Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kaise Kaise Log Hamare

Kaise Kaise Log Hamare

جب صورتحال جنگ اور امن کی اعصاب شکن کشمکش کی ہو تو دانشوروں میں انقلابی گفتگوکی بازگشت ہرجگہ سنائی دیتی ہے، سڑک کے کنارے قائم چائے خانوں، کافی ہاؤسز حتی کہ بانکڑا ہوٹلوں پر بھی اہل انقلاب اس قسم کے اشعار سناتے ہوئے نظرآتے تھے۔

یہ انقلاب زمانہ تھا یا فریب نظر

گزرگیا ہے مگر انتظار باقی ہے

ظہیرکاشمیری کے شعر سنئے۔

ہمارے عزم مسلسل کی تاب وتب دیکھو

سحرکی گود میں رنگ ِشکستِ شب دیکھو

عجم میں شعلہ بکف پھر رہے ہیں دیوانے

بھڑک اٹھے نہ کہیں دامن عرب دیکھو

جب کہ علمی، ادبی اور سیاسی گھرانوں کے بندکمروں اورکھلے صحن بھی انقلابی نشستوں سے محروم نہیں رہتے تھے۔ اس حوالے سے ملک بھرکے ادب دوستوں میں لیاری کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ مجھے یاد ہے بلوچ سیاسی رہنما، ادیب یوسف نسکندی، ملک طوقی، اکبر بارکزئی، یار محمد یار، رحیم بخش آزاد، لالہ لعل بخش رند، لطیف بلوچ، ن م دانش، نور محمد شیخ، رمضان بلوچ، پروفیسر علی محمد شاہین، انور بھائی جان جب کہ شہر کراچی سے ادیب، دانشور، معروف کالم نویس، محنت کش رہنما انور احسن فاروقی، عالم دین جیلانی چاند پوری، شفیع ادبی، تنویر رومانی، احمد دستگیر، منظور رضی، ثمین خان اور دیگر نام جو اس وقت قرطاس ذہن پر نہیں آرہے عموماً اس قسم کی گفتگو میں شامل ہوتے تھے، کھڈہ دریا باد میں سندھی دانشور، فنکار شاعر اور بیوروکریٹس کی بیٹھکیں ہوتی تھیں۔ محمد جمن ہالو اور عبد الحلیم شیخ، حسین سیٹھ، نور محمد علاقے کے معروف لوگ تھے۔

بعد ازاں پیپلز پارٹی کے ایم این اے مختار رانا بھی لیاری کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ خاکسار تحریک کے میر غلام قادر ہمدانی کو کئی بار اپنے گھر آتے دیکھا۔ چاکیواڑہ میں ڈاکٹر بدل خان بلوچ اور ڈاکٹر تاج محمد بلوچ موجود رہے۔ سید صالح شاہ آف شیر شاہ نے کئی اجتماعات منعقد کیے۔ راز مراد آبادی، سید امداد حسین کے گھر آئے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ حسن مجتبیٰ کی ان شخصیات سے قربت نہ تھی۔ ان محترم شخصیات میں یوسف نسکندی کی انفرادیت بے مثل تھی۔ ان کی مارکسزم پر مبنی گفتگو کو شرکا غور سے سنتے، وہ بلوچستان کی سیاسی صورتحال پر بات کرتے تو معلومات، تجزیے، استدلال، استنباط اور معروضیت کا دبستان کھول دیتے تھے، اکبر بارکزئی دانشور ممتازشاعر اور بلوچی کی لسانی تشکیلات کے ماہر ہیں۔

آج کل بیرون ملک مقیم ہیں۔ جب سید ظہور شاہ ہاشمی بقید حیات تھے تو ان کی ادبی مجلسوں اور ملاقاتوں میں عطا شاد، محمدبیگ بلوچ، بشیر احمد بلوچ، اصغر درآمد، صمد امیری، احمد ظہیر، علی عیسیٰ، صدیق آزات، اسماعیل ممتاز، نصیر شاہین، غوث بخش صابر، عبدالقیوم بلوچ، حکیم احمد، صبا دشتیاری، منصوربلوچ، عابد آسکانی، جی آر ملا (مرحوم) عباس علی زیمی، ابراہیم گوادری، ابراہیم نگوری سمیت نئی نسل کے شاعر، نقاد، ادیب وافسانہ نگار شرکت کرتے۔ اس میں دلچسپ بات یہ تھی کہ علاقے کے اسپورٹسمین بھی اپنے ذوق وشوق کے مطابق مکالمے کے ایسے تخلیقی، علمی اور ثقافتی مواقع سے استفادہ کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ کراچی میں پنجاب، بلوچستان، اندرون سندھ اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا)سے بھی ادبی شخصیات اور سیاسی رہنما آتے رہے ہیں۔

