ہمارے اہل صحافت کے دانشور طبقے سے ماس میڈیا کے طالب علموں کی ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ اپنے صحافتی تجربات اور پیشہ ورانہ مزاحمتی جنگ کی کوئی داستان نہیں لکھتے۔
محترم ضمیر نیازی اور احفاظ الرحمان اور چند ہم عصروں نے اس کام میں پیش رفت کی، لیکن اس شکوہ کو جو سمجھا تو سینئر صحافی اور براڈکاسٹر شبیر احمد صدیقی نے سمجھا۔ ان کی 384 صفحات پر مشتمل دلچسپ، معلوماتی اور معتبر یاد داشتیں "صحافت سے صحافت تک" کے نام سے گزشتہ دنوں شایع ہوگئیں، شبیر صدیقی نے ان سینئر صحافیوں کی یاد دلائی جنھیں ہم بھول گئے، کتاب کی اہمیت کثیر جہتی ہے، اس میں سیاستدانوں، دانشوروں، قریبی احباب اور جرنلزم کی معروضیت کو زندہ والی باغ وبہار شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے جن کی حیثیت ایک مکتب خیال اور فکری اداریکی تھی، یہ لوگ جان صحافت تھے، ان سے پریس کلب کا وقار برقرار تھا۔ جمہوری اقدار، انسانی روایات، وضع داری، تہذیب اور بے داغ صحافت کو تابندہ رکھنے والے صحافیوں کی بے لوث کمٹمنٹ کو اس کتاب میں سمیٹا گیا ہے۔
سینئر صحافی محمود شام نے اپنے دیباچے میں لکھا کہ " شبیر صدیقی اپنے مشاہدات اور یاد داشتوں کو انتہائی بے تکلفی سے سادہ زبان میں ہمارے سامنے لائے ہیں۔ میڈیا تو اب بدل چکا ہے، اب یہ ایک بڑی منفعت بخش صنعت ہے، صدیقی صاحب کی یاد داشتیں صحافت کے ایسے دورکی سنہری روایات سامنے لائی ہیں جب رپورٹنگ ایک عبادت تھی، تعمیر قوم میں حصہ صحافت کا ایک مقصد تھا، میڈیاکے اعصاب پر ریٹنگ سوار نہ تھی.
ان کہنا درست ہے کہ شبیر صدیقی صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جواپنی ذمے داریاں کامل ایمانداری سے پوری کرتے تھے، رپورٹنگ کو حکمراں خاندانوں سے قرابت کا ذریعہ نہیں بناتی تھی، وہ سٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لیے قلم استعمال نہیں کرتی تھی، کسی سیاست دان، تاجر یا صنعت کار کو بلیک میل کرنے کا سوچتی بھی نہیں تھی، لہذا بہت سے پردہ نشینوں کا ذکر بھی ان صفحات پر آیا ہے، نام اگرچہ نہیں بتائے لیکن ان کے رفقائے کار یقینا سمجھ جائیں گے کہ انھوں نے کس مخلوق کاذکر کیا ہے۔
ممتاز محقق، صحافی اور شاعر خواجہ رضی حیدر نے کتاب کے حوالے سے ایک صحافی کے تخلیقی ہنر پر گفتگو کی ہے، انھوں نے کہا کہ شبیر صدیقی کو ابتدا سے ہی لکھنے کا شوق تھا اور انھوں نے اپنے اس شوق کو خوب پروان چڑھایا۔ ان کے مزاج میں حس مزاح فطری طور پر موجود تھی، یہ حس مزاح جہاں ان کے کالم نما مضامین میں ظاہر ہوتی تھی وہاں وہ گفتگو میں بھی خوب گل کھلاتے تھے، انھوں نے صحافت کے ساتھ ساتھ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھایا نکتہ آفرینی کی بنا پر وہ سنجیدہ سے سنجیدہ موضوع میں بھی مزاح کا وہ ٹانکہ لگا دیتے تھے کہ طبیعت باغ باغ ہوجاتی تھی۔ میں نے ان کے کالم پڑھ کر ہمیشہ ان سے کہاکہ یہی آپ کا تخلیقی میدان ہے۔
