لاہور سے ایک دن فلم ایشیا کے نمایندہ خصوصی فدا احمدکاردارکا فون آیا کہ اداکار ندیم کا انٹرویوکافی دنوں سے نہیں آیا، آپ نہیں کریں گے تو میں ایورنیو اسٹوڈیوز میں کرلوں گا۔
ان دنوں میں ماہنامہ "اخبار وطن" اور" فلم ایشیا " سے وابستہ تھا۔ میں نے کاردار صاحب سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو انٹرویوکر لیں، نہیں تو میں کراچی آمد پر ندیم سے گفتگوکا وقت نکال لوں گا۔ ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ ہمارے جنرل منیجر ارشد حسین آئے، کہنے لگے شاہ جی، اداکار ندیم سے انٹرویوکا وقت لے لیا ہے آپ کل جمعہ کوصبح دس بجے لنٹاس کمیونیکیشن کے رؤف صاحب کو رنگ کرلیں اور انٹرنیشنل اسٹوڈیوز نیوکراچی پہنچ جائیں۔
نیو کراچی کا فاصلہ شہر قائد کے مرکزی علاقے سے کافی دور تھا، میرے پاس ویسپا تھی۔ جمعہ کو میں لوگوں سے پوچھتا ہوا اسٹوڈیو پہنچ گیا۔ اس وقت اطہرشاہ خان کی ہدایت میں نئی فلم "آس پاس" کا سیٹ لگا ہوا تھا اور ندیم شوٹنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے، میں نے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹرسے کہا کہ جب بریک ہو تو مجھے اداکار ندیم سے فلم ایشیا کے لیے انٹرویو کرنا ہے۔ میںانتظار کرتا رہا۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ندیم کیمرے کا سامنا کرتے رہے۔
انھیں جب بتایا گیا کہ فلم ایشیا سے ایک صحافی آپ سے ملنے آئے، ندیم کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ فلمی صحافیوں سے ملنے میں کوئی تکلف نہیںبرتتے، میں نے تعارف کرایا اور ارشد حسین کا نام لیا تو ندیم مسکرائے، کہنے لگے تو یہیں بات کرلیتے ہیں، میں نے محسوس کیا کہ نماز جمعہ کی وجہ سے شوٹنگ کا وقفہ ہونا تھا، اسی لیے ندیم چاہتے ہیں کہ جتنی بات ہو جائے کافی ہے۔ ندیم نے بیٹھتے ہی کہا۔ بسم اﷲ کیجیے۔
میں نے پوچھا کہ پاکستان کے فلمی ہیروکی کل کائنات کیا ایک ہیروئن کی ذات تک ہے یا فلم ایکٹر کے لیے اس کی تخلیقی سرگرمیوں کے لیے میدان کھلا ہے۔ ندیم نے زمین میں نظریں پیوست کی ہوئی تھیں، کہنے لگے آپ نے انسان کے حیات وکائنات کا مسئلہ ایکٹنگ سے جوڑ دیا ہے اس کے لیے مجھے کچھ سوچنے کا وقت ملے تو گفتگو بہت اچھی رہے گی، لیکن میں آپ کے سوال کا جواب ضروردوںگا، ندیم کا کہنا تھا کہ اداکاری انسانی جذبات کے اظہارکا فن ہے، اور اظہار کے لیے اداکار پرکسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ہاں اس کے لیے ضروری ہے کہ اداکار کے اظہار کی رینج، اس کی سوچ کی وسعت اورکردار کو ادا کرنے کی صلاحیت بے پایاں ہو، ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اداکارکو sky is the limitکے اصول کو سامنے رکھنا ہوگا، اور اسی چیزکو آپ نے اداکارکی کائنات کہا ہے، میںسمجھتا ہوں کہ اداکار کو رسم عاشقی سے ہٹ کر انسانی مسائل اور غم روزگار کے بڑے اظہار پر توجہ دینی چاہیے۔
