دنیا اطلاعات کے بھنور میں گھوم رہی ہے۔ اطلاعات وہی ہیں جو ہر طرف سے یورش کرتی ہیں۔ ہر شخص چاہے دنیا کے کسی خطے اورکسی ملک اورکلچر میں ہو اسے خبریں سننے، پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی حکمرانی میں بہت کچھ سچ، ڈھیر سارے جھوٹ میں گڈمڈ ہوتا رہتا ہے، افواہوں کا بازارگرم ہے، اسی سے فیک نیوز، جعلی اطلاعات اور ڈس انفارمیشن کادریا بہتا ہے۔
کوئی ملک اس ضرب کاری سے محفوظ نہیں، ترقی پذیر ملکوں میں آزادی اظہارکے مسائل، سنسرشپ، فری پریس پرقدغنوں کی ایک نہ ختم ہونے والی کہانی جمہوری عمل کو غلط روٹ پر لے جاتی ہے، آزادی تقریر سے معاشرے میں ہلچل مچ جاتی ہے، ایک طرف سیاستدانوں کی شعلہ نوائی اور دوسری طرف سرکاری اعلامیوں میں مشترکہ بات چیت بھی بحث ومباحثہ کا باعث بنتی ہے۔
ادھر امریکا، روس، برطانیہ، پاکستان، بھارت سمیت پورا عالمی معاشرہ اطلاعات کے بہائو میں سچ کی تلاش کی بڑی مچھلی پکڑنے میں مصروف ہے، مگر جھوٹ کے دیوہیکل مگرمچھ صاف بچ کر نکل جاتے ہیں۔ فری پریس کے خلاف ذرایع ابلاغ پر جابرانہ اقدامات اور پالیسیوں کی مزاحمت شدت کے ساتھ جاری ہے۔
اہل صحافت سخت دبائو میں ہیں، مگر مزاحمتی جنگ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، لاتعداد پر عزم اور سرگرم سیاستدان مخالفانہ خبروں کے مسلسل "حملوں " سے نڈھال ہوچکے، سرکاری سچ اور اپوزیشن کے بیانیے کی جنگ عروج پر ہے۔ منظر نامہ بین الاقوامی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ذرایع ابلاغ کے معتبر محقق، دانشوران اطلاعات، جامعات اور تھنک ٹینکس کے اسکالر خبروں کی افراط وتفریط اور جدید ٹیکنالوجی، رائے عامہ، اظہار کی آزادی پر کیا کہتے ہیں۔ ان کی رائے کی اہمیت کیا ہے؟
ایک حقیقت بلاشبہ سب دانشوروں اور سیاسی طور پر باشعور عوام پر عیاں ہے کہ آج کا انسان جدید ٹیکنالوجی کے حصار میں ہے، اس کا چین وسکون بھی مشینوں کا مرہون منت ہے اور اس پر روزمرہ کے مسائل کا پریشر بھی آن لائن اطلاعات، تفریحات اور نیوز اور ویوزکی آبشار کا پیدا کردہ ہے۔
اطلاعات تک رسائی یا اطلاعات کے جاننے کا حق ہر جمہوری معاشرے میں شہری کا آئینی حق ہے لیکن اس بنیادی حق کے راستے میں فیک نیوزکی کئی سمندری چٹانیں ہیں، آپ صدر ٹرمپ کی امریکی میڈیا سے چپقلش اور چشمک زنی کو دیکھیں، اس طاقتور ترین شخص نے امریکا کو جو رپورٹرز کی جنت کہلاتا ہے اسے جھوٹا انسان قرار دیا ہے، بڑے میڈیاگروپس کو ٹرمپ کتنی حقارت سے ٹھکراتا ہے اور بڑے میڈیا گروپس، معتبر اخبارات اور چینلز ٹرمپ کی کیسی درگت بناتے ہیں، میڈیا کے باعث ہی امریکی صدرکا مواخذہ ہونے کا خطرہ ہے مگر وہ ہر فکرکو دھوئیں میں اڑاتا چلاگیا کی روش پر قائم ہے۔
