ہمارے بہت سارے دانشوروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی وارننگ کیوں دی گئی ہے۔ مجھے ایسے لوگوں پر ہمیشہ حیرت ہوتی ہے جو سیاست کی دشمنی میں ریاست کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے نگران حکومت اور مقتدر حلقوں کے ساتھ اختلافات ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اختلافات کی کچھ جینوئن وجوہات بھی ہوں مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان نے ان کا کیا بگاڑا ہے۔ جب انہیں اقتدار ملتا ہے تو وہ ایک صفحے پر ہونے کی لن ترانیاں ہوتی ہیں اور اقتدار سے محروم ہوجائیں اور چاہے کتنے ہی آئینی، قانونی اور جمہوری طریقے سے ہوں، ہر معاملے پرسازشیں ہوتی ہیں، دانشورانہ مغالطے ہوتے ہیں، بدگمانیاں ہوتی ہیں۔
حکومت کے اعداد وشمار ہیں کہ پاکستان میں موجود چوالیس لاکھ افغانیوں میں سے چودہ لاکھ ہی رجسٹرڈ ہیں اور باقی تیس لاکھ کیا ہیں خود ہی سمجھ لیجئے، سوبہت ہوگیا، پاکستان اور پاکستانیوں نے افغانوں کی بہت میزبانی کر لی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری پوری کی پوری افغان پالیسی غلط تھی ہاں یہ ضرو ر تھا کہ ہماری کچھ غلطیاں بھی تھیں اور کچھ مفادات بھی۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور سے منشیات اور اسلحے نے افغانستان کے راستے پاکستان کا منہ دیکھا اور خیبر سے کراچی تک پھیل گیا۔
لاکھوں کی تعداد میں افغان پاکستان آئے اورپھر وہ افغان نہیں رہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اورقبائلی علاقوں کی شکل اور زبان سے رسم و رواج تک ایک جیسے ہیں، گھل مل جاتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں شادیاں کیں، یہاں بچے پیدا کئے، یہیں کے شناختی کارڈ بنوائے اور اب ان کی کم از کم تیسری نسل یہاں جوان ہو ئی ہے۔ لاہور کی شاہ عالمی سے نکلیں اور راوی روڈ کے ساتھ شفیق آباد تک کہیں بھی چلے جائیں، آپ کو افغان ہی افغان نظر آئیں گے۔
اوریا مقبول جان، ایک خاص نکتہ نظر کی مقبول شخصیت ہیں۔ ان کی طرف سے ہر دوسرے روز سننے کو ملتا ہے کہ افغانستان میں یہ اچھا ہوگیا اور پھر وہ اچھا ہوگیا۔ کبھی کہتے ہیں کہ وہاں ڈالر بہت سستا ہے اور کبھی بتاتے ہیں کہ حکمران بہت اچھے، سادہ اورنیک مگر دوسری طرف اس مکتبہ فکر کا خیال یہ بھی ہے کہ افغانوں کو واپس جانے کے لئے نہیں کہنا چاہئے تو اے میرے بھائیواور بہنو، اگر افغانستان واقعی طالبان کی حکومت بننے کے بعد امن اور معیشت کے حوالے سے جنت بن گیا ہے توتم ہماری جہنم چھوڑ کے چلے کیوں نہیں جاتے اور مجھے شکوہ کرنے دو کہ اگر یہ جہنم ہے تو اسے جہنم بنانے میں ہمارے ان دوستوں کا بڑا ہاتھ ہے۔
میں پچھلی صدی میں اسی کی دہائی سے بات شروع نہیں کرتا، اس صدی کے پہلے عشرے کی با ت بھی نہیں کرتا مگر اسی برس جنوری سے اب تک چوبیس خود کش دھماکوں میں سے چودہ ہمارے انہی افغان مہمانوں نے کئے ہیں۔ کیا یہ کھلا راز نہیں کہ غیر رجسٹرڈ افغان سمز سرحدی علاقوں میں کھلے عام دستیاب ہیں، ان کے ٹاورز کی رسائی ہمارے علاقوں تک ہے۔
پاکستان کو برا بھلا کہنے والوں کے پاس ایسا کہنے کے لئے بہت کچھ ہے جیسے یہ کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان دو، چار ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو کاخاتمہ نہیں ہوسکا۔ یہ بات درست ہے کہ پشاور وغیرہ تو ایک طرف رہے کبھی لاہور اور کبھی کراچی میں پولیو کا شکار کوئی نہ کوئی بچہ سامنے آجاتا ہے اور اس کے ڈانڈے پیچھے افغانستان والوں سے ہی ملتے ہیں۔ نگران وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان نے کہا ہے کہ پاکستان میں ملنے والے نوے فیصد پولیو کیسز افغانستان سے ہی درآمد ہوکے آئے ہیں، یہاں کے اپنے کیسز تو دس فیصد سے بھی کم ہیں۔
