Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Teen Footballers, Teen Dost Aur Lyari

Teen Footballers, Teen Dost Aur Lyari

پاکستان فٹبال کی پرانی داستان میں کرداروں کی ایک کہکشاں ملتی ہے۔ یہ 50کی دہائی کا ابتدائی منظر نامہ ہے۔

ایک فٹبال آرگنائزر حاجی احمد خان کراچی سے فٹ بال کی ٹیم لے کر بھارت جاتے ہیں، کلکتہ میں ان کی ٹیم اچھے کھیل کا مظاہرہ کرتی ہے، کراچی ککرز نام تھا اس ٹیم کا، اس فٹبال ٹیم میں اپنے وقت کے مایہ ناز فٹبالر محمد عمر بلوچ بھی شامل تھے یہ وہی کھلاڑی ہیں جنھیں بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور دلیپ کمار نے پسندکیا اور انھیں بھارت میں رہنے کی پیشکش کی، پاکستان دوسرا محمد عمر پیدا نہ کرسکا۔ دوسرا علی نواز بھی ناقدری کا شکار ہوا۔

حاجی احمد کی گفتگو جو بعد میں، میں نے چاکیواڑہ میں ان کے دفتر میں سنی اس میں عابد، موسیٰ غازی محمد، استاد داد عرف ددو اور گل محمد لین کے داد محمد، حسین کلر اور دیگر اہم کھلاڑی کھیلتے رہے، فہرست لمبی ہے، یہ چونکہ میڈیا کی چکا چوند کا زمانہ نہ تھا صرف انجام اور ڈان اخبار کے علاوہ گجراتی اخبارات شایع ہوتے تھے۔

اس لیے فٹ بالروں کی طلسماتی کشش اور شہرت و دولت کی کہانیاں نہ ہونے کے برابر تھیں، جو آج کے جادوگر عالمی فٹ بالر لائنل میسی اورکرسٹیانو رونا لڈو نو کے بارے میں گردش کرتی رہتی ہیں، جو فٹبال پر حکمرانی بھی کرتے ہیں اور لاکھوں ملین پاؤنڈ اور ڈالر میں کھیلتے بھی ہیں، مجھے پاکستان فٹبال کی کہانی اخبارات اور فٹ بال کے کھیل کی جستہ جستہ خبروں سے ملتی تھی، میرا بچپن بھی دنیا سے کٹا ہوا تھا، سیفی اسپورٹس کلب کی سی ٹیم میں کھیلا یوتھ ٹیم تھی۔

جرسیاں خود سرخ کلر میں رنگتے، ہم سب ننگے پیرگلی کوچوں میں کھیلتے، کبھی " وشو" کے اسکول گراؤنڈ میں جاکر کرمچ کی گیند سے دل بہلاتے، پھر ڈی سی ٹو گراؤنڈ پرکئی میچز کھیلے، اسے ڈھاکا گراؤنڈ کہتے تھے۔ میرے سر عبدالرحیم پرائمری اسکول کے نام سے منسوب قدیمی مادر علمی اب کسی اور نام سے ہے، پہلے اس سڑک کا نام مسان روڈ اس کے بعد آتما رام پریتم داس روڈ اور آج کل سندھ کے صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نام سے موسوم ہے۔ اسی اسکول میں، میں نے چار جماعتیں مکمل کیں۔ دوسری اور تیسری جماعت کے دو استاد میرے خاندان سے قربت کا رشتہ رکھتے تھے، محمد حسن بلوچ اور نبی بخش بلوچ دونوں کا تعلق کلاکوٹ اسلام روڈ کے قریبی محلے سے تھا۔

اس اسکول گراؤنڈ نے کئی مقامی اور نیشنل فٹبالر پیدا کیے، جو آگے جا کر غلام عباس بلوچ، عبدالغفور عرف مجنا اور عبداللہ عرف ہیرو کہلائے۔ آج کی کہانی ان ہی تین با وفا دوستوں اور بے مثل فٹبالروں کی ہے جنھوں نے فٹبال سے کمٹمنٹ کی سبق آموز اور دلچسپ وعجیب داستان رقم کی، یہ پرانی لیاری کی بھی ارتقائی کہانی ہے جسے میں نے اور مولا بخش گوٹائی نے ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ گوٹائی زبردست فٹبالر تھا، آج کمزور اور ناتواں ہے، وہ شکل سے آج بھی فرانسیسی ٹیم کا ایم بیکی لگتا ہے۔

سیفی لین بغدادی ضلع جنوبی کے ان علاقوںمیں شمارہوتاہے جہاں فٹبالروں کی ایک کھیپ تیار ہوئی اور ان ہی گلیوں میں تعلیم وتربیت کا اہتمام ایسے طلبا کی ذمے داری تھی جو میٹرک، انٹریا گریجویشن کرچکے تھے، سیفی لین کی ایک گلی میں پہلے اسٹریٹ اسکول کے تجربہ کی بنیاد رکھی گئی۔