مغرب میں گورنمنٹ آف لیکس اورگورنمنٹ آف ڈسپشن کے دو دھارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، آزادی صحافت کی مسلمہ جمہوری اقدار کا ارتقا جاری ہے۔ ٹرمپ حکومت داخلی وخارجی اسکینڈلز سے چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے، ان کی سیاسی مزاحمت دھیمی پڑنے کو تیار نہیں بلکہ بیانات کے ترکش سے تیروں کی بوچھاڑ مزید ستم آرائی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔
اس کا تقابل ہم اپنی صحافت سے کرتے ہیں تو تمام تر داخلی سیاسی ارتعاش، اپوزیشن اور حکومت کے مابین بدگمانی اور میڈیا سے متعلق حکومتی اقدامات سے پیدا شدہ تنائو اپنے آف شوٹس میں سیاست کا پینڈورا بکس کھولے ہوئے ہے، کسی دانا کا قول ہے کہ صحافت کی غیر مشروط معروضیت میں ہر قسم کے جمہوری اور انتہا پسندانہ طرز عمل کا تریاق موجود ہے۔ آئیے ذرا انفارمیشن ٹیکنالوجی، خبر، اطلاعات اور سیاسی و سماجی رویوں کی کچھ باتیں دنیا کی دانشوروں سے سنتے ہیں۔
کہا گیا کہ مس انفارمیشن کسی پلمبرکا کام نہیں کہ مسئلہ ٹونٹی کا تھا سو حل کر لیا، یہ سماجی صورتحال کا معاملہ ہے، آپ جرائم کو مانیٹر کرتے اور اس سے مطابقت پیدا کرتے ہیں، انفارمیشن کی کیفیت آیندہ سالوں میں بہتر نہیں ہوگی، چونکہ ٹیکنالوجی انسانی فطرت کو بہت زیادہ امپروو نہیں کرسکتی، بات وہی آجاتی ہے کہ ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ مسئلہ کے حل پر عملدرآمد کا کوئی پیمانہ لاگو ہو، سماج پر حملے کی سطح وسیع ہے، اس کا دفاع اتنی آسانی سے نہیں ہوسکتا، دیکھنے کی بات ہے کہ فیس بک کے سسٹم پر لوگ جوق درجوق امنڈ پڑے ہیں، اس ایکو چیمبر میں ہر شخص ایک طرح سے سوچنے لگا ہے، وہ دوستیاں بگاڑتے ہیں جن کو پسند نہیں کرتے، جن سے ان کا نقطہ نظر میل نہیں کھاتا، ان کے خلاف افواہیں پھلاتے اور فیک خبریں چلاتے ہیں۔
بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس کھیل کے طریقے سمجھ گئی ہیں، زندگی میں سچ کا جو بحران ہم دیکھتے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ غلط چیز پر یقین کرنے کی اہلیت کے فقدان سے دوچار ہیں بلکہ الٹی فلم یہ چل رہی ہے کہ اچھے لوگوں پر بے بنیاد شک کی قابلیت کا چرچا ہے، اب تو لازم ہوگیا کہ صحافت میں ذرایع کا گولڈ اسٹینڈرڈ رائج ہو اور یہی سہولت ہوگی، وہ طاقتور ملک جو اسلحہ کی دوڑ میں شمال ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ گمراہ کن اطلاعات پھیلائی جائیں اور جو درست خبریں دیتے ہیں ان پر اول الذکرکو فوقیت حاصل ہوگی۔
دنیا میں بے شمار امیر وکبیر، مخرب الاخلاق لوگ ملیں گے، عجیب سیاستدان، نان اسٹیٹ ایکٹرز اور اسٹیٹ ایکٹرز سے سامنا ہوگا جن کو فیک انفارمیشن کا انسنٹیو ملا ہے اور وہ اس پردھڑلے سے عملدرآمد کرتے ہیں، فنانشل سطح پر اس برائی کو روکنا ضروری ہے، فیک نیوز سے ملنے والا منافع بند ہوگا تو بہتری آئے گی، کیونکہ ہم سوشل میڈیا کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، فیک نیوز سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے، سونے پر سہاگہ کہ آزادی صحافت بھی ہے، یہ صورتحال کیسے بہتر