Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kya Din They

Kya Din They

پہلے برصغیرکے ایک مشہور شاعرگوربخش سنگھ المعروف مخمورجالندھری کی ایک آزاد نظم کے کچھ حصے سنتے ہیں، پھر باقی باتیں۔ یہ اشعار تقسیم ہند سے قبل کے ہیں۔ آج جب ان اشعارکی گونج سنائی دیتی ہے تو پاکستان کرتار پور راہداری کی تاریخ ساز تعمیرکے عہد میں سانس لے رہا ہے، ایک طرف تقریباً 50 ہزار سکھ یاتری دنیا بھر سے بابا گرونانک کے550 ویں جنم دن کے موقع پر نارووال آرہے ہیں۔

پاکستان دنیا کو اقلیتوں کے حقوق، انسانی رواداری اور امن ومحبت کے آفاقی پیغام کو پھیلا رہا ہے، دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیرکی جنت نظیر وادی میں محصورکشمیری کرفیوکے سو دن مکمل کرچکے، ان کے جذبے جوان مگر دل زخمی، ان کے خواب ڈرائونے، ان کی چیخ صدا بہ صحرا اور ان پر بھارتی ظلم و بربریت سایہ فگن۔ لیجیے مخمورجالندھری کی درد میں ڈوبی ہوئی ایک بے منزل انسان کی فریاد سنتے ہیں۔

سالہا سال سے گھلتا ہے فضا میں زہراب

دور ونزدیک سے آوازیں چلی آتی ہیں

تلخی زیست کا پٹتا ڈھنڈھورا جن میں

سر ِ راہ پھیلے ہوئے دامن ِ تذلیل و طلب

بھوکے محتاج کی حالت پر ترس کھا بابا

راستہ روکے سر شام انوکھے تاجر

کیا کوئی مال نیا کورا دکھائوں صاحب

مردِ غیور میں آمیزش دریوزہ گری

ایک اور آنا دو سرکارگراں ہے گندم

دیو افگار غلامانہ تفاخر کی نمود

دیوڑھا درجہ ہے کہاں بھاگے چلے آتے ہو

مفلسی فاقہ کشی قابل تعدیب وسزا

چور نوکر ہو نکل جائو نہ آنا کل سے

اب آئیے۔ پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شہرکراچی کے پرانے دنوں کی طرف۔

یعنی لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

یہ 50 کی دہائی ہے۔ میری نگاہ اس دورکی سستی اشیائے ضرورت پر مرکوز رہے گی جو میری یاد داشت میں جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہیں اور غربت، مہنگائی اور لوٹ کھسوٹ کے اس بے ہنگم سماج کے گلرنگ ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔

اربن ماہرین لاکھ گزرے دنوں کو پسماندگی، ناخواندگی، بیروزگاری، منشیات اور خانما بربادی کے ونڈو سے دیکھیں مگر ہمارا پرانا کراچی بندہ نواز اور بندہ پرور شہر تھا، عجیب بات تھی کہ اس وقت بے شمار علاقے جنگل نما تھے، تعمیرات میں تاریخی بلڈنگز نمایاں تھیں جو برطانوی عہد اور ہندؤ مخیرحضرات کے اسکول وکالج اور صحت کے مراکز تھے، بابا امر جلیل نے تو اس کراچی کی تاریخ کتنی بار دہرائی ہے اورکتنے سوز و غم سے اس کے بننے اور بکھرنے کا نوحہ لکھا ہے۔

بہرکیف میری گنہگار آنکھوں نے لیاری کی never revisited بستی میں آنکھ کھولی۔ محنت کشوں کی بستی تھی، اور میں ایک ننگے پیر والا فٹ بالر تھا، کہتے ہیں لوگ مفت میں لیاری کو برازیل اور ان کے سیاہ فاموں سے نہیں ملاتے، قدرت اور تاریخ نے لیاری اور برازیل کے کالوں کو ایک مٹی سے پیدا کیا، لیکن یہ بھی فطرت کی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے سیاہ فاموں سے بے رخی اور عظیم فٹ بالر "پیلے"کی نسل کے فٹ بالروں پر دنیا مہربان رہی۔

