خواجہ احسان سہگل ایک بار پھر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ تین عشروں سے زائد عرصے سے ہالینڈ میں سکونت پذیر ہیں۔
گزشتہ دنوں روزنامہ ایکسپریس کے دفتر آئے۔ ان کے ہمراہ ان کے بھتیجے زین سہگل بھی تھے۔ میں نے چھوٹتے ہی ان کی خیریت دریافت کی۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگے "شکر ہے جی رہے ہیں " میں نے احسان سہگل کی صحت، ان کی عمر اورگفتگو سے ہمیشہ دھوکا کھایا۔ وہ جب پہلی بارکراچی میں روزنامہ مساوات کے دفتر میں ملے تھے، وہ دن اور آج کا دن کسی بدلے ہوئے احسان سہگل کا پتا نہیں دے رہے تھے۔ چہرے پر وہی متانت، بے لوث مسکراہٹ، عجزکی وہی دولت جو وہ ہالینڈ میں لٹاتے رہتے ہیں۔
مروت، حس مزاح اور شائستہ ظرافت کی ویسی اٹھان جو سطح سمندرکی بلاخیز موجوں کے تلاطمsirfing کرتے ہوئے کسی ماہر میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جو چیز احسان سہگل کوگھر والوں کے درمیان یا دوستوں، ادیبوں اور شاعروں میں جواں سالی کی سند عطا کرتی ہے وہ ان کی انسانی فکر، عالمگیر محبت، مساوات اور امن، انصاف اور انسان دوستی کے تصورات سے گہری وابستگی ہے۔ احسان آئیڈلسٹ ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ جب وہ ضیا آمریت کی گرم دوپہر میں جلا وطنی پر مجبور ہوئے تو ہالینڈکو انھوں نے اپنی منزل کیوں بنایا۔ اس کے جواب میں ان کی کتاب Flight of Vision میرے حصے میں آئی۔
حقیقت یہ ہے کہ احسان سہگل کو ہمارے صحافی دوستوں نے ہمیشہ ایک قلندرانہ شان کے ساتھ اپنی جوانی کے ابتدائی دن گزارتے دیکھا۔ میری ان سے ملاقات روزنامہ مساوات میں ہوئی۔ 1973 کا زمانہ تھا، پہلی ملاقات میں محسوس ہوا کہ ادب شناس ہیں۔ احسان سہگل دو اردوکتابیں ہاتھ میں تھامے اندر ہال میں داخل ہوئے، ایک کتاب ان کے اپنے غیر طبع زاد اقوال کی تھی اور دوسری کتاب زندگی کے متفرق تجربات، خیالات، فلسفیانہ موشگافیوں اور یک نشستی شارٹ اسٹوریز تھیں جو بعینہ آج کل کی سو لفظوں کی کہانیاں تھیں۔ ہمیں انھوں نے دونوں کتابیں دے دیں۔
یہ تھی ان سے دوستی کی شروعات۔ احسان نے 15 نومبر 1951 میں لاڑکانہ میں آنکھ کھولی، جامعہ سندھ سے بی اے کی جب کہ جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ماسٹرکیا اور ایل ایل بی کی سند حاصل کی۔ 65کی جنگ میں فوجی تربیت لیے ہوئے تھے، جنگی خدمات پر تمغہ جنگ بھی وصول کیا۔ روزنامہ "آغاز" سے جرنلزم کا کیریئر شروع کیا، اسی دوران ملک سے باہر جانے کا قصد کیا۔ ہالینڈ میں انھوں نے ایک ڈچ لڑکی سے شادی کی، جس سے دو بیٹیاں ہوئیں۔ ان غیر ملکیوں کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ احسان کی اہلیہ حسین وجمیل اور بے حد سنجیدہ وشائستہ گوری تھیں، اسلام قبول کرنے کے بعد جب کراچی پریس کلب پہنچیں تو یہ امتیاز کرنا مشکل تھا کہ وہ کسی مسلمان خاتون سے ادب، آداب اور اخلاق و سلیقے سے کم ہیں۔
ان کے طرز عمل رویے اور اخلاق نے بہتوں کو متاثر کیا، مزید برآں ان کی دونوں بیٹیاں بلاشبہ "پریاں " تھیں، میں نے ہمیشہ احسان سہگل کو خوش قسمت کہا کہ ایسی نیک سیرت گوری کے شوہر اورگلاب جیسی معصوم بچیاں تمہارے لیے نعمت خداوندی ہیں۔ پھر بدگمانی اور داخلی ناچاقیوں کی ایسی آندھی چلی کہ احسان کی دنیا تاریک ہو گئی، وہ ہالینڈ میں "تنہا"رہ گئے۔ چالیس سالہ رفاقت برباد ہوئی۔ بہرحال بچیاں پیا کے گھر سدھار چکی ہیں، ابوکو دیکھنے کبھی کبھار آجاتی ہیں۔ تاہم احسان کا حوصلہ تھا کہ انھوں نے ہار نہیں مانی۔ کراچی میں ایک معروف کاروباری گھرانے سے منسلک ہونے کے باعث وہ ادب و صحافت کی ساری سرگرمیوں کو ذرائع ابلاغ کی برقی و مواصلاتی دنیا سے ہم آہنگ کرتے رہے۔
کاشف رفیق نے لکھا کہ احسان سہگل کا نام ہمارے اساتذہ میں ہوتا ہے، ان کے انگریزی اقوال ہوں، شاعری ہو، یا خود نوشت سوانح حیات اپنے اندر ایک عہد کی تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔"ہیگ کا قیدی" Prisoner of The Haig ان کی معروف، دلچسپ اور فکر انگیز داستان حیات ہے۔ ڈچ زبان میں ان کی ضرب المثال او کہاوتوں پر مبنی کتاب کا اردو اور انگریزی ترجمہ نعیم عارف نے کیا ہے۔ احسان کی نعتوں، غزلوں کو یورپ اور پاکستان کے گلوکاروں نے بھی گایا ہے۔ وہ سیمینارز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں، ضرب سخن ان کے42 سالہ مشق سخن کا نتیجہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سابق صدر صدام حسین نے انھیں دوبار عراق کی پیپلز کانفرنس میں مدعوکیا، ایک بار بھارتی انٹیلی جنس اہلکاروں نے انھیں ورغلانے کی پوری سازش کی مگر وہ ان کے دام میں نہیں آئے۔
سینئر صحافی زیب اذکار حسین نے ایک انگریزی معاصر میں ان کی تین انگریزی کتابوں کے حوالے دیئے ہیں۔ Breathing WordsاورThe writings that fragrances ان کے فکر وتخیل کا نچوڑ ہیں جب کہ تیسری کتاب The wise Way ان کے اقوال پر مشتمل ہے۔ ان میں درجنوں فلسفیانہ باتیں مغرب، ومشرق اور عالمی سیاق وسباق میں انسانی رشتوں سے متعلق ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ آنکھیں کھولو، آئینہ دیکھو اورکسی کو نظروں سے مت گراؤ۔ ایک جگہ کہتے ہیں کہ امید اور خوف کا حوالہ ہی انسان کے لیے relief اور grief کا استعارہ ہے۔
احسان نے رباعیات بھی کہی ہیں، علم عروض پر انھیں دسترس حاصل ہے، جس کا ذکر ابن انشا اور بھارتی شاعر ندا فاضلی نے کیا ہے۔ احسان سہگل نے ہالینڈ میں مسلم اقوام متحدہ بھی بنائی۔ اس کا منشور عام کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ عالم اسلام اور مسئلہ کشمیر کے لیے ان کا جو میثاق تھا اگر اسے حکومتی پذیرائی ملتی تو آج یورپ میں صورتحال مختلف ہوتی۔
احسان سہگل جتنا طویل عرصہ ہالینڈ میں مقیم رہے ان سے ہماری دوستی اور تعلق نیٹ کا مرہون منت رہا۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی گردش دوراں کا شکار رہے، مگر ادب وصحافت سے جڑے رہے اور ہالینڈ میں بھی جب ان کے مبارک قدم پہنچے تو وہ "ہیگ کے قیدی" بنے۔ یہ عنوان ان کی کتاب کا ہے جو درحقیقت ان کی اس حالت زارکی داستان ہے جس میں وہ اپنی خود نوشت سوانح حیات بیان کرچکے ہیں۔ یہ ڈچ کلچر سے پیوست پاکستان کے ایک بے چین ادیب، شاعر، فلسفی اور صحافی کی انوکھی کہانی ہے جس نے کراچی میں صحافت سے آغاز کیا اور جب محسوس کیا کہ انھیں انسان نما بھیڑیوں کے ساتھ رقص کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے تو ان کے پاس کوئی چارہ نہ رہا کہ دیار غیر میں اپنا مقام پیدا کریں۔
