Saturday, 21 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Aamir Liaquat, Kamyab Ya Nakaam?

Aamir Liaquat, Kamyab Ya Nakaam?

یہ بہت پرانی بات نہیں ہے جب عامر لیاقت حسین نے جیو ٹی وی پر رمضان المبارک میں سحری اور افطاری کی طویل ترین نشریات کا ریکارڈ قائم کیا تھا اور پھر اس کے ایکسپریس اور دیگر ٹی وی چینلز پر، یہ صرف میرا گھر نہیں تھا بلکہ ہزاروں اور لاکھوں گھر تھے جہاں ان دنوں ٹی وی نان سٹاپ لگا رہتا تھا۔ بچوں سے لے کر ان کی امیوں اور نانیوں، دادیوں تک کو عامر لیاقت کی میزبانی کا انداز بے حد پسند تھا۔

یہ تو ابھی کچھ ہی ماہ پرانی بات ہے جب انہوں نے تیسری شادی کی تھی اور ان کی کم عمر اہلیہ دانیا شاہ نے مختلف ٹی وی چینلز پر بتایا تھا کہ وہ بچپن سے ہی عامر لیاقت کو اس قدر پسند کیا کرتی تھیں کہ جب وہ روتی تھیں تو ان کی اماں انہیں ٹی وی پر عامر لیاقت کا شو لگا دیتی تھیں اور رونا بھول جایا کرتی تھیں۔ عامر لیاقت نے انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ کو ہی اکٹھا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس میں مذہب کاٹچ بھی دیا اورایک طویل عرصے تک ان کا اسلامک ٹچ اسی طرح مقبول رہا جس طرح جناب عمر ان خان کا ہے۔

عامر لیاقت نے زندگی میں وہ سب کچھ پایا جو کوئی بھی مرد پانے کی خواہش کر سکتا ہے یعنی انہیں د ولت ملی، شہرت ملی، عزت ملی اور خوبصورت ترین عورتیں بھی ملیں۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک ٹیلنٹڈ شخص تھے اور وہ جس مقام پر پہنچے وہاں پہنچنے میں ان کی صلاحیتوں کا بھی بڑا دخل تھا۔

میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ وہ سب کچھ تھے مگر صرف وفادار نہیں تھے، ذاتی زندگی ایک طرف انہوں نے پروفیشنل اور سیاسی زندگی میں بھی کسی سے وفا نہیں نبھائی، وہ الطاف حسین کے بھی وفادار نہیں رہے اور پھر عمران خان کے بھی، انہوں نے اپنی آخری سیاسی وفاداری میں نواز شریف اور مریم نواز سے اپنی بے ہودہ گوئی کی معافی مانگ لی تھی مگر میرا گمان تھا کہ اگر اللہ انہیں زندگی دیتا تو انہوں نے شریفوں کے ساتھ بھی وفادار نہیں رہنا تھا سو میرا جواب تھا کہ ایک ذہین، ہوشیار اور متحرک شخص کا وفادار ہونا بہت مشکل امر ہے۔

وفاداری کی بھرمار آپ کو ہمیشہ ان میں ملے گی جن میں سوچ کی کمی ہو گی یا تحرک کی کمی ہو گی مگر مجھے اس جوابی دلیل سے بھی اتفاق ہے کہ غیر مشروط وفاداری کی کمی ہونی چاہئے مگر اتنی نہیں جتنی عامر لیاقت حسین میں تھی، وہ نہ کسی ادارے کے ساتھ مخلص تھے، نہ کسی سیاسی نظرئیے کے ساتھ اور نہ ہی اپنی کسی اہلیہ کے ساتھ۔

ہمارے معاشرے میں ہمیشہ پہلی بیوی کو مارجن دیا جاتا ہے اور مرد کی دوسری شادی کو اس سے زیادتی سمجھا جاتا ہے، شائد ایسا ہو بھی مگر بہرحال مذہب اس کی مخالفت نہیں کرتا، یہ ہمارے سماجی روئیے ہیں جن پر اسلام سے زیادہ دوسرے مذاہب کا اثر ہے مگر بہرحال میں ان کی تیسری شادی کو دونوں اطراف کی مفاد پرستی سمجھتا تھا لیکن اس کے باوجود میرا خیال یہ نہیں تھا کہ مطلب اور مفاد کا یہ رشتہ اتنی جلدی اور اتنے برے طریقے سے ٹوٹ جائے گا۔

جب ان کی تیسری شادی کا انجام سامنے آیا تو انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی موقعے پر ان کی اہلیہ نے ان کی کچھ قابل اعتراض ویڈیوز بھی جاری کرد یں جس نے انہیں شدید ڈپریشن کا شکار کر دیا۔ ان کی آخری ویڈیوز دیکھی جائیں تو ان میں وہ تمام علامات نظر آتی ہیں جو ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی خود کشی کرنے والے شخص میں ہوسکتی ہیں۔

