کون ہے جو سیف الملوک کو شوکت علی کی درد بھری آواز سے الگ کرے۔ صوفی شاعر میاں محمد بخش کی سیف الملوک پنجاب کا لازوال لوک ادبی اثاثہ اور نسل درنسل منتقل ہونے والا ورثہ ہے۔ شوکت علی کی آواز میں وارث شاہ کی دل موہ لینے اور بے خود کرنے والی "ہیر " سننے کی بات ہی کچھ اور ہے، بلاشبہ ہیں اور بھی ایسے " سخن ور" جو سیف الملوک اور ہیرگانے پر ملکہ رکھتے ہیں لیکن مجھ سے لوک گلوکار شوکت علی کا تعلق اور تعارف سیف الملوک اور ہیر سے کیا ہوا، میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
روئیں روئیں میں شوکت علی بس گئے۔ مجھ سے لوگ پوچھتے تھے کہ واجہ! آپ تو لیاری والے ہیں، آپ کی مادری زبان بلوچی ہے، حیرت ہے آپ کو سیف الملوک پسند ہے، کیا سمجھ میں آئے گی؟ لیکن ان میر ؔ ایسے سادہ لوگوں کو کیا پتا کہ صوفیانہ کلام کسی نام نہاد کنٹرول لائن، لسانی گریمر اور قواعد کی پابند نہیں، یہ روح کے سفرکا معاملہ ہے، وجد آفرینی کی پر اسراریت ہے، ممتاز مستشرق مادام این میری شیمل "شاہ جو کلام"کی حافظ تھیں، اقبال کے فارسی کلام کی مریدنی تھیں۔ کیا شے رچرڈ برٹن کو سندھ لے آئی۔
اور انگریز ماہرین لسانیات کو بلوچستان کے قبائلی سرداروں اور ادیبوں سے رشتے استوارکرنے پر مائل کیا۔ ثقافتوں کے موسموں کے راز دان عام لوگ نہیں ہوتے۔ اسی طرح لوک فنکار بھی صحبت ناجنس میں چین سے نہیں رہتے، ان کی بے قرار روحیں موسیقی کے چمنستان میں رہتی ہیں۔ شوکت علی خوب جانتے ہیں کہ انھیں کون سا موسم راس آیا اورکیا درد لا دوا انھیں قلب و جگر دے گیا۔ آرٹسٹ اپنی طبعی موت سے پہلے کئی بار سماج کی ناقدری کے ہاتھوں مرتا ہے۔ گلوکار محمد رفیع نے مرنے سے پہلے کہا تھا، سکھ کے سب ساتھی دکھ میں نہ کوئی۔"
کچھ دیرکے لیے ماضی میں چلتے ہیں، میں ملتان میں گونگے بہروں کے اسکول کے قریب اپنے رشتے داروں کے پاس کافی دن مقیم رہا، یہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا۔ اپنے رشتہ داروں سے ملنے پاک گیٹ میں درگاہ موسیٰ پاک شہید رحمتہ اللہ علیہ کے متولی مرحوم صوفی عبد الغفار کے فرزند ارجمند مصدق حسین کے اہل خانہ سے ملاقات کے لیے پہنچا تو ان کے دیئے ہوئے ایک کیسٹ نے مجھے شوکت علی کے فن اور ان کی سوز بھری آوازکی جھنکار نے چونکا دیا، یہ 60ء کی دہائی تھی۔ مصدق حسین کوکلاسیکی موسیقی سے بہت شغف تھا۔ اس کیسٹ میں شوکت علی کی " ہیر " بھری تھی۔ میں سنتا رہتا تھا، وہ ابتدایہ میں جب میاں محمدبخش کلام سناتے۔
مالی دا کم پانی دینا، بھر بھر مشکاں پاؤے
پھر جب کلام کے اس حصے میں آیا۔
نیچاں دی اشنائی کولوں، فیض کسے نئیں پایا
کیکر تے انگور چڑھایا، ہرگھچا زخمایا
تو روح کی کثافت دھل گئی، ذہن و دل پر پڑے جھالے صاف ہوگئے، سماج میں اندر تک گھس آنے والی منافقت، جعل سازی، دغا بازی، فریب اور تنگ نظری کا بھنور ختم ہوا، صوفیانہ طرز کلام شوکت علی کی منفرد اورکمال کی گائیگی سے۔