اس سوانح عمری میں احسان پر جوگزری سوگزری لیکن ان کا پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا، کیونکہ ہالینڈ میں انھیں ایک نظام اقدار، انسانیت، حکمرانی کے تجربات سے شناسائی ملی، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع نصیب ہوئے، دکھ سکھ کے نئے معیار در پیش ہوئے، اندازہ ہوا کہ زندگی کے سکے کا دوسرا رخ اجنبی دیس میں کیسا لگتا ہے۔
احسان جب ہجرت کے تجربات پر اپنے فکر انگیز اقوال کا پٹارا کھولتے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے کس قول پر ضمیر کے کنج قفس میں جا کر فغان درویش بلندکی جائے اورکس قول کو "درد وغم کتنے جمع کیے تو دیوان کیا"کے زمرے میں شامل کیا جائے۔ اور کس شعری تخیل پر آنسوؤں کی آبشارکو روکنے کی کوشش ناتمام کی جائے۔ احسان نے دور اندیشی یہ کی کہ جلاوطنی میں فکروتخیل سے اپنا رشتہ مضبوط بنایا، بین الاقوامیت کو آدرش بنایا، اور اپنی تخلیقات اور فکری پیغام کو واٹس ایپ، فیس بک اور مختلف ویب سائٹس کے حوالے سے پھیلایا۔
ان کا یقین ہے کہ دنیا کی باطل طاقتیں امن وانصاف کے قتل کے درپے ہیں اور انسانیت موت کی دہلیز پر لائی جارہی ہے۔ ہیگ میں ان کا گھر پاکستان سے آنے والے دوستوں کے لیے کھلا رہتا ہے، عمران خان نے تو آج پناہ گاہ اور بے سہارا لوگوں کے مفت کھانے کا اہتمام کیا ہے، احسان سہگل کی وضع داری اور مہمان نوازی زمانہ ہوا ایک مسافر خانہ کی ضرورت پوری کرتی رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کو بس انسان کے کام ہی آنا چاہیے۔
درد مند اتنے ہیں کہ کہیں بھی اطلاع مل جائے کہ کوئی ہم وطن مشکل میں ہے، بیمار ہے اس کے لیے بے چین ہوجاتے ہیں، میں نے جاننا چاہا کہ کشمیرکی صورتحال پر ان کے خیالات اور موقف کو عالمی رائے عامہ میں کتنی پذیرائی ملی تو کہنے لگے کہ میرے جذبات واحساسات آج سے کئی سال پہلے قطعی واضح تھے، میں نے مغرب کی سفید فام اجارہ داری، فکری اور تہذیبی برتری کے خلاف قلم اٹھایا ہے، اس بات پر استدلال کیا ہے، بھارتی پالیسیوں پرکڑی نکتہ چینی کی، اور یہ موقف اختیار کیا کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم نہ کرکے بھارت نے انسانی حقوق کے عالمی چارٹرکو پامال کیا۔ سہگل صاحب کے ابلاغ و اطلاعات کے تمام وسیلوں اور سوشل میڈیا پر ان کی زبردست فالوئنگ ان کی ہمہ وقت موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ صنفی امتیاز، جینڈر ریوولیوشن اور مغرب کے بے جا تفاخر اور انسانیت کے مشترکہ آدرش پر ان کے پاس بے پناہ مواد موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کوئی دن ایسا نہیں گیا جب فیس بک پر میری دنیا والوں اور ہم وطنوں سے گفتگو نہیں ہوئی۔
احسان سہگل کی انجمن آرائی کا جواب نہیں۔ مگر اس بار مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک ایسی آبی مخلوق ہونے کے وجدان سے لبریز ہے جوکرہ ارض کو آگ وخون، تباہی وبربادی میں تقسیم ہوتے دیکھ رہی ہے۔ ایران و امریکا میں جنگ کا خطرہ، خطے میں پاکستان کو درپیش چیلنجزاور جاری داخلی کشیدگی پر ان کے خیالات جاننا چاہے تو انھوں نے معنی خیز اور تشویش بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا اورکہا کہ وطن کی خیر مانگتا ہوں، یہ دعا کا وقت ہے۔