Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Aik Bore Lecture

Aik Bore Lecture

میری نظر میں برادر قاسم علی شاہ خود کامیابی کی ایک بڑی داستان ہیں۔ وہ قاسم علی شاہ فاونڈیشن بنانے کے بعد اپنی ذات میں خود ایک ادارہ بن چکے ہیں۔ وہ گفتگو کرنے اور گفتگو کے ذریعے متاثر کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ میرے لئے یہ اعزاز کی بات تھی کہ میں ان کی فاونڈیشن میں مدعو کیا گیا۔ ان کے ملینز میں فالورز ہیں، لوگ انہیں شوق سے سنتے ہیں مگراس روز مجھے علم ہوا کہ وہ خود ایک بہت اچھے سامع ہیں۔ وہ دوسروں سے عزت اور محبت اس لئے بھی لیتے ہیں کیونکہ وہ یہ سب دینا جانتے ہیں اور اب مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے وہاں ایک بور لیکچر کیوں دیا، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔

میں جانتا ہوں کہ میں جو باتیں کرتا ہوں وہ بہت ساروں کو پسند نہیں آتیں۔ لوگ حقوق کی باتیں زیادہ سننا چاہتے ہیں اور میں فرائض کی باتیں زیادہ کرتا ہوں کیونکہ میری نظر میں حقوق و فرائض کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ میرے حقوق کے کسی دوسرے کے فرائض ہیں اور کسی دوسرے کے حقوق میرے فرائض۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے حقوق ادا نہ کروں اور دوسروں سے اپنے فرائض ادا ج کرنے کا مطالبہ کرتا رہوں۔

میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایک بڑا لیڈر سمجھتا ہوں مگر یہ بھی سمجھتا ہوں کہ انہوں نے صرف حقوق کا تصور دیا۔ عمران خان بھی ایک طبقے کے لئے کرشماتی لیڈر بن کے آئے مگر انہوں نے بھی دوسروں کے نیک اور ایماندار ہونے کی ضرورت پر زور دیا اور خود ہر گناہ، ہر برائی اور ہر جرم میں ملوث ہوئے۔ میں انقلاب کو ایک گمراہ کن اور تباہ کن نعرہ سمجھتا ہوں۔ میری سٹڈی تو یہی ہے کہ حقیقی انقلاب کاآنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوچکا ہے۔ اب تو انقلاب جس جگہ بھی آتا ہے وہاں تخت والوں کو تختے پر ضرور پہنچایا جاتا ہے مگر اس کے سوا کچھ نہیں بدلتا۔ یوں بھی انقلاب خون مانگتا ہے، خون بہاتا ہے اورمیری نظر میں ہر زندگی بہت اہم، بہت محترم ہے۔

میں انقلاب کی بجائے اصلاحات کی بات کرتا ہوں۔ میرا آئیڈیل کوئی ہلاکوخان نہیں بلکہ محمد علی جناح ہیں جنہوں نے کسی جنگ کی بجائے اپنی حکمت، فراست اور قیادت سے دنیا کی نقشہ بدلا اور سینکڑوں برس کے بعد دنیا کو دوسری اسلامی نظریاتی ریاست دی اور سب سے اہم بات، میرے آقا ﷺ نے مدینہ کی ریاست جسموں کو نہیں دلوں کو فتح کرکے بنائی تھی اور اسی طرح جب مکہ جیسے اہم ترین شہر کا قبضہ لیا تھا تو خون نہیں بہایا گیا تھا۔ مجھے علم ہے کہ لو گ ایسی باتیں پسند کرتے ہیں کہ انقلاب ان کے لہو کی بوند بوند میں دوڑ رہا ہے، وہ اپنے سوا ہر کسی کو کرپٹ کہنے اسے گالی دینے کو قادرالکلامی سمجھتے ہیں ا ور مجھے گالی دینے والے ہر شخص سے بُو آتی ہے، بہت گندی اور غلیظ بُو۔

میرے پاس موضوع تھا کہ سچی خبر کی پہچان کیسے کی جائے تو اس کے لئے بہت سارے پیرامیٹرزموجود ہیں جیