صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کے مواخذے کی کوشش سے کوئی فائدہ نہیں نکلے گا۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ امریکی عوام کے لیے مواخذے سے زیادہ اہم دوسری چیزیں ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ڈیموکریٹس جوکام خود نہ کر سکے وہ اب ری پبلیکنز سے کہہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹس ایوان میں انھیں بے قصور ثابت کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ ڈیموکریٹس نے ایوان میں امریکی تاریخ کا غیر شفاف ترین کام کیا، اور اب سینیٹ میں کہہ رہے ہیں کہ وہ شفاف کام کریں۔ ٹرمپ کو مرزا غالب کی پہچان ہوتی تو ڈیموکریٹس کو یہ شعر ضرور تحفہ میں بھجواتے، کہ
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ ونام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھرکو میں
صدر ٹرمپ نے جنرل قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹا تو دیا مگر امریکی میڈیا پنڈتوں کے مطابق یہ بات کسی کو ہضم نہیں ہورہی کہ کھلی جارحیت یا جیسا کہ نوم چومسکی نے جنرل سلیمانی کے قتل کو کھلی دہشت گردی قرار دیا ہے، اسی طرح یہ سوال بھی مواخذہ کی دیوار سے لگے ٹرمپ سے پوچھا جا رہا ہے کہ اس بات کو کون قابل قبول سمجھے گا کہ کسی ملک کے ٹاپ لیڈر کو آپ ہلاک کر دیں جو بظاہر آپ سے جنگ بھی نہیں کر رہا۔ یہی سیاق وسباق ہے جس میں اینڈریو میک ایب نے اپنے کالم میں رائے دی ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ رد عمل یا جوابی جنگ میں ایران اکیلا ہی رہے گا تو ان کی بھول ہے۔
جب کہ میکس بوٹ نے ایران اسٹریٹجی کو ناکام پالیسی سے تعبیرکیا ہے۔ اس موقع پر بحث کا تناظر وسیع تر ہے۔ ٹرمپ کی فاتحانہ پیش رفت کو جنرل سلیمانی کے ہلاکت سے منسوب کرتے ہوئے امریکی سیاست دان اپنی تنگ نظری اور قبل از وقت کامیابی پر بغلیں بجا رہے ہیں، لیکن سنئیر صحافی ہف ہیوٹ نے ایران کے خلاف اور قاسم سلیمانی کے قتل پر ٹرمپ کی واہ واہ میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے ہیں۔ انھوں نے اپنے کالم میں ایرانی حکومت پرکڑی تنقید کی اورکہا کہ ٹرمپ اور ان کی سیکیورٹی ٹیم نے دلیرانہ پیش قدمی کی جس پر وہ اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے، انھوں نے کانگریس کے ٹرمپ مخالف اقدامات کے حوالہ سے بھی انتہائی سخت الفاظ استعمال کیے، انھوں نے نینسی پیلوسی کا نام نہیں لیا لیکن کالم نویس کے خیال میں ٹرمپ کے جنگی اقدامات اور اختیارات کو محدود کرنے کی قانون سازی مجذوب کی بڑ ہے، ہیوٹ نے جنرل سلیمانی کو عہد حاضر کا سب سے بڑا قاتل گردانتے ہوئے جتنے تضحیک القاب ہوسکتے ہیں، سلیمانی سے منسوب کر دیئے۔
ان کا کہنا تھا کہ شام میں یہ شخص بشار الاسد کا دست راست، اور عراق میں امریکی سفارت خانہ پر حملوں ٕ کا ماسٹر مائنڈ تھا، امریکی رائٹر نے لکھا کہ سلیمانی چار عشروں سے اپنی پراکسی جنگوں میں مصروف تھا، تاہم 2019 میں جنوری کے پہلے ہفتے میں اس کا خاتمہ ہوگیا، یہ ٹرمپ کی ہدایت کا نتیجہ تھا۔ ہیوٹ کو سب سے زیادہ خوشی ان پردہ نشینوں اور ایرانی حکومت کی رگوں میں امریکی خون کی طرح دوڑنے والے جاسوسوں کی کامیاب چغل خوری پر ہے۔
