Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Afghan Hamein Maaf Kar Dein

Afghan Hamein Maaf Kar Dein

ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں اپنے افغان دوستوں، بھائیوں اورمہربانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ہمیں معاف کر دیں، وہ آپس میں ایک دوسرے سے لڑنا چاہتے ہیں توضرور لڑیں، ایک دوسرے پر ٹینک چڑھائیں یا توپیں چلائیں ان کی مرضی ہے۔ وہ روس کو توڑنے کاکریڈٹ لیں یا امریکہ کو کھربوں ڈالر کے نقصان کاثواب، وہ بھی ان کے کھاتے ہیں۔ وہ جدید دنیا کی تمام تر سہولتوں اور آسائشوں کو حرام سمجھ کر اپنی اور اپنے آنے والی نسلوں کے لئے زندگی جہنم بنائے رکھیں تو یہ ان کافیصلہ ہے۔ وہ فیملی پلاننگ کو حرام سمجھیں اور بچوں کی دھڑا دھڑ پیدائش کو حلال، وہ ان بچوں کو جنم دیتی ماوں کے لئے ہسپتالوں اور خود اپنے بچوں کے لئے سکولوں کے بجائے بندوقوں پر سرمایہ کاری زیادہ فائدہ مند سمجھیں تو ان کا اپنا آئی کیو لیول۔ وہ اقتدار میں آنے کے لئے انتخاب کے بجائے جنگ جیسے راستے کا انتخاب کریں تو ان کی مرضی کہ افغانستان ان کا ملک ہے، وہ اسے تباہ کریں یا آباد بس ہمیں معاف کر دیں، جی ہاں، وہ اور ان کے سرپرست ہمیں ہمارے ملک میں ہمارے اپنے آئین اور ہمارے اپنے مسائل کے ساتھ رہنے دیں۔

مجھے تو اب اس فلسفے پر بھی شک ہوتا ہے جو پیش کیا جاتا تھا کہ سوویت یونین کا افغانستان کے بعد اگلا ٹارگٹ پاکستان تھا اور اگر سوویت یونین کو افغانستا ن میں نہ روکا جاتا تو وہ گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے ہماری سرزمین کو بھی افغانستان ہی بنا دیتا۔ مجھے لگتا ہے کہ ضیا حکومت بہرصورت امریکی جنگ لڑنا چاہتی تھی کہ اسے اپنی ناجائز حکومت کو امریکی قبولیت اور ڈالر دونوں ملتے ہوئے نظر آ رہے تھے، وہ اسے ملے مگر پاکستانیوں کو ملا تو کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصب اور نفرت۔ عام پاکستانی کو بتایا گیا کہ اگر افغانستان میں پاکستان کی حامی حکومت ہو گی تو اس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہو گا اور پھر پیپلزپارٹی کے دور میں ہمارے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے وہاں اپنے مدرسوں کے طالب علم بھجوائے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ افغان جنگ نے ہمارے بہت ساروں کو کروڑ بلکہ ارب اور کھرب پتی کر دیا۔ ہماری سرحدیں غیر محفوظ ہو گئیں۔ سمگلنگ کے مال سے ہمارے بازار بھر گئے اور لوکل انڈسٹری تباہ ہو گئی۔ لاکھوں افغان مہاجرین نے ہماری معیشت اور کاروبار کے ذرائع پر قبضہ کر لیا۔ اب بھی ہمارے شہروں کی مارکیٹیں افغانوں کی دکانوں اور سڑکیں افغانوں کے بسوں، ٹرکوں سے بھری پڑی ہیں۔

اس کے بعد پرویز مشرف کا دور آیا تو ٹوئن ٹاور کا واقعہ ہو گیا۔ طالبان کی حکومت نے امریکا کے بار بار مطالبے کے باوجو د اس کے ملزم اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکا رکردیاجس کا نتیجہ ایک مرتبہ پھر افغانستان میں تباہی اوربربادی کی صورت نکلا۔ امن، نبیوں کی دعا ہے مگر لگتا ہے کہ افغانستان کوکسی نبی کی بددعا ہے۔ ضیا الحق کا دور افغانستان کی وجہ سے معاشی دہشت گردی کا شکار ہوا تو پرویز مشرف کے دور میں ہمیں افغان تنازعے میں فریق ہونے کی وجہ سے حقیقی دہشت گردی تحفے میں ملی۔ ہمارے ستر ہزارسے زائد فوجی اور شہری اس جنگ میں شہید ہو گئے۔ افغانستان ایک مرتبہ پھر کھنڈر بنا دیا گیا اور آخر کار امریکی دعووں کے مطابق اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد سے ڈھونڈ نکالا گیا، اسے مارا گیا اور مبینہ طور پر سمندر برد کر دیا گیا۔ مجھے معافی افغانوں کے ساتھ ساتھ ان پاکستانیوں سے بھی مانگنی ہے جن کی مالی اور سیاسی دیہاڑیاں اس جنگ سے لگی ہوئی ہیں۔ میں نے بطور جرنلسٹ لاہور کے جی پی او چوک سے شروع ہونے والے بموں کے دھماکے دیکھے، میں نے مون مارکیٹ سے واہگہ بارڈر تک معصوم لوگوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے جسم دیکھے اور دوسری طرف اپنے وہ لوگ دیکھے جو دہشت گردی کی اس فضا میں بھی فکری مغالطے پیدا کر رہے تھے حالانکہ یہ وہ دن تھے جب ہمارے صوبہ سرحدمیں جمعے کا کوئی دن کسی بڑے بم دھماکے بغیر نہیں گزرتا تھا۔ وہ دہشت گردی کر کے ہمارے باپوں، بھائیوں، ماوں، بہنوں اور بچوں کو مارنے والوں کو مجاہد قرار دے رہے تھے۔ ہم دنیا کی واحد قوم بن گئے تھے جس کی اکثریت اپنے پیاروں کے قاتلوں کے عشق میں مبتلا تھی اور اب بھی ہے، یہ ذہنی بیماری کی انتہا تھی اور مجھے ایک عام پاکستانی کے طور پر معافی ان سے بھی مانگنی ہے، امان ا ن سے بھی طلب کرنی ہے۔

پھر پیپلزپارٹی کے دور میں سوات آپریشن ہوا اور نواز شریف کے دور میں آپریشن ضرب عضب، ہماری فوج نے دہشت گردی کے خلاف واضح پوزیشن لی۔ ہم نے اپنے ہی ملک میں ایک بڑی جنگ لڑی اوراس کی وجہ وہی لوگ اور وہی فیصلے تھے جن کا اوپر ذکر ہو چکا لیکن اب ایک مرتبہ پھر ہمیں فکری طور پر منتشر کیا جا رہا ہے۔ ہم میں سے بہت سارے طالبان کی کامیابیوں پرخوشی سے پاگل ہو رہے ہیں۔ وہ اسے کسی اسلامی خلافت کا احیا سمجھ رہے ہیں حالانکہ یہاں بہت سارے معاملات مشکوک ہیں۔ یہ واضح ہوچکا کہ امریکا نے افغانوں کو مرنے اور مارنے کے لئے کھلا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ امریکی بہت چالاک ہیں۔ وہ اربوں ڈالر خرچ کر کے افغانوں کو لڑوانے اور مروانے کا کام کر رہے ہیں وہ جان گئے ہیں کہ یہ کام تو مفت میں بھی ہو سکتاہے۔ سرکاری افواج کے سینکڑوں فوجی چند درجن طالبان کے سامنے ہتھیار پھینک کر فرار ہو رہے ہیں اور وہ انہیں فرار ہونے دے رہے ہیں۔ واقفان حال ان قبضوں کو مشکوک اور پراسرار قرار دے رہے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ افغانستان میں ایک اورخوفناک اور خطرناک کھیل کا آغازہو گیا ہے۔ افغان حکومت بدلنے کے لئے ابھی تک فوج کشی کو طریقہ بنائے ہوئے ہیں جبکہ مہذب دنیا اس طریقے کو صدیوں پہلے ترک کر چکی ہے۔

مجھے ڈر لگ رہا ہے، ہم چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لئے بڑے بڑے خطرات مول لے رہے ہیں۔ ہم نے طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز میں بٹھانے میں کردارادا کیا ا وراب طالبان دوبارہ اس جنگ بندی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ وہ امریکا کی جنگ نہیں لڑیں گے اور دوسری طرف طالبان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ کابل پر قبضہ نہ کریں۔ وہ قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف سیکورٹی ایشو پر بریفنگ میں واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ افغان طالبان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، یہ بظاہر الگ الگ ہیں مگر اندر سے ایک ہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان کو نئے چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے جو پہلے سے بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ خدا کے لئے ہمیں یہ نہ بتایا جائے کہ انڈیا اورایران وہاں اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنا چاہتے ہیں اور اگر ہم نے اپنی مرضی کی حکومت قائم نہ کروائی تو ہم گھاٹے میں رہیں گے۔ اب چاہے کچھ بھی ہو ہمارے حصے میں ماضی کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں صرف گھاٹا ہی ہے سو ہمیں اب ہمیں اس گھاٹے کے کاروبار سے الگ ہوجانا چاہئے۔ افغانوں سے معافی مانگ لینی چاہئے کہ بھائی لوگو، سنبھالو اپنا ملک، لڑو یا مرو تمہاری مرضی۔ ہم تمہارے معاملے میں غیر جانبدار ہیں۔ ہمیں ان سے بھی معافی مانگنی چاہئے جو اس سنگین ترین ایشو پر ایک مرتبہ پھر سیاسی اور مالی دیہاڑیاں لگانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، میں ان کی ٹپکتی رالیں دیکھ رہا ہوں۔

تکلف برطرف، میں ایسے بہت سارے افغانیوں کو بھی سنتا ہوں جو پاکستانیوں سے کہتے ہیں کہ ہم انہیں معاف کر دیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے نہ میزبانی کی نہ قربانیاں دیں بلکہ صرف ان کے ملک پر قبضے کی کوشش کی۔