حکم چلتا رہے تو پھر ہم مفلس ہی ٹھہریں گے۔

برک کہتے ہیں کہ کسی ریاست میں اچھے لوگ کچھ بھی نہ کریں تو لا محالہ برے لوگوں کی حکمرانی قائم ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ ان کے مطابق یہ بہت مشکل کام ہے کہ اختیارات کے غلط استعمال کے شبہ پر اس وقت کوئی دلیل دی جائے جب غلطیاں ہمارے اندر ریاستی سسٹم میں ہوں اور ہم ان کے لیے مورد الزام ان کو ٹھہرائیں جو "اجنبی" ہیں۔

اس بات کی صداقت کو برک کے منہ سے کون چھین سکتا ہے کہ خوشامدی لوگ خودکو اور جس کی جا رہی ہے اسے کرپٹ کرتے ہیں۔ یہ ایک عمومی مغالطہ ہے کہ جمہوریہ کی بہتری کے لیے عوام بڑھ بڑھ کے شکایتیں کرتے ہیں، اور آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، وہی ریاست کے بہی خواہ ہوتے ہیں، اور ان کے دل میں مملکت کی فلاح وبہبود کا درد ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ آپ کو وکیل بتائے کہ ہمیں کیاکرنا چاہیے، بلکہ انسانیت، عقل اور انصاف ہمیں توفیق اور راستہ سجھائے کہ ہمیں کرنا کیا چاہیے۔

چنانچہ لوگ جو قانون کے ذریعے کچلے جاتے ہیں، کوئی امید نہیں لگا پاتے، بے آرزو رہ جاتے ہیں، اور قانون سے انحراف کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اگر وہ یقین کرلیں کہ قانون ان کا دشمن ہے، تو وہ قانون کے دشمن بن جاتے ہیں، مطلب یہ کہ قانون سے انحراف کرنا ان کا اجتماعی رویہ بن جاتا ہے، اور وہ لوگ جن کا مطمع نظر یہ ہو کہ ان کے لیے امید کا شجر شاداب رہے اور ان کے پاس سے کوئی دمڑی نہ جائے تو یہ لوگ انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ ایڈمنڈ کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں ایک خطرہ یہ بھی رہتا ہے کہ اکثریت اس بات کی اہل ہوتی ہے کہ اقلیت پر انتہائی ظالمانہ جبر وستم کا طریقہ روا رکھے۔