راقم سے ان کا تعلق 1973 سے تھا، میرا روزنامہ مساوات میں بحیثیت جونیئر رپورٹر تقرر ہوا تھا، لیکن رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ مجھے ایک کالم " اس شہر میں ہم نے کیا دیکھا " سٹی ڈیسک کو دینا پڑتا تھا، اس ڈیسک کی نگرانی مناظر صدیقی، سید محمد صوفی اور خالد علیگ نے بھی کی، چار فوٹوگرافر تھے، الطاف رانا، زاہد حسین، حسان سنگرامی اور سیموئل، بعد میں گڈو بھی شامل ہوئے تھے۔ ان کالموں پرشبیر صدیقی کی حوصلہ افزائی نے میرا کام آسان کردیا تھا، ایک دن ٹاور کے بس اسٹاف پر دیوار سے لگے ایک برہنہ پاگل شخص کی تصیر کے ساتھ ڈیپ کیپشن چھپا تو شبیر سے نہ رہا گیا، انھوں نے شام کو رپورٹنگ سے واپس دفتر آتے ہی مجھے شاباش دی۔
بعد ازاں وہ بطور نیوز ایڈیٹر ہمارے مہربان رہے، اپنی ذہنی اپج، صداقت کی تہہ تک اترنے کی بے چینی، نیوز وویوز کے ہر روز بدلتے منظر نامے پر ان کی نظرسچائی پر مرکوز رہتی وہ نو واردان صحافت کو اپنا پیغام پہنچاتے اور ہر اچھی صحافتی تحریرکی تعریف کرتے تھے۔ ان کا ون لائنر تبصرہ اور پنچ لائن ترکش سے نکلا ہوا تیر ہوتا تھا، اس لیے آزادی اظہار اور دروغ گوئی کے گھپ اندھیرے میں اپنی صحافتی حس کو بیدار رکھنے میں صاحب کتاب نے بڑی ریاضت کی ہے۔
ان کا سینہ رازوں کا دہکتا ہوا دفینہ ہے جب کہ ملکی سیاست، سماج اور مسند انصاف کے تناظر میں ایک جمہوری ملک اور فلاحی معاشرے کے گمشدہ خوابوں کی تعبیر پانے کی تمنا میں شبیر صدیقی نے ہمیں اپنی یاد داشتوں کی بے حد خوبصورت سوغات دی ہے۔ ان کی سراغ رساں نظر طوائف کوئے ملامت کو جانے والے سیاستدانوں کا تعاقب کرتی ہے۔
صحافت سے صحافت تک واقعی بقول انور سعید صدیقی صرف کہنے کو نہیں، یہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ شبیر چونکہ شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں اس لیے انھوں نے بہت سے واقعات کو اشاروں، کنایوں اور رمزیہ انداز میں بیان کیا ہے، مگر بہت سے باتیں کھل کر بھی کی ہیں۔ ان سے پہلے ریڈیو سے وابستہ حضرات نے ریڈیو کے بارے میں جوخامہ فرسائی کی ہے اس میں جو کمی یا تشنگی رہ گئی تھی اسے کتاب کے مصنف نے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
اپنی یاد داشتوں میں انھوں نے بعض بہت دلچسپ قصے بھی سنائے، فلم اسٹار وحید مراد کے بارے میں لکھتے ہیں، " ایک شخص نے جو جامعہ کراچی کا مقبول ترین کنٹین والا تھا، اس نے منی سموسے متعارف کرائے تھے، نام تو اس کا معلوم نہیں لیکن سب اسے مکرانی کے نام سے پکارتے تھے، وہ آسمان پر بننے والے جوڑوں کی جامعہ میں ملاقاتوں کے قصے سناتا تھا، ایک دن ہم لوگ ابو ذرکی گاڑی میں اس کے گھر جارہے تھے کہ واجہ مکرانی نے کہا کہ اسے وحید مرادکے گھرچھوڑ دیں، ان سے چائے کے ایک سو بیس روپے لینے ہیں جو انھوں نے ادھارکی پی تھی۔