جن کی پیشگی اطلاع پر جنرل سلیمانی کو مشرق وسطی ہی کے ایک ملک سے عراق کے امریکی ایئر بیس پرگن بوٹ کارروائی میں مار دیا گیا، لکھتے ہیں ٹرمپ نے باراک اوباما کی طرح اپنے اقدامات اور فیصلے غیرمرئی سیاہی سے نہیں لکھے، جیسے اوباما نے شام کے لیے لکھے تھے، ٹرمپ مواخذہ کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے، کالم نویس کی ٹرمپ پر رطب اللسانی کا کمال ان سطور میں نمایاں ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ طاقت کے ذریعے امن کے قیام پر یقین رکھتے ہیں، اس کا اندازہ دنیا نے کرلیا کہ بغداد ایئر پورٹ کے قریب ایئر بیس پر جو کام کیا اس سے تہران کے حکمرانوں کو پیغام دے دیا اور جب ایران نے عراقی ایئر بیس پر بعد از قتل سلیمانی جو میزائل فائرکیے۔
اس کے بعد کی صورتحال کے لیے بھی ٹرمپ اور ان کی ٹیم تیار تھی کہ اگر ایران کے جوابی رد عمل میں کوئی امریکی فوجی ہلاک یا زخمی ہو گیا تو اس کا سخت ترین جواب دیا جائے گا۔ نیو یارک ٹائمزکی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا کی قومی سلامتی ٹیم کو ٹرمپ کے اقدام کا پہلے سے علم تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ایران میں ہمارے سراغ رساں، ہمارے اپنے سہولت کار اپنے ہی " لوگ " موجود ہیں۔ ہمارے سارے کنٹریکٹرز محفوظ ہیں، اورکسی بھی قسم کے فال آؤٹ سے دور ہیں۔ وہ یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ سلیمانی پر کارروائی کا ملبہ کسی ایرانی فوجی تنصیبات پر نہ گرے، کوئی انفراسٹرکچرل تباہی رونما نہ ہو، یہ ساری حکمت عملی پہلے سے طے کر لی گئی تھی۔ اسی لیے بعض تجزیہ کار ٹرمپ پر الزام لگاتے ہیں کہ قاسم سلیمانی کا قتل لمحے کی خطا اور دوسرے لمحے کی سزا جیسی جناتی کارروائی نہیں لگتی۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
کالم نگار کے مطابق اس بات کے امکانات قطعی واضح تھے کہ ایرانی حکومت اسٹیبلشمنٹ میں انٹیلی جنس ذرائع کا اثر و رسوخ غیر معمولی تھا، سینیٹر جیمز ایم ٹیلنٹ نے کہا کہ ٹرمپ کی ہدایت تھی کہ کوئی امریکن مرا تو بلا تاخیر پراکسی وار عناصر حرکت میں آئیں گے۔ امریکیوں کے بارے میں بتایا گیا کہ پہلے اس قسم کے واقعات میں ایران کو استثنا حاصل تھا، مگر ٹرمپ ہیں تو کوئی ایسا استثنا نہیں ملے گا۔ قلم کار نے کہا کہ ٹرمپ کی کارروائی کے بعد امریکن سینیٹرز اور ٹرمپ کے حواری سب مطمئن تھے۔ مصنف کا کہنا تھا کہ جنرل سلیمانی کا ایپی سوڈ ختم ہوچکا۔ امریکی میڈیا کے مطابق سلیمانی کے خلاف اقدام سے یہ موقف بھی سامنے آیا کہ امریکی خارجہ پالیسی اب ایک نئے دوراہے پر آئی ہے، عوام صدرٹرمپ کے خلاف ڈیموکریٹس کے مواخذہ نمامداری کرتب باز اور ٹرمپ ہارڈ لائن حلیف ایک واضح چوائس رکھتے ہیں۔
ٹرمپ نے ایرانی جوہری معاہدہ منسوخ کرلیا ہے، آجکل ٹرمپ ڈالرکماؤ مہم پر ہیں، سعودی عرب سے انھوں نے ایک ارب ڈالر امریکی فوج رکھنے کی مد میں جب کہ جنوبی کوریا سے بھی عسکری مدد کے ضمن میں پچاس ہزار ڈالر "پکڑ" لیے۔ ٹرمپ اسے مواخذہ کی قیمت قراردیتے ہیں۔ امریکی مصنف کے مطابق امریکی عوام نے اب ایک ایسے صدرکو چننے کا فیصلہ کیا ہے جو جنوری کے پہلے ہفتے میں ان کے روبرو آیا ہے۔