گزشتہ دنوں اسی معروف لوک گلوکار شوکت علی کے ایک حالیہ بیان نے دل کو صدمہ سے دوچار کیا۔ اک تیر سب کے دل میں وہ مارا کہ ہائے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ اْن کو پھولوں کی نہیں بلکہ مالی مدد کی ضرورت ہے۔ لاہورکے سروسز اسپتال میں زیرِ علاج پاکستان کے معروف لوک گلوکار شوکت علی کا کہنا ہے وزراء میری عیادت کے لیے آئے اور میرے لیے پھول لے کر آئے لیکن مجھے پھولوں کی ضرورت نہیں ہے۔ شوکت علی نے کہا کہ پاکستان کے لیے میری خدمات آپ سب کے سامنے ہیں، میری اتنی آمدنی نہیں کہ میں اپنا علاج کروا سکوں، میں چاہتا ہوں کہ حکومت میری مالی مدد کرے، اْنہوں نے کہا کہ کسی فنکارکا اِس طرح دْنیا سے رخصت ہونا اْس کے ملک کی حکومت کے لیے انتہائی افسوسناک بات ہوگی۔
عوامی مقبولیت رکھنے والے ایک بڑے فنکارکی مجبوری جب فریاد بن کر زبان پر آئے تو معاشرے میں آرٹ اور آرٹسٹ دونوں کے زوال اور ناقدری پر آنسو بہانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس بیان سے شوکت علی کی عزت نفس مجروح نہیں ہوئی بلکہ ایک درماندہ نصیب فنکار نے اہل اقتدار اور معاشرتی رویے کو بے نقاب کیا ہے۔
حکومت سے مالی امداد مانگنے کی جہاں تک بات ہے تو مجھے یاد پڑتا ہے۔ مشہور لوک فنکار فیض محمد بلوچ جب کھارادر اولڈ ایریا کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے اور تقریباً قریب المرگ تھے، وہ بھی فریادی تھے۔ حکومت اور اہل زر سے مالی مدد چاہتے تھے حالانکہ اس وقت ثقافت کی وزارت بھی تھی، اور فیض محمد کے چاہنے والے پورے ملک میں موجود تھے، اس کے بیٹوں نے جو خود بھی معروف بینجو نواز تھے اسپتال کے کمرے میں اپنے ساتھ سارے ایوارڈز، تمغہ حسن کارکردگی، اسناد اور سبز قومی بلیزر پھیلا رکھے تھے، فیض محمدکا کہنا تھا کہ حکومت ان چیزوں کے عوض مجھے صحت دلا دے میں شکرگزار ہونگا۔
گلوکارکے بیٹے عمران شوکت نے جو خوش گلو سنگر بھی ہیں کہا کہ میرے والد صاحب نے لوک گائیکی کی دْنیا میں پاکستان کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، میرے والد نے اپنی ساری زندگی اپنے ملک کے لیے وقف کی ہے۔ میرے والد نے جو 1965اور 1971 کی جنگوں کے دوران گانے گائے تھے حکومت اْس کو کیسے نظر انداز کرسکتی ہے؟ اْنہوں نے کہا اِس سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو میرے والد کی بیماری سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، میرے اور میرے اہلِ خانہ کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ ہم اپنے والد کا علاج کرواسکیں، ہماری ساری اْمیدیں حکومت سے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شوکت علی کا نام پاکستانی میوزک انڈسٹری کے نامورگلوکاروں میں سے ایک ہے جن کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ شوکت علی نے 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران جو گانے گائے تھے، ان میں " ساتھیو مجاہدو جاگ اْٹھا ہے سارا وطن، ’میرا پْتر پاکستان دا، اور’ اپنا قائد ایک ہے، سمیت لاتعداد گیت، کافی اور غزلیں ہیں۔ شوکت علی کا فن پاکستان کی شناخت سے جڑا ہوا ہے، اس کے حلق کی مٹی دھرتی کے گیت گاتی رہی ہے، میڈیا کی اطلاع کے مطابق گلوکار شوکت علی گزشتہ کچھ عرصے سے بیمار ہیں، ڈاکٹر کے مطابق اْن کو دِل، گْردوں اور معدے کا مرض لاحق ہے۔