ہم نے اسے ایک بنگلے کے سامنے اتارا جس پر نثار مراد کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی، دوسرا دن اتوارکا تھا، پیر کو جب ملاقات ہوئی تو مکرانی نے بتایا کہ ویدو (وحیدمراد) بڑے پیار سے ملا، چائے بھی پلائی اور مجھے پانچ سو روپے خرچی بھی دی لیکن ادھار کے پیسے نہیں دیے، ہم نے کہا تم واقعی بلوچ ہو۔ ایک اور یاد داشت میں لکھتے ہیں کہ پی ٹی وی کے ایم ڈی اسلم اظہرکا لیکچر تھا، کلیہ فنون جامعہ کراچی کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، ہم سب ان کی آمد پر بہت پر جوش تھے، وہ واقعی بڑے انسان تھے، لیکن ان کے تعارف کے فوری بعد مختلف کونوں سے طلبا ایک ساتھ کھڑے ہوگئے اور ایک نے سوال کیا کہ پرنس آپ کون سا جوتا پالش استعمال کرتے ہیں؟
اسلم اظہر پہلے تو حیران ہوئے پھرکچھ دیر خاموش کھڑے رہے اس کے بعد بولنا شروع کیا تو سب خاموش ہوگئے، ان کے لیکچر کے بعد ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ اسلم صاحب نے ایک بوٹ پالش کے کمرشل میں کام کیا تھا، وہ ایک پرنس کی حیثیت سے ایئرپورٹ پر طیارے سے باہر آتے ہیں تو صحافی ان کے جوتوں کی چمک دیکھ کر سوال کرتے ہیں کہ پرنس آپ کون سی پالش استعمال کرتے ہیں؟ تو پرنس جیب سے پالش کی ڈبیہ نکالتے کر بتاتے ہیں کہ وہ یہ بوٹ پالش استعمال کرتے ہیں، یعنی پرنس بوٹ پالش جیب میں رکھ کر چلتے ہیں، کیا زمانہ تھا، اورکیسے لوگ تھے۔
الطاف گوہر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ " پاکستان کے پہلے غاصب حکمراں ایوب خان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ بھی خود کو ایوب خان سے کم نہیں سمجھتے تھے، ان میں ایک صاحب الطاف گوہر تھے، جنھیں ایوب کی خود نوشت سوانح حیات لکھنے کا شرف حاصل ہوا، یہ واقعہ جامعہ کراچی میں ہماری طالب علمی کا ہے، ایک دن ہم مارننگ نیوز اخبار کے آفس کے سٹی روم میں ایک صحافی محمد آفاق کے ساتھ چائے پی رہے تھے کہ ایک چائے کے دوران تین ٹیلی فون آئے، جن میں advice دی گئی تھی کہ کل صدر ایوب کراچی آرہے ہیں، سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر بھی آرہے ہیں، ان کی خبر نمایاں طور پر لگنی چاہیے، جن صاحب نے فون کال وصول کی وہ تپ گئے اور انھوں نے خبر اس طرح بنائی کہ
Altaf Gohar، due in city، Ayub Khan will accompany him، یہ خبر انھوں نے نیوز ایڈیٹر کو دیدی جنھوں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو ایڈیٹر نے کہا کہ " ایڈوائس سے محسوس ہوتا تھا کہ سیکریٹری صدر سے زیادہ اہم ہیں " یہ وہی الطاف گوہر تھے جنھوں نے جیل میں مودودی صاحب کی تصنیف کا مطالعہ کیا اور گنگا نہاکر جیل سے باہر تشریف لائے تھے۔ بھٹو کو الطاف گوہرسے بہت "محبت" تھی وہ جب ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر بنے تو بھٹو نے اس اخبار پر پابندی لگا دی، ان پر پاسپورٹ فراڈ کاکیس بنایا لیکن اس پاسپورٹ پر ایک اخباری تصویر لگادی جب کہ سیکریٹری اطلاعات کی درجنوں تصاویر دستیاب تھیں۔ اس سے فراڈ کیس بنانے والوں کے فراڈ کا پول کھل گیا۔
اس سے ہٹ کرکتاب میں نامور صحافیوں کی ایک کہکشاں سجائی گئی ہے، ان کی فکر انگیزگفتگو، شگفتہ بیانیوں، مجلسوں کے تذکرے ہیں، کتنے منفرد فوٹوگرافرز اور legends کی پر لطف گفتگو کتاب زینت بنی ہوئی ہے۔ ایک اعتبار سے یہ ماضی کے گوشہ نشین صحافیوں کی ایک البم ہے جس میں شبیر صدیقی نے ان کی اپنے قلم سے چلتی پھرتی تصویویں بنائی ہیں۔