چھوٹی سی سڑک کے دونوں طرف پہلی سے چوتھی جماعت اور پھر پانچویں سے میٹرک تک کی فری کوچنگ کلاسیں شروع کی گئیں، کسی چندے اور فیس کا کوئی تصور نہ تھا، سارا کام طلبا اور سیفی اسپورٹس کلب اور سیفی سوشل ویلفیئر سوسائٹی کی طرف سے بالواسطہ سرانجام دیا جاتا تھا، گلی میں جب رات کو اسٹریٹ لائٹس روشن ہوئیں تو بچوں کی آنکھوں میں مستقبل کے ان گنت ستارے چمک اٹھے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی طرف سے اس اسٹریٹ اسکول کے بارے میں ایک کتابچہ بھی شایع کیا گیا۔

غلام عباس بلوچ اور غفور مجنا سیفی اسپورٹس کلب سے وابستہ تھے۔ غلام عباس کے آباؤ اجداد تاریخی حوالوں سے ایسٹ افریقہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کے دادا ابا سے ملنے ان کے زنجبار، تنزانیہ اور دارالسلام سے رشتہ دار ملنے آتے، ایشیا کے عظیم بینجو نواز بلاول بیلجیئم کا تعلق بھی عباس کے گھرانے سے تھا، عباس کی شادی کی تقریب سیفی لین میں ہوئی۔

جس میں بلاول بیلجئیم نے بینجو اور سرمنڈل پر جنگی نغمہ " اج ہندیاں جنگ دی گل چھیڑی، اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی، مہاراج ایہہ کھیڈ تلوار دی اے، جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی" بنجو پر سنایا تو پوری محفل جھوم اٹھی تھی، بنجو پرکبھی تو کوئی دھن سنانے کی ریڈیو پاکستان پر ممانعت تھی لیکن زیڈ اے بخاری بلاول بیلجیئم کے فن کے اس قدر دلدادہ ہوئے کہ یہ پابندی انھوں نے ہی اٹھا لی۔

عباس کے قدیمی رشتے دار غلاموں کی تجارت کے سامراجی اور نوآبادیاتی دور کی نشانیوں میں سے تھے جو مشرق وسطی لائے جانے کے دوران مسقط، سعودی عرب اور ایران و بلوچستان کے راستے کراچی آکر بستے گئے۔ ماڑی پورکے ابا خمیسہ عرف "خمو" بھی اسی عہد تجارت غلاماں کے ایک کردار تھے جن کے فٹبالر بھتیجے کوثرکے پورے خاندان کا تعلق لیاری اور ماڑی پور سے بھرپور رہا۔

غلام عباس فطرتاً سنجیدہ اور سماجی کاموں کی طرف بھی توجہ دیتے تھے، راقم کے وہ فٹبال اور تعلیمی سرگرمیوں میں استاد کا درجہ رکھتے تھے، نیز لیاری میں کسی کمسن فٹبالرکو ڈھاکا سے فٹبال کے اسپیشل جوتے( ٹو) پہلی بار عباس نے لیاری بھجوائے تھے، میں ان شوز کے ساتھ گنجی گراؤنڈ اور ڈھاکا گراؤنڈ میں کھیلا بھی تھا۔ عباس برازیلین اسٹرائیکر "پیلے" کے مرید تھے۔

ان کا اسٹائل آف پلیئنگ بھی برازیلی کھلاڑیوں سے ملتا جلتا تھا، وہ موومنٹ کے حساب سے گیند لے کر دوڑتے، ان کے رن اپ اور اسپیڈ میں ندرت تھی، موومنٹ کری ایٹ کرتے اور ڈی زون میں گول کیپرکو سنبھلنے کا موقع نہیں دیتے تھے، ان کو افراتفری میںگول کرنے کی بڑی سدھ بدھ تھی، اس اعتبار سے وہ موجودہ دورکے لوکاکو تھے۔

عباس نے ہمیشہ جنٹلمینز رویہ اختیار کیا، کبھی کسی مخالف کھلاڑی سے ان کی ان بن نہیں رہی، انھوں نے شاندار فٹ بال کھیلی، اپنی صلاحیت اور علمی قابلیت کے اعتبارسے فیفا کے نائب صدر رہے، ان کے بڑے بھی فداحسین منشیات کے عادی تھے، درد ناک موت پائی، چھوٹے بھائی غلام علی عرف گوجل بھی اچھے فٹبالر تھے، چھوٹے بھائی پروفیسر صبا دشتیاری تھے جنھوں نے جواں سالی میں بلوچی شعر وادب میں نام پیدا کیا۔ صبا دشتیاری بلوچستان کی سیاسی آگ سے دامن نہ بچا سکے انھیں بلوچستان یونیورسٹی کی راہداری میں بے چہرہ لوگوں نے گولیاں ماریں اورکراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ عباس بہترین اسٹرائیکر تھے۔ پی آئی اے ان کی آخری ٹیم تھی جس سے وہ ریٹائر ہوئے۔