اللہ شوکت علی کو صحت کاملہ و نافعہ عطا کرے، وہ پاکستان کا اثاثہ ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ ایک بانکا سجیلا فنکار جو خود بھی جوانی میں کسی فلمی ہیرو سے کم نہ تھے، بستر علالت سے لگے فنکار اپنے مقام ومرتبے کے اعتبار سے ہرگزکم نہیں ہوتے لیکن اگر درد انگیز اخباری بیانات تک نوبت جا پہنچے تو کوئی بھی درد مند دل یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ غم کے دریا میں ڈوبتے فنکارکے لیے معاشرہ کس قدر سنگدل، بے حس اور خطرناکvulnerable ہے۔
مشہور پریس فوٹوگرافر رانا طاہر نے ایک فون کیا کہ لوک گلوگار شوکت علی کراچی آ رہے ہیں، آپ سے ایکسپریس کے دفتر میں ملاقات ہوگی۔ شوکت علی آئے، اپنی چادر پھیلاکرگلے ملے، میری پہلی ملاقات تھی لیکن ان کی محبت، مروت، وضعداری اور عجز نے غلام بنایا، جتنی دیر ملاقات رہی شوکت علی کی گفتگو اور اہل سندھ اور کراچی کے بارے میں ان کے تاثرات غیر معمولی تھے۔
ایک بار پھر ملنے آئے تھے۔ ان کے بیٹے عمران شوکت کے اعزاز میں جبیس ہوٹل میں رانا طاہر نے محفل موسیقی سجائی تھی اسی تقریب میں انھوں نے شوکت علی کا مشہور پنجابی گیت" کیوں دور دور رہندے ہو حضور میرے کولوں " سنا کر محفل لوٹ لی، شوکت علی ایک کثیرالجہت فنکار تھے، ان کی موسیقی انسانیت سے عبارت تھی، وہ اردو کے کلاسیکی شعرا کا کلام ریڈیو اور ٹی وی سے سناتے رہے، ان کے سیکڑوں آڈیو، ویڈیو کیسٹوں کے انبار لگے ہیں، سامعین اور شائقین کو جگا، چھلا کی مدھر آواز مسحور رکھتی ہے، بے دردوں سے پیار نہ کرنا، یار نا آیا، کدی تے ہنس بول وے، اے جند ساڈھی رول وے، سن میری موت دا سمیت ان گنت گیت، کافی اور غزلیں ہیں جنھیں شوکت علی خود بھی سنتے ہونگے۔
ان کی شہرت سات سمندر تک پھیلی، بھارت میں انھیں عظیم لوک فنکار کی حیثیت میں عزت دی گئی۔ برطانیہ، امریکا، کینیڈا اورگلف کی امارات میں ان کے ہزاروں پرستار ہیں۔ امجد پرویز نے اپنے ایک مضمون میں شوکت علی کے عارضہ دل کا ذکر کیا، انھیں 2016 میں امریکا جاتے ہوئے دوران پرواز ہارٹ اٹیک ہوا، فلائٹ ہنگامی طور پر ابوظہبی ایئر پورٹ پر اتاری گئی، انھیں اسپتال منتقل کیا گیا، اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوکر وطن لوٹ آئے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ شوکت علی کی صحت یابی کے لیے دعا کریں، ابھی پاکستان کو ابھی شوکت علی کی ضرورت ہے۔ بیمار شوکت علی کو جوشؔؔ کی یہ غزل بہت پسند تھی،
سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا
شوکت بھائی، آپ مایوس نہ ہوں، اللہ کریم ہے، آپ جلد صحت یاب ہوں گے، لاکھوں پرستار آپ کے منتظر ہیں۔