اب ہمارے کچھ دوست شور مچا رہے ہیں کہ جن افغانوں کے پاس دستاویزات موجود ہیں انہیں پریشان نہ کیا جائے۔ ان کی بات درست ہوگی مگر حکومت تو واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ یہ آپریشن مہاجرین کے خلاف نہیں بلکہ غیر قانونی تارکین وطن کے قیام کے خلاف ہے۔ دنیا کا کون سا ملک ہے جو بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے آپ کو داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے اور اگر آپ اتنے ہی اسلامی بھائی چارے کے حامی ہیں تو جائیں ذرا فغانستان میں رہ کر دکھائیں۔ ہم نے تو بہت عرصہ افغان باقی کہسار باقی اپنے اخبارات کی پیشانیوں پر لکھ لیا، کئی مرتبہ دفاع افغانستان کونسلیں وغیرہ بھی بنا لیں، ستر ہزار پیارے مروا لئے، حضور اب او رکیا کریں؟
معاملہ دہشت گردی اور بیماری کا ہی نہیں بزنس کا بھی ہے بلکہ بزنس سے زیادہ سمگلنگ کابھی ہے۔ افغان باشندے یہاں پرآتے ہیں، مال اٹھاتے ہیں اور لے جاتے ہیں۔ مانتا ہوں کہ ہماری سرحدوں پر بھی رشوت چلتی ہوگی مگر آپ دوسروں کو یہ موقع ہی کیوں دیتے ہیں کہ وہ اس دھندے کاآغاز کریں۔ کبھی پتا چلتا ہے کہ آٹا سمگل ہوگیا اور کبھی چینی۔ سمگلنگ جیسے دوسرے جرائم کے ڈانڈے بھی افغانستان سے ہی جا کر ملتے ہیں جیسے منشیات کا ذکر کیا یاویسا ہی خوفناک ناجائز اسلحہ اور اغوا برائے تاوان کا کاروبار، پنجاب کے ایک طرف کچے کا علاقہ اور دوسری طرف قبائل۔
چلیں، جرم کو چھوڑیں مجھے شنواری قبیلے بارے بتائیں، پاکستان میں بھی شنواری ہیں مگر افغانستان کے صوبہ پروان میں ایک شہر پورے کا پورا شنواری نام سے ہے جسے ضلعے کا درجہ حاصل ہے، بصد احترام، کیا اس کا ہر شخص ہی باورچی ہے کہ جگہ جگہ شنواری ریسٹورنٹ کھل گئے، جی ٹی روڈ ہو یا ملتان روڈ، انہی سے بھری پڑی ہے۔ باقی ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہو یا کپڑے کا، مقامیوں کے لئے کاروبار کے آپشن ہی بہت کم رہ گئے ہیں۔ داد دیجئے لاہوریوں کے کہ وہ مہاجروں یا بلوچیوں کی طرح چیختے نہیں، ردعمل نہیں دیتے، ان کے دل کھلے ہیں مگر رزق تنگ ہو رہا ہے۔ چھوٹے بڑے بازاروں کی باتیں چھوڑئیے، یہ ڈالر کی افغانستان میں سمگلنگ کیا معاملہ ہے جس نے ہماری پوری معیشت کو یرغمال بنا رکھا ہے اور ہمارے عوام کو مہنگائی کا اسیر، بہت ہوچکی افغانوں سے محبت، ہمیں اب لنڈورے ہی رہنے دیجئے۔
پاک فوج کے سپہ سالار حافظ عاصم منیر ان غلطیوں کی اصلاح کر رہے ہیں جو ہم عشروں سے کر رہے ہیں۔ کیا کوئی اس حکم کی اہمیت سمجھ سکتا ہے کہ سمگلنگ میں ملوث ہونے والوں کا کورٹ مارشل ہوگا۔ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں کئی ملین غیر قانونی مقیم افغانوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ بھی تاریخی اور انقلابی ہے۔ وہ فیض احمد فیض کے اشعاربے دم ہوئے بیماردوا کیوں نہیں دیتے، اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے، منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے، کی عملی تفسیر بن کے سامنے آئے ہیں۔ کون انکار کرے گاکہ انہوں نے مختصر عرصے میں بڑے بڑے مافیاؤں کو نکیل ڈال کے رکھ دی ہے۔
مجھے ان سے صرف اتناکہنا ہے کہ وہ اپنی سیکورٹی پر خصوصی توجہ دیں، ا نہوں نے مملکت خداداد میں اسرائیل تک کے میگا پراجیکٹ ناکام کرکے رکھ دئیے ہیں۔