ڈیموکریٹ جانتے ہیں کہ یہ ٹرمپ ہی ہے جو امن بصورت طاقت اور مواخذہ کی کرتب بازی میں ایک حد فاصل ہے۔ مصنف کا اصرار ہے کہ امریکی عوام ڈیموکریٹس کے بولتے طوطوں سے سخت ناخوش ہیں، ان پر بھی برہم ہیں جو ٹرمپ کے خلاف بد زبانی کرتے ہوئے یہ خیال نہیں رکھتے کہ امریکی فوجی جوان ملکی سلامتی کے لیے جانیں نثار کر رہے ہیں اور دشمن ہمارے سفارت خانوں کا محاصرہ کرکے ان پر حملے کرتے ہیں۔ مصنف نے ان "خاموش" راز دانوں کا شکریہ ادا کیا جو ایرانی حکومت کی صفوں میں ان کے لیے وفاداری کا حق نمک ادا کرچکے۔ ٹرمپ کے ایسے وفادار قلم کار نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکنوں کو ادراک ہے کہ کوئی دوسرا صدر منتخب ہوکر بیل آؤٹ نہیں دے گا۔ اور کم ازکم ٹرمپ تو دشمنوں کو بیل آؤٹ دے گا بھی نہیں۔
دوسری طرف ایک نئی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ وزیر دفاع ایسپرکا کہنا ہے کہ انھیں سلیمانی کی طرف سے امریکی سفارت خانوں پر حملے کے شواہد نہیں ملے، میڈیا میں سلیمانی کے قتل کو سیاسی قرار دیا جارہا ہے، اس تناظر میں جاپانی ایڈمرل یاما موٹو کی علانیہ جنگ میں شمولیت کا سوال بیچ میں آیا، جنرل سیلمانی کا تقابل غیر معروضی قرار پایا، بحث اس بات پر جاری ہے کہ سلیمانی کا قتل ٹرمپ کا سیاسی پروجیکٹ تھا، ایڈمرل یاما موٹو واضح ملٹری ٹارگٹ تھے، بعض کا موقف یہ ہے کہ سلیمانی کا خاتمہ ناجائز نہیں تاہم وہ ایک ا وپن وار میں ایڈمرل یاموموٹو جیسا ہدف نہیں تھا۔ اس سیاق وسباق میں گزشتہ روز وزیر خارجہ مائیک پومیو فوکس نیوز انٹرویو میں بول پڑے کہ انتظامیہ کو یہ معلوم نہیں کہ کب اور کہاں امریکیوں پر سلیمانی کا فرضی ناگہانی حملہ ہونے والا تھا۔
اس پر سینیٹر برنی سینڈرز کے فارن پالیسی مشیر میٹ ڈس نے برجستہ ٹویٹ کیا کہ یہ حملہ مواخذہ ٹرائل کی شکل میں ہوا ہے، حقیقت میں یہ بحث سینیٹرز ایلزبیتھ وارن اور برنی سنیڈرز نے شروع کی، ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ پر سلیمانی کو قتل کرنے کا دباؤ تھا، ٹرمپ نے خود بھی یہ انکشاف کیا کہ کچھ ری پبلیکنز کا ان پر دباؤ تھا، سینڈرز اور وارن نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنے سیاسی مقصدکے لیے ایک ہلاکت خیز جنگ کی چنگاری سلگائی، سنیٹرز کے مطابق ایران سے جنگ خطرناک ہے، اور سلیمانی پر ایسے وقت حملہ ہوا جب مواخذہ ٹرائل شروع ہو رہا ہے، رپورٹ" وال اسٹریٹ جرنل" کی تھی، ایلزبتھ وارن اور برنی سینڈرز دونوں آیندہ انتخابات میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے لغو اور ہولناک دروغ گوئی کے ذریعے جنگی صورتحال پیدا کی ہے اس میں اس کا سیاسی فائدہ ہے۔ ٹرمپ امریکا کو جنگ کے دہانے پر لے جانا چاہتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مواخذہ کا انجام کیا نکلتا ہے، اور وائٹ ہاؤس میں سلیمانی کی طرف سے امریکیوں کے قتل عام کی جوفرضی کہانی گھڑی گئی ہے۔ اس کی تحقیقات کی شفافیت کیا رنگ لاتی ہے۔ صدر ٹرمپ تو کہتے ہیں کہ مواخذہ ایک پھلجھڑی اور سیاسی شوشہ ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ٹرمپ نیوکانز ہیں اور نہ آسولیشنسٹ۔ اور نہ ہی جنرل سلیمانی کے قتل سے وہ روایتی انٹروینشنشٹ بن گئے۔
سوال یہ ہے کہ ٹرمپ ہے کیا چیز؟