عبداللہ ہیرو کا تعلق بغدادی کے علاقے میں واقع بغدادکلب سے تھا جو اپنے وقت کی بہترین ٹیم تھی۔ عباس، مجنا اور عبداللہ ہیرو کی دوستی ایک عہد کی مکمل تاریخ سے معمور تھی۔ یہ ڈائمنڈز کہلاتے تھے۔ دونوں کی جیون ساتھیاں بہاری لڑکیاں تھیں۔

جنھوں نے چار عشرے لیاری میں سیاہ فاموں کے بیچ گزارے۔ مجنا اور ہیرو کے لیے نوجوان فٹ بالروں کے دل میں جو محبت اور عقیدت تھی وہ برس ہا برس قائم رہی، عبداللہ ہیرو اپنے عجز وانکسار سے ہردلعزیز تھے، وجیہ اور انتہائی تیز رفتار فارورڈ تھے، بظاہر ان سائیڈ لیفٹ کی پوزیشن میں کھیلے تھے مگر پوری ٹیم کے لیے وہ گیم میکر تھے، ہمہ وقت ان کو گیند اور ساتھی کھلاڑیوں سے یا مخالف ٹیم سے کشمکش میں مصروف پایا، عباس اور مجنا کی مشترکہ خصوصیت کے باعث وہ کبھی فاؤل پلے کے مرتکب نہیں ہوئے، یہ ان کی جینز میں مضمر خلش تھی کہ وہ گیندکو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے فیئر پلے پر یقین کرتے تھے۔ لیاری اور ملک کے ممتاز فٹ بال آرگنائزرز نے ان تینوں کھلاڑیوں کے شخصی رویے کو آن گراؤنڈ ہمیشہ قابل تعریف قرار دیا۔

اس مقبول Trio نے لیاری میں فٹبالروں کے مابین یکجہتی، محبت و یگانگت اور کھیل سے بے لوث وابستگی کو ایک ٹرینڈ بنادیا تھا۔ کے ایم سی، کے پی ٹی سندھ گورنمنٹ پریس، حبیب بینک، ریلوے، واپڈا، اس زمانے کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتی تھیں۔ کے ایم سی گراؤنڈ فٹبال تفریح کا واحد مرکز تھا، سارے اہم میچز اسی گراؤنڈ پر ہوتے تھے، غالباً 60 ء میں اس گراؤنڈ کے ایک حصہ کی چھت گری تھی جس میں غفورمجنا شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔

عبدالغفور مجنا کو سندھ گورنمنٹ پریس کے سینٹرہاف کے طور پر اچھا زمانہ ملا، جب ان کا طوطی بولتا تھا۔ انھیں ڈان کے سینئر اسپورٹس رپورٹر علی کبیر نے وال آف چائنا کا خطاب دیا تھا۔ مجنا کا قد برازیل کے رابرٹوکارلوس کے برابر تھا، اس کی پھرتی، شوٹنگ پاور اور اچھل کر ہیڈ کرکے گیند کو کلیئر کرنے کی صلاحیت منفرد تھی، ریلوے گراؤنڈ میں ایک فری کک ہاف گراؤنڈ سے کچھ قدم آگے تھی، مجنا کی کک آج کے بارسیلونا، رئیال میڈرڈ، مانچسٹر یونیٹڈ، چیلسی اور لیور پول کے کسی بھی مڈ فیلڈر کی پاورفل شوٹ کے ہم پلہ کے برابر تھی۔

اس کی پھرتی عمر کے آخری میچز میں بھی قابل دید تھی، وہ فٹبالروںکے ایک شریف النفس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، مرنجان مرنج آدمی تھا، بہت ہی جاذب نظر شخصیت اورکمال کی فٹنس تھی۔ جب کھیل کے گراؤنڈ سے رشتہ ٹوٹ گیا تب بھی چلتے پھرتے ان کی فٹنس اپنے معیار سے کم تر نہ تھی۔ انھیں ڈاج دینا آسان نہ تھا۔ تتلی کی طرح متحرک رہتے اور اسٹرائیکر کو موومنٹ کے لیے موقع ہی نہیں دیتے تھے، مجنا کی دوسری خوبی ان کا رف کھیل سے پاک انداز تھا، ان کے کھیل کی فلاسفی ہی سب سے جداگانہ تھی۔ مجنا دیوانے کوکہتے ہیں، اگر فٹبال سے دیوانگی فریب نظر نہیں تو غفور مجنا سے بڑا فٹبال دیوانہ اہل لیاری نے آج تک نہیں دیکھا۔

نوٹ: ایک فون کال میں مجھے توجہ دلائی گئی کہ شیرشاہ صابری اسپورٹس کے طارق بروہی کی سرپرستی ہونی چاہیے، اس نوجوان کے خوبصورت کھیل سے شیر شاہ کے علاقے کے فٹبالرز بہت متاثر ہیں۔ امید ہے فٹبال کے مسیحا ناصر جمال اور شریف بلوچ صاحب اس فٹبالرکی قدر افزائی کریں گے۔