میں نے سوال کیا کہ ہمارا اداکار معاشرے کے کن مسائل کو اپنے کردارکا محور بنانا چاہتا ہے، کیا آپ کو اگر اپنی پسند کا کردار چاہیے تو اس کے کتنے آپشنز آپ کے یا ہدایتکار کے پاس ہوتے ہیں، کیا آپ تیارہیں کہ ایسا کردار ملے جو چیلنجنگ ہو اور دقیانوسی بھی نہ ہو۔
ندیم نے کہا کہ اداکار کے پاس چوائس نہیں ہوتی، اس کا کردار ہوتا ہے، اسے پسند ہے تو ادا کر لے گا اور اچھا نہ لگا تو معذرت کردے گا، مگر ہر اداکار اس بات پر تیار ہوگا کہ اس کا فلمی کردار اس کی انفرادیت، اداکارانہ صلاحیت اور جذبات واحساسات کے فطری اظہار سے جڑا ہوا ہو، ندیم کا کہنا تھا کہ اداکاری وہ آرٹ ہے جو اداکار کی روح کو متاثرکرتی ہے، میرا اصول ہے کہ جس کردار سے اداکارکی اپنی شخصیت متاثر نہ ہو، وہ ناظرین اور فلم بینوں کوکیا متاثرکرے گا، اس لیے میں اداکاری کو زندگی کے مشاہدات کے قریب رکھتا ہوں، ایک اداکار اپنے مشاہدہ کی طاقت سے کردار میں سچ بھر دیتا ہے اور یہی اداکارکا فلسفہ ہونا چاہیے۔
میرے اس سوال پر کہ نپولین کو آپ نے چلتے پھرتے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا پھر اس کاکردار ادا کرنے کے لیے آپ مشاہدہ کا کیا پیمانہ لائیں گے۔ ندیم نے آخری جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ نپولین کی زندگی کو اس کے بارے میں چھپنے والی کتابوں، ان کی تصاویر اور ناولوں اور فلموں سے دیکھا جاسکتا ہے، ایکٹر کے اندر جذبات کا حافظہ بھی ہوتا ہے، وہ تاریخ کے کرداروں کو اس عہد کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، کردار میں ڈوب جانے کی بات کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اداکار اپنے عہد سے بھی آگے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ابھی بات چیت جاری تھی کہ اطہر شاہ خان نے شوٹنگ اسٹارٹ کرنے کا اشارہ کر دیا۔
ندیم سے گفتگو کا دوسرا حصہ بھی اداکاری کے فطری، نظری اور عملی باریکیوں سے متعلق تھا، مجھے اندازہ ہوا کہ ندیم کا ذہنی کینویس اجلا، شستا اور اداکاری کے اسرار ورموز سے گہری واقفیت رکھتا ہے، گفتگو میں پاکستانی فلموں، اسٹوڈیوز میں موجود جدید ترین سہولتوں، فلمی کلچر اور فلم کے بنیادی موضوعات کی فرسودگی پر کھل کر باتیں ہوئیں۔
جب مکمل گفتگو رسالہ کی زینت بنی تو ندیم کے ٹائٹل اور اندرکلر تصاویرکے ساتھ انٹرویو پر فلم ایشیا کے ادارتی صفحہ کے لیے اداکار ندیم نے فدا احمد کاردار کے توسط سے منیر حسین کا شکریہ ادا کیا۔ اداکار ندیم سے ایک اور یادگار ملاقات بڑے عرصہ کے بعد روزنامہ "خبریں" کراچی کے دفتر میں ہوئی، یہ خبریں فورم کے لیے ٹاک تھی اوراس کا اہتمام ظہورشاہ صاحب نے کیا تھا جن کے بارے میں مشہورتھا کہ ملک کی کوئی اداکارہ، ماڈل اور نامور اداکار ظہور شاہ کی دعوت نہیں ٹھکراتے۔
ظہور شاہ نے مصطفیٰ قریشی سمیت دیگر اسٹارزکو فورم ٹاکس کے لیے بلایا۔ یاد رہے یہ ٹاکس 2001ء کی ہیں۔ آج کی شوبز کی دنیا گلیمر، فیشن اور تبدیلیوں کے کئی سنگ میل عبورکرچکی ہے۔
(جاری ہے)