میر غوث بخش بزنجو، جنرل شیروف، ولی خان، اجمل خٹک، قصورگردیزی، عبدالمالک بلوچ، باقی بلوچ، محمودالحق عثمانی جب کہ مولانا بھاشانی مشرقی پاکستان سے آتے تھے۔ جی ایم سید اندرون سندھ سے آتے اور تاریخی نشتر پارک کے ساتھ واقع گھر حیدر منزل میں قیام کرتے۔ اسی لیاری کے ایک گھر میں مختار رانا آکر قیام کرتے اور فرش پر سوتے تھے، پی پی کے ایم این اے تھے۔

اماں " دانلی" کی سیخ کباب کھاتے اورچٹنی کی تعریف کرتے۔ رات کو سیفی اسپورٹس کلب کے کھلاڑیوں سے گپ شپ کرتے۔ ایک خاص بات رانا صاحب کی سانحہ لیاقت علی خان سے جذباتی وابستگی تھی، وہ جب کراچی آتے لیاقت علی خان کے پراسرارقتل کی تحقیقات پر کوئی پریس کانفرنس، یا اخباری بیان ضرور جاری کرتے۔ محفوظ النبی صاحب اسی روایت کو تازہ رکھے ہوئے ہیں، ضیا الحق کی آمریت میں لندن چلے گئے۔ ان کی شعلہ نوائی پر مبنی ایک تقریرہم نے خالق دینا ہال میں سنی تھی۔ آج اس انقلابی مختار رانا کی صرف یادیں باقی ہیں۔

ایک دن والد صاحب نے مجھے یاد دلایا کہ ان کے بہت پرانے دوست احمد دستگیر آنے والے ہیں، ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھانا اورچائے وغیرہ رکھنے کے بعد قریب کونے میں بیٹھ کر ہماری گفتگو ضرور سننا۔ خدا کا کرنا کیا کہ کچھ اہل علم اور سیاسی شخصیات کی گفتگو جاری تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی، باہر نکل کر دیکھا تو واقعی جھونکا ہوا کا تھا، سامنے ایک دلپذیر شخص احمد دستگیر کے نام سے اپنا تعارف کرانے لگے، عمر رسیدہ تھے، ان کے ایک ہاتھ میں کپڑے کا تھیلا تھا اور غالباً اس میں کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔

میں نے اندر آکر ابو کو بتایا کہ احمد دستگیر صاحب آئے ہیں، یوں پہلی بار قوم پرست، اور ترقی پسند بلوچوں کی محفل میں شہر قائد کے اردو بولنے والے گمنام دانشور کو بولتے سنا۔ ان کے مقولے یاد رکھے گئے، مثلا ان کا کہنا تھا کہ آپ اسی جگہ صحت نہیں پاسکتے جہاں آپ کو زخم لگا ہو۔ یہ گھاؤ ادبی، سیاسی، نفسیاتی اور جذباتی ہوسکتا ہے۔

احمد دستگیر نے کارل مارکس کی "داس کیپیٹال" کے حوالہ سے گفتگو میں شرکت کی، وہ اشتراکیت اور اشتمالیت پر اظہار خیال کرتے رہے، میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا لیکن لذت تقریر نے دیوانہ بنایا۔ حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب مجھے بتایا گیا کہ احمد دستگیر ذہنی طور پر اسلامی اسکالر ہیں، اور علامہ مشرقی کے تھنک ٹینک سے تعلق رکھتے تھے، ان کے نزدیک علامہ مشرقی کی کتاب " تذکرہ" کو مولانا ابو الکلام آزاد کی "غبار خاطر " پرسبقت حاصل تھی۔ یہ علمی بحث بھی میرے پر سر سے گزرگئی، بہرحال عرصہ بعد محمد حسین آزاد کی "’آب حیات" دیکھی، پھر فردوسی کا " شاہنامہ" میز پر رکھی ہوئی ملی۔ وہی لمحہ تھا جب ایک نوٹ بک پر جوشؔؔ کا یہ شعر درج تھا۔

شاہنامہ اسلام کے لکھنے والے

اسلام کو شاہی سے تعلق کیا ہے

جو غالباً شاعر العصر حضرت حفیظ جالندھری کے شاہ نامہ اسلام سے متعلق تھا۔ بعض کتابوں پر ان ہی کالموں میں اظہار خیال کیا جاچکا ہے۔ گفتگو احمد دستگیر کے مطالعہ کی تھی، وہ شخص کثیر المطالعہ تھا اورکثیرالمشرب بھی، ان کا ہر ایک گھنٹے بعد یہ کہنا کہ نادر بیٹے! گرما گرم چائے نہیں آئی، بہت اچھا لگتا تھا۔ اسی گھر میں مختار رانا فرش پر سوتے تھے، پی پی کے ایم این اے تھے۔

جب گفتگو معاشی مسائل سے ہٹی تو انھوں نے ایک کتاب کے مسودہ کا ذکر چھیڑ دیا۔ کتابی کا مجوزہ عنوان تھا "سلیمان کے جن"۔ دستگیر صاحب جو کچھ کہنا چاہتے تھے، وہ میں نے اپنے ابو کی زبانی سنا کہ حضرت سلیمان کا حوالہ وہ سیاسی واقعات کے تناظر میں دے رہے تھے، احمد دستگیر کا کہنا تھا کہ ہماری سیاست پر کچھ جنات کا سایہ یا قبضہ ہوگیا ہے۔ حکمراں چاہتے ہیں کہ ان کے سارے سیاسی فیصلے اور اقدامات سلیمان کے جن اور ہد ہد کے ہاتھوں ہوجائیں گے۔ عوام اطمینان رکھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سید محمد تقی نے داس کیپیٹل کا اردو میں ترجمہ کیا تھا، وہ کتاب بھی گھر میں موجود تھی، ڈاکٹر عبادت بریلوی کی کتابیں ریک میں رکھی تھی، ڈاکٹر احتشام حسین کی کتاب "روایت اور بغاوت" مجھے دل وجان سے عزیز تھی۔

مگر میری سیاسی، تنقیدی اور تاریخی معلومات ان دنوں نصابی کتب تک محدود تھیں، طلبہ کے صفحہ یا شو بزنس کے پیج پر اکا دکا مضامین چھپ جاتے تھے، مجھ پر غیر ملکی عظیم مصوروں اور شوبز اسٹارز پر انگریزی مضامین کے ترجمے کرنے کی دھن سوار تھی۔ ترجمہ کا فن مشکل لگتا تھا لیکن والد صاحب کی نصیحت تھی کہ انگریزی اور اردو زبان صحافت کے دو پہیے ہیں، جرنسلسٹ کو بائی لنگویل ہونا چاہیے۔ یہ مشورہ ممتاز نقاد محمد علی صدیقی نے بھی دیا جب لیاری کی ایک ادبی نشست میں شرکت کے لیے وہ میری موٹرسائیکل پر بلوچ ہال تشریف لائے۔

ان دنوں شفیع عقیل، نعیم آروی، افسر آذر اور نسیم نیشو فوزکے اکثر مضامین پابندی سے چھپا کرتے تھے۔ بڑے علمی ہوتے تھے، زاہدہ حنا کی " تلخیص و ترجمے" میرے لیے مستقبل کی چیز ہوا کرتے۔ لہذا ان کے تراشے محفوظ کرلیا کرتا تھا۔ ذہن میں کسی معلم نے یہ بات بٹھا دی تھی کہ برخوردار، اردو زبان آتی ہے آتے آتے۔ اس بات پر ایک سینئر صحافی زور دیتے تھے کہ نئے قلم کاروں کو اردو ادب کا تنقیدی ادب پڑھنا چاہیے۔

روزنامہ ڈان کے افضل بلوچ نے ایک بارکہا کہ انگریزی میں لکھنے کی صلاحیت، روانی، سلاست اور تاثریت کے لیے انگریزی ناولوں کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ کچھ لوگوں کی صائب تجویز تھی کہ نئی نسل کے رائٹرزکو کلاسیکی اردو شاعری ضرور پڑھنی چاہیے اور غلط شعر پڑھنے کو وہ قتل شعر سے تعبیرکرتے تھے۔ مجھے محمد بیگ بلوچ نے بتایا کہ شعرکو آپ اپنے کمرے میں با آواز بلند پڑھا کریں، اس سے آپ کی آواز مترنم ہوجائے گی اور ساؤنڈ سسٹم شعری آہنگ کے ساتھ تخلیقی تحریک کا سبب بھی بنے گا۔

منیر نیازی کا مشہور شعر ہے کہ

کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں

اپنے اپنے غم کے فسانے ہمیں سنانے آجاتے ہیں

خدا گواہ کہ ہمیں جوانی میں ایسے ایسے شاندار لوگ ملے جن کے آج ہم دلکش فسانے آپ کو سنانے اس کالم میں موجود ہیں۔ لیکن

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