فاروق پراچہ کراچی کے معروف سینئر صحافی رہ چکے ہیں۔ 60ء کا زمانہ تھا۔ اس وقت اخبارات میں نفسیاتی اور جنسی مسائل پر قارئین کے سوالوں کے جواب دیا کرتے تھے، جب اس نوعیت کے سوالات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ فاروق پراچہ نے ایم اے نفسیات کی ڈگری لی تھی، وہ روزنامہ " انجام " کراچی سے وابستہ ہوئے تھے۔
طفیل احمد جمالی ممتاز فکاہیہ کالم نویس تھے اور وہ انجام کے ایڈیٹر بھی رہے، ان دنوں شوکت صدیقی روزنامہ انجام کے مدیر تھے اور عباس اطہر، نذیر ناجی، اسرار عارفی، شفیع عقیل، امداد نظامی، خالد علیگ، جمیل زبیری، افضل صدیقی اور متعدد معروف صحافی انجام کی ٹیم میں شامل تھے۔
یہ وہ دور تھا جب کراچی کی بلاشرکت غیرے اردو صحافت کی سلطنت میں روزنامہ انجام کی حیثیت ایک باغی، غیر روایتی اور انقلابی اخبارکی تھی۔ روزنامہ "حریت" کا اجرا نیوچالی کے علاقے سے جناب فخر ماتری کی ادارت میں ہوا۔ حریت نے بھی کمال ٹیم ترتیب دی۔ ایسے اہل قلم پھرکسی اخبارکو نصیب نہ ہوئے۔ اس پر کسی اورکالم میں بات ہوگی۔ مجموعی طور پر اخبارات نے پاکستان میں ریاستی جبر اورآزادی اظہار کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے اور صحافیوں کی ایک ملک گیر ہڑتال نے ایوبی آمریت کی نیندیں حرام کردی تھیں، لیکن صحافیوں کے اتحاد کو توڑنے کی کیسی وارداتیں ہوئیں، ہڑتال ناکام بنانے کے لیے کیا کیا حربے اور ہتھکنڈے استعمال ہوئے، یہ کہانی پھر سہی۔
حقیقت میں فاروق پراچہ کی یاد ان کے ذہین فرزند ندیم فاروق پراچہ کے توسط سے آئی۔ ندیم فاروق پراچہ انگریزی معاصر " ڈان " کے معروف صحافی ہیں، انھوں نے گزشتہ دنوں قومی ہاکی ٹیم کے عروج و زوال پر ایک فکر انگیز تجزیہ پیش کیا۔ وہ اکثر یاد ماضی کے حوالہ سے سیاسی اور ثقافتی امور اور گم گشتہ حقیقتوں پر معلوماتی مضامین لکھتے رہتے ہیں، ہاکی کے زوال اور ماضی کی عظمتوں کا ذکرکرتے ہوئے انھوں نے ہاکی کے بتدریج سقوط اور زبوں حالی کے سیاق و سباق میں سیاسی حالات کے بھی حوالے دیے۔
ایک جگہ انھوں نے لکھا کہ (حالیہ) فیفا عالمی فٹبال کپ کا اندازہ کرلیں کہ جس میں کوئی برازیل، جرمنی اور ارجنٹائن نہ تھا، وہ جس فٹبال کپ کا ذکرکر رہے تھے، اس کے فائنل تک کروشیا اور فرانس کی ٹیمیں پہنچی تھیں، برازیل کو جرمنی کے ہاتھوں وہ عبرت ناک شکست ہوئی کہ آج تک برازیل پھر اپنے پیروں اور عظمت رفتہ کے ستون پر کھڑی نہ رہ سکی۔ پھر ان کا یہ سوال اور بھی دلچسپ تھا کہ ہاکی کا عالمی کپ ہو اور اس میں پاکستان ہاکی کو چراغ رخ زیبا لے کر ہم لوگ ڈھونڈنے نکلیں۔
حقیقت واقعی تلخ ہے۔ بھارت اور پاکستان ہاکی ایشین اسٹائل کی منفرد تاریخ رکھتے تھے، یورپی ہاکی ٹیموں کے مقابل پاک بھارت مقابلہ ہی دنیا کے لاکھوں شائقین کے لیے سب سے بڑی اور سنسنی خیز تفریح ہوتی تھی۔ ہالینڈ کے پنالٹی شاٹ ایکسپرٹ پال لٹجنز کی " ٹک " کر کے گول کے تختے پر لگنے والی گیند کی آواز ابھی بھی شائقین ہاکی کے کانوں میں گونجتی ہوگی۔