ہوگی، سوچیے، ایک اور بات سنسرشپ کے دستورکے نرالے پن کی ہے، کوشش ہورہی ہے کہ عوام کی اجتماعی نگرانی کی جائے، سوچ کے اندر چپ لگا دی جائے، جس دن ایسا ہوگیا "سرکاری " سچ دنیا کے بیشتر ملکوں میں وائرس کی طرح پھیلے گا، ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اگر صنعتی قوتوں نے پریشر ڈالا کہ افرادی قوت کی کھپت کا مسئلہ حل کیا جائے تو اس کی میتھڈالوجی متعارف کرانا ہوگی، یہ کرنا پڑے گا، جب ہی تو ترقی ہوگی۔
حقیقت میں جب ٹیلیوژن کو مقبولیت حاصل ہوئی تو عوام نے اسی میڈیم پر سچ کا یقین کرلیا، لوگوں کی دلچسپی بڑھنے لگی، ان کے لیے خبروں کا انتخاب، اطلاعات پر ردعمل اور ذرایع و وسائل تک اطلاعاتی رسائی اہم چیز بن گئی، وہ جاننے لگے کہ کون سی خبر ضروری ہے، اس کے میکنزم اور اس کی تقسیم کے نیٹ ورک سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب پرنٹنگ پریس نے پہلی بارانفارمیشن مینجمنٹ کے سسٹم کو تبدیل کیا تو ہمارے سامنے ایک نیا میڈیم آیا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا، اہل صحافت نے اس یقین کااظہار کیا ہے کہ اس میڈیم میں موٹیویشن بھی ہے اور اہلیت بھی اور اس میں اپنے کام کو باربار کرنے کی صلاحیت بھی ہے، اسی سے تخلیقی ذہن کو یہ اشارہ ملتاہے کہ آیندہ زمانے میں انفارمیشن کے کسی بھی "سورس" کو اعتباریت ملے گی، اس پر عوام کا اعتماد مزید بڑھے گا، ظاہر ہے جب ایک قابل اعتبار سورس سے خبر کی کریڈیبلیٹی بڑھے گی تو فیک نیوز صحافتی درخت کی سب سے خشک ٹہنی پر لٹکا ہوگا۔ اس کی ویلیو نہیں ہوگی۔
اطلاع کے فیک ہونے کا تہذیبی نقصان بھی ہے، جدید ٹیکنالوجی سے انسان مشینی معلومات اور تکلم و دانش سے استفادہ کے حصول میں غلامی قبول نہیں کرسکتا، مشین اور انسانی ذہنی کی تخلیقی اپج ایک دائمی حقیقت ہے، مشین سے جبلی محبت "عشاق کے بتوں سے فیض پانے" کی روایت سے بغاوت پر مجبور ہوگی۔ لیونارڈو ڈیونسی کی ایجادات ایک فطین شخص کی اپنے عہدکے سب سے بڑے آدمی کی پیش قدمی تھی۔
اس بات کا اندیشہ ہے کہ کمزور اور ناقابل اعتبار اطلاعات کی مفلسی بھی قیامت ڈھاتی ہے، لہذا افلاس زدہ مدنی شعور پر مبنی اطلاعاتی نالج اور خواندگی کے کمزور طوفان سے خود بھی بچنے کی کوشش کریں اور مشین کے ساتھ ساتھ اپنے اختراع اور ایجادات کو بھی اطلاعات کے میڈیم سے مربوط کیجیے۔
صحافیوں کے سواداعظم، پالیسی میکرز اور نیوز انڈسٹری کے لیے یہ ویک اپ کال ہے کہ وہ نیوز پروڈکشن کے پورے سسٹم کو جدت سے آراستہ کریں، عوام کو قابل اعتبار اطلاعات دیں، جعلی خبروں کے طوفان کو روکیں۔ ایک بزرگ صحافی نے کہا ہے کہ انفارمیشن وہی قابل اعتبار ہوتی ہے جسے وصول کرنے والا بھی اعتبار کے کسی قابل فہم درجہ پر ہو۔ اس بات کی صداقت ثابت کرتی ہے کہ فیک نیوز کے غیر اخلاقی صحافتی چلن کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے خدشات بڑھ گئے ہیں، ان دروازوں کو بند کرنے کی ضرورت ہے۔