لیاری کے کچے پکے مکانات بستی کی شان تھے، بعض خاندان تو اپنے بزرگوں کے ناموں سے پہچانے جاتے تھے، مثلا مراد بحرینی، عمر بحرینی۔ کثرت سے جونھپڑ پٹیوں کی قطاریں تھیں، ماڑی پور پر تعمیرشدہ پیپلز اسپورٹس کمپلیکس جو اب رینجرزکا ہیڈ کوارٹرز ہے اسے گنجی گرائونڈ کہتے تھے۔ جس کے ایک حصے میں کھڈا دریا باد تھا، میر بحر عرف مہانڑ برادری رہتی تھی آج بھی موجود ہے، بلوچ کمیونٹی نے لیاری کو اسپورٹس کا مرکز بنایا۔

فش ہاربرکی ساری زیب وزینت ان بلوچ و ماہی گیر برادری کی محنت کا نتیجہ ہے، لیاری میں پرائمری، سیکنڈری اسکولز قائم تھے، گھر گھر پینے کے پانی کی کوئی سہولت نہ تھی، سیوریج سسٹم نہ تھا، شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ کا پرانا نام آتمارام پریتم داس روڈ تھا، اس سے پہلے اسے مسان روڈ بھی کہا جاتا تھا، شہر سے آنے والی ٹریفک آگرہ اور بہارکالونی کے اینڈ پر پہنچتی تو لیاری ندی آجاتی۔ مرزا آدم خان روڈ اسی ندی کے ساتھ ساتھ بہتی تھی، اس کے مغربی حصے میں ماڑی پور روڈ تھا، اور مشرقی اطراف میں حسن لشکری ولیج، گارڈن ویسٹ اورپرانا دھوبی گھاٹ ہے۔ یہاں مکینوں کے گندے کپڑے دھوئے جاتے تھے۔

والدہ محترمہ نے مجھے علاقے کے معلم محمد عثمان "ششو" کے سپرد کیا جن کے ایک ہاتھ پر چھنگلی بھی تھی، یہ علم دوست انسان تھے، لیاری کے سیکڑوں طلبا وطالبات کو زیور تعلیم سے ماسٹر ششو نے آراستہ کیا۔ مجھے نویں اور دسویں جماعت میں بھی انھوں نے داخلہ دلوایا۔ یہ اسکول، ماڈل ہائی اسکول لیاری سے باہر حقانی چوک کے قریب واقع تھا، ابتدائی تعلیم مجھے سر عبدالرحیم پرائمری اسکول میں ملی، استاد عثمان باکسنگ کلب کے رکن بھی تھے، لیاری لیبر ویلفئیر سینٹر وہاں قائم تھا جہاں آج کا ہشت چوک مشہور ہے۔

آگے جائیے تو رانگی واڑہ، چاکیواڑہ تھا یہاں سے ٹرامیں صدر، سولجر بازار، بولٹن مارکیٹ اور کیماڑی جاتی تھیں، آج جہاں آدمی کا نیپئر روڈ سے پیدل چلنا محال ہے وہاں دو رویہ ٹرام کے ٹریک تھے، لی مارکیٹ کی سبزی اور فروٹ مارکیٹ تھی، اسی کے قریب کھجور بازار تھا، دنیا بھرکی معیاری، لذیز اور تازہ کھجوریں دستیاب تھیں، چاکیواڑہ پر ملیر، لانڈھی اور شہر کو جانے والی بسوں کا سٹینڈ تھا۔

آج جس کراچی کی پہچان اور اس کا استعارہ " کچرا " ہے وہ ایشیا کا صاف ستھرا شہر کہلاتا تھا، اس کی سڑکیں دھوئی جاتی تھیں، اسے عروس البلاد (شہروں کی دلہن)کہتے تھے۔ یہ خواب نگر تھا، کنکریٹ کے جنگل نے برباد کردیا۔ اس دلہن کی مانگ کیسے اجڑی یہ ایک الگ درد ناک داستان ہے، ہم نے اسی شہرمیں ڈبل ڈیکر بسوں پر سفرکیا، یہ بسیں تحفے میں سویڈن، جرمنی اور برطانیہ سے آئی تھیں، آرام دہ صوفے، دروازے آٹومیٹک، گنٹی پر بس رکتی، لوگ آرام سے اترتے، کوئی دھکم پیل نہیں ہوتی تھی، خواتین کا احترام تھا، بس کنڈکٹر با اخلاق اور مہذب تھے، کسی کالج اور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نہ تھے، بس کنڈکٹرزکے کاندھے پر ٹکٹوں کا تھیلا لٹکا رہتا تھا، ہر مسافر سے ٹکٹ لیتے، برائے نام پیسے دینے پڑتے، نجی ٹرانسپورٹ بھی قانون کی پابند تھی، میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ کراچی پولیس سائیکل سوار کے بھی چالان کاٹتی تھی، گدھے گاڑی، اونٹ گاڑی اورگھوڑے گاڑی کی نائٹ لائٹس بھی چیک ہوتی تھیں ِ، پریشر ہارن کی حدود نظامت کراچی میں ممانعت تھی، مگر بد بخت ٹرانسپورٹ ورکشاپ میں ساری ڈبل ڈیکر بسیں رفتہ رفتہ کٹھارا قرار دے کر پھینک دی گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ اسی کرپٹ ذہنیت کے فروغ نے انتظامی ڈھانچہ تباہ کیا، نوکرشاہی خدمت خلق سے دست کش ہوئی، اور شہر میں تعمیرات کی مافیائی بلندیوں نے شہرکو پستہ قامت سیاستدانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ مجرمانہ غفلت، کام چوری، تن آسانی اور بے حسی کی اجتماعی موت نے شہرکو حکمرانی کے سقوط سے دوچارکیا۔ مافیائوں نے شہر کو یرغمال بنالیا۔