یہی ہنر منیر ڈار میں تھا۔ ہاکی پلیئرکھیل سے کمٹمنٹ کے باب میں "لارجر دین لائف" کھلاڑی تھے، ان کا ایک معیار تھا، ایک اسپرٹ تھی، مسابقت تھی، جوش و جنون سے کھیلتے تھے۔ میڈیا اور گلیمر کی گرم بازاری اور ترغیب و تحریص یا پیسے کی ہوس نہ تھی۔ بہرکیف اس جائزے میں ہاکی کے زوال کا ایک آئینہ شائقین کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس پر ارباب اختیار کی سوچ کیا ہوگی۔
ہاکی کو پھر سے عروج حاصل ہوگا، کیا اس انحطاط کے ذمے داروں کا کوئی احتساب ہوگا، یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب کے ہاکی شائقین ہمیشہ منتظر رہیں گے۔ کوئی سمیع اللہ، کلیم اللہ، نصیر بندہ، منیر ڈار، تنویر ڈار، شہناز شیخ، شاہد علی خان، حنیف خاں، شہباز جونیئر، منورالزماں، خالد حمید۔ حسن سردار، اصلاح الدین، اختر رسول، ریحان بٹ، سہیل عباس، وسیم فیروز، سعید انور، لالہ عبدالرشید، آصف باجوہ، کامران اشرف اور، دیگر مایہ ناز کھلاڑیوں کو کیسے بھول سکتا ہے، کراچی ہاکی کلب کیسے ویران ہوا، ایئر مارشل" ر، نور خان نے ہاکی کی نشاہ ثانیہ کے لیے کتنی محنت کی، ان کے ہاکی، اسکواش اورکرکٹ پرکتنے احسانات ہیں۔ بریگیڈیئر عاطف کے دور کو دیکھئے، یوں بہت سارے لوگوں نے ہاکی کو بام بلند پر پہنچایا۔
2004 آیا، زوال کی پنیری لگی، ہاکی میں پسند ونا پسند، گروہی ذہنیت، بالا دستی کی دوڑ، چپقلش اور ٹیم اسپرٹ پارہ پارہ ہونے لگی۔ ہاکی کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی۔ 2014ء میں ہاکی کے پتے موسم خزاں کی طرح بکھرنے لگے، آج کی کہانی فاروق ندیم پراچہ نے سنا دی، اب یہ کہانی پھر سہی.
قارئین کرام ! میرا موضوع فٹ بال ہے۔ پاکستان فٹبال کی کہانی بھی درد انگیز ہے۔ اس کھیل کو بھی اپنوں نے مارا۔ اس کھیل نے زوال، پستی اور انحطاط کے کئی ادوار دیکھے۔ کیسے نابغہ روزگار کھلاڑی نا قدری کا شکار ہوئے، کتنے منظم طریقے سے فٹبال کی ترقی، توسیع اور بلندی کے منصوبے کاغذوں پر بنائے گئے۔
ایک فٹبال تو ان لوگوں نے کھیلی جو قیام پاکستان سے قبل گراؤنڈ میں اترے تھے۔ ان کا ذکر ان کالموں میں ہوتا رہا۔ یہ فٹبالر انڈو پاک کے بہترین کھلاڑی تھے۔ عمر، عباس، غفور، راہی۔ موسی، عابد، داد محمد حسین کلر اور پھر علی نواز، شفیع، فیض، عیسی، رحمن، مولابخش مومن، یوسف سینئر، قادربخش پتلا، تراب علی، گوٹائی، غفار، جبار، غلام ربانی، ہارون، تقی، مراد بخش، خمیسہ بوس، ستار جبل، محمود ڈوک، ایوب ٹما، لالو گینڈا، شفو، شدو، روشو، اکبر، یوسف، تاجی، قیوم چنگیزی، اسماعیل اور سوالی، یعقوب، عبدالغفور بلوچ۔ ابراہیم اپنی کلاس کا مایہ ناز فارورڈ تھا۔
بہت سے چھوٹے بڑے گراؤنڈ تھے، گنجی گراؤنڈ، ریلوے گراؤنڈ، کے ایم سی گراؤنڈ، کے پی ٹی گراؤنڈ، کلری، گبول پارک، ککری گراؤنڈ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا سے پہلے سرحد کی ٹیموں کے اپنے گراؤنڈ تھے، مگرکوئی گراؤنڈ عالمی معیارکے اسٹیڈیم کا روپ نہ دھار سکا۔ 50ء کی دہائی سے فٹ بال گراؤنڈز fullyگراسی نہیں تھے۔ جدید ترین اسٹیڈیم کے لیے ہمارے فٹبالر شاید پیدا نہیں ہوئے تھے، یا فٹ بال فیڈریشن نے انھیں اس قابل نہیں سمجھا۔ کراچی میں پیپلزکمپلیکس ہے جو ماڑی پور روڈ پر عالمی سطح کا فٹبال اسٹیڈیم ہے مگر اس کے دروازے خصوصی ایونٹس پر شائقین کے لیے کھلتے ہیں۔
ایک وقت تھا کے پی ٹی، ریلوے گراؤنڈ مکمل فٹبال پلے گراؤنڈ تھے۔ فٹبال شائقین جوق درجوق وہاں جاتے تھے۔ علاقائی سطح پر ککری گراؤنڈ، گبول پارک، مولوی عثمان پارک، کلری اور لیاری جنرل اسپتال کے بالمقابل فٹ بال اسٹیڈیم کو جدید سہولتوں سے آراستہ ہونا چاہیے۔ گراس روٹس لیول پر فٹبالر ان ہی جگہوں پر ملیں گے۔
لیکن میرا سب سے اہم سوال پاکستان فٹبال فیڈریشن کے کرتا دھرتاؤں سے یہ ہے کہ لیاری سے سیاہ فام فٹبالر کیوں نظروں سے پوشیدہ ہیں؟ اس بلیک فورس کی افادیت اور اہمیت کا فٹبال حکام نوٹس کیوں نہیں لیتے۔ سوال یہ ہے کہ افریقہ کے کئی ممالک کی سیاہ فام افرادی طاقت خط افلاس سے نیچے زندگی بسرکرتی ہے لیکن ان کے نوجوانوں پر فٹبال کی غیر ملکی ٹیموں کے دروازے کھلے ہیں۔
نوعمر بلیک فٹبالرکو ان کے علاقوں سے چن چن کر انگلش، اٹیلین، اسپینش لیگز میں شامل کیا جاتا ہے، یورپین لیگزمیں بے شمار سیاہ فام افریقن کھلاڑی جن کی عمریں 15-16کے لگ بھگ ہیں، پروفیشنل لیگزمیں کھیل رہے ہیں، ان سیاہ فاموں کو افریقن فٹبال فیڈریشنزکی حمایت اور تکنیکی مدد حاصل ہے، افریقی حکومتیں روزگار نہیں دے سکتیں تو اپنے نوجوان فٹبالروں کے لیے ترقی اور روزگارکے غیر ملکی مواقعے پیدا کرنے میںدلچسپی رکھتی ہیں، ریکروٹنگ ایجنٹس نے سیاہ فام فٹبالروں کا بازار سجا رکھا ہے، عظیم میسی کہتا ہے کہ جواں سال عثمان ڈیمبلے مستقبل کا میسی ہے۔
مجھے یاد ہے پاکستان کے صنعتکار سیف الدین ولیکا نے لیاری میں ٹیلنٹ ہنٹ اسکیم میں دلچسپی ظاہرکی تھی، کارپوریٹ شعبے نے فٹبال کی پذیرائی کی۔ مگر میرا کرسٹل کلیئرسوال یہ ہے کہ لیاری کے سیاہ فام طاقت کی اہمیت کو کس نے نظرانداز کیا، فٹ بال فیڈریشن کیا کرتی رہی جس نے 70سال گزارنے کے باوجود فٹ بال کی کوئی ایسی طاقتور ٹیم نہیں پیدا کی جو ورلڈ کپ کوالیفائی کرکے وطن کا نام روشن کرتی۔
ان گزرے برسوں میں فٹ بال کو کنویں کا مینڈک کیوں بنایا گیا۔ چھوٹے جزائرکی ٹیمیں فیفا کپ کھیلنے لگیں، سعودی عرب، ایران نے اپنی عالمی سطح کی ٹیم بنائی، مگر پاکستان نا کام رہا، وہ ذہن، مافیا، اور ٹولہ قوم کی آنکھوں میںدھول جھونکتا رہا، اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان صرف علاقائی ٹورنامنٹس میں نمائشی میچز ہی کھیل سکتا ہے، ورلڈ کپ کے لیے ابھی توکسی ماں نے ایسا بلیک "پیلے" جنم نہیں دیا، کیا ہم یقین کرلیں کہ پاکستان کی فٹ بال ٹیم پیدائشی بانجھ ہے، یا فٹبال کے مسیحاؤں کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔
جی نہیں، علاج ہے۔ حکومت رینجرزکو ٹاسک دے، وہ لیاری کے نوعمر سیاہ فاموں کی ٹیلنٹ ہنٹ اسکیم شروع کردیں۔ فٹبال آرگنائزرز ناصرکریم، شریف بلوچ اور دیگر روشن ضمیر فٹبال منتظمین فیفا گائیڈ لائنز سے صحت مند، باصلاحیت، سیاہ فام پاکستانی نوجوان فٹبالرزکی کوچنگ شروع کر دیں، اس اسکیم کے لیے فنڈز چاہیے، کنگال افریقی سب کچھ کرسکتے ہیں تو ہم اتنے معذور تو نہیں؟