میں عامر لیاقت کی مردہ حالت میں تصویر دیکھ رہا تھا اور یہ تصویر کسی بھی دوسرے عام مرے ہوئے مرد سے مختلف نہیں تھی۔ میری زندگی کے مشاہدات بتاتے ہیں کہ عورتیں اور مرد چاہے جتنے مرضی دولت مند، طاقت ور، مشہور اور بااثر ہوجائیں اندر سے وہ ایک عام عورت اورمرد ہی رہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ عامر لیاقت زندگی بھر اپنی جس چالاکی اور ہوشیاری کو اپنی طاقت اور کامیابی سمجھتے رہے وہی ان کی سب سے بڑی کمزوری اور ناکامی بن گئی۔ وہ اپنے جس دل کو زندگی بھر ظالمانہ انداز میں استعمال کرتے رہے آخر کار وہ دل فیل ہو گیا۔

بتایا جا رہا ہے کہ انہیں رات دل کی تکلیف ہوئی۔ انہیں ہسپتال لے جانے کا کہا گیامگر انہوں نے انکارکر دیا۔ ان کے کمرے سے چیخنے کی آوازیں بھی آئیں اور پھر انہیں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔ ہم سب کہتے ہیں کہ قدرت انصاف نہیں کرتی، کسی کو بہت دولت، شہرت اور سہولت عطا کر دیتی ہے اور کسی کوان میں سے کچھ بھی نہیں مگر جب ہم اس دنیا کی آزمائش گاہ سے نکلتے ہیں تو ہمارے سامنے آتا ہے کہ قدر ت انصاف کرتی ہے، وہ سب کو زندگی سے موت کی طرف لے جاتی ہے اور ہمارے عقیدے کے مطابق پھر ہماری اس امتحان گاہ کا نتیجہ سامنے آجاتا ہے۔

ابھی حالیہ سیاسی بحران میں میری عامر لیاقت سے ٹیلی فون پر بات ہو ئی تھی، وہ سیاسی طور پر اسی جوش اور جذبے کا شکار تھے جس کا وہ کبھی اپنی سحر اور افطار ٹرانسمیشن میں ہوا کرتے تھے۔ اللہ پاک ان کی مغفرت کرے، مجھے کہنا نہیں چاہئے مگر یہ بات ریکارڈ پر رکھنی ہے کہ میں انہیں پسند نہیں کرتا تھا بلکہ آپ اسے ناپسندکرنا بھی کہہ سکتے ہیں مگر اس کے باوجود میں ان کی صلاحیتوں سے نہ تب انکار کرتا تھا اور نہ اب کرتا ہوں مگراب میرا سوال اپنے آپ سمیت سب سے یہ ہے کہ کیا ہم عامر لیاقت کی زندگی کو ایک کامیاب زندگی سمجھ سکتے ہیں۔

میرے پاس اس حوالے سے بھی بے شمار دلائل ہیں کہ آخر کار سب نے ہی مرجانا ہے چاہے کوئی چور ہو یا سادھو، لہذا کامیابی یہی ہے کہ آپ اس زندگی کو زیادہ سے زیادہ انجوائے کر لیں۔ اس کا رس نچوڑ لیں۔ اپنے حصے کا جی کر چلے جائیں۔ عامر لیاقت کی زندگی کو دیکھا جائے تو انہوں نے بہت ساروں کو بہت سارے دکھ بھی دئیے ہوں گے مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کروڑوں لوگوں کے چہروں پر اپنی صلاحیتوں سے مسکراہٹیں بھی بکھیریں، انہیں خوش کیا اور اپنے لئے محبتیں بھی سمیٹیں۔

وہ اینکر ہی نہیں رہے بلکہ کراچی جیسے شہر سے رکن قومی اسمبلی بھی رہے۔ ہم میں سے بہت سارے اپنی زندگی میں اس سے بہتر کے لئے کیا سوچ سکتے ہیں، مادی اور مالی اعتبار سے آپ عامر لیاقت سے بھی بہترہونا چاہیں تو آپ نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری، ملک ریاض یا میاں منشا ہی ہوسکتے ہیں اور کیا ہوسکتے ہیں مگر ثابت ہوا کہ اس کے بعد بھی ہم سب کے پاس ٹھکانہ قبر ہی ہے، آہ، مجھے یہاں ڈاکٹر امجد یاد آ گئے۔

ابھی میری چند روز پہلے ایڈن متاثرین سے ملاقات ہوئی جب وہ نیب کی طرف سے سولہ ارب روپے کی پلی بارگین پر چیخ رہے تھے، رو رہے تھے۔ ڈاکٹر امجد نے بھی اربوں کمائے مگر پھر یوں ہوا کہ ان کے جنازے پر متاثرین نے حملہ کر دیا اور اب ان کی قبر پرچوکیدار رکھنا پڑتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ان کی قبر پر غلاظت پھینک جاتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عامر لیاقت نے بھرپور زندگی گزاری، انہیں عزت، دولت، شہرت اور عورت سب کچھ ملا مگر اس کے باوجود میرے ذہن میں یہ کنفیوژن کیوں ہے، میں یہ سوال کیوں کر رہا ہوں کہ عامر لیاقت کامیاب رہے یا ناکام، آپ کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