بچپن میں ہمیں فٹبال کا سہارا ملا۔ یوتھ کی ٹیم میں بہترین فٹ بال کھیلی، علی نواز، قادر بخش پتلا، جبار، غفار، مولابخش گوٹائی، مراد بخش، قلندر بخش، اللہ بخش سمیت درجنوں نے فٹبال کھیل کی تربیت گبول پارک، ککری، کلری گرائونڈ میں حاصل کی، 60 اور 70دہائی میں غیرملکی قونصلیٹ سے رات کو پروجیکٹر پر فٹبال کی فلمیں دکھائی جاتی تھی۔ ترکی کی نیشنل ٹیم نے پاکستان آکر میچز کھیلے اور واپسی میں دو پاکستانی فٹبالروں مولابخش گوٹائی اورعبدالجبارکو ساتھ لے گئے، ان کی کچھ ماہ بعد واپسی ہوئی۔

جہاں تک اشیائے خورونوش اور مہنگائی کے موجودہ پر شور منظر نامہ کا تعلق ہے، کراچی کی دال روٹی مشہور تھی، یہ اس شہرکا نعرہ تھا کہ کراچی میں کوئی شخص بھوکا نہیں سو سکتا، گدا گر حریص نہ تھے اور اوور ٹائم نہیں لگاتے تھے، جو ملتا قبول کرلیتے، بیکریوں پر ایک " پتھرا" ڈبل روٹی سے پورے خاندان کا ناشتہ ہوجاتا، مجھے یاد ہے کہ پہلی جماعت سے میٹرک تک میں نے ناشتہ صرف چائے ڈبل روٹی سے کیا، ہمارے بچپن کے طلوع سحر میں کسی ابلے انڈے، آملیٹ، سلائس، بلیوبینڈ، شہد کا پیکیج نہ تھا، ہاں البتہ کبھی کبھار اتوارکی چھٹی میں لیمارکیٹ سے حلوہ پوری والدصاحب منگا لیتے۔

جب جوانی کی سرحد پار کی تو میدان صحافت میں پہلا قدم رکھا، شوبز صحافت میں فری لانسنگ شروع کی، کالج میں تعلیم جاری تھی، پہلا فلمی اخبار ہفت روزہ "نورجہاں " تھا جس میں روز ایک انگریزی فلمی مضمون، انٹرویو یا فیچرکا ترجمہ کرنا پڑتا، ایک مضمون کے پانچ روپے ملتے تھے، لیکن وہ آج کے پانچ سو روپوں کے برابر تھے، پہلے ایم اے جناح روڈ پر دفتر تھا۔ پھرکوہ نور سینما پر شفٹ ہوا، ارزانی کا عالم یہ تھا کہ ایرانی ہوٹل پر دوپہر کا کھانا اور ملائی والی چائے کا مجموعی بل بارہ آنے سے زیادہ نہ ہوتا، ابھی پیسے جیب میں باقی ہوتے کہ دوسرے دن پھر پانچ روپے مل جاتے، روزنامہ مساوات میں پہلی تنخواہ 521 روپے ملی، اور پہلا ویج بورڈآیا تو تنخواہ 1200روپے کے لگ بھگ پہنچ گئی، یہ دور پیدل بھی گزرا، پھر ویسپا اسکوٹر خریدی۔

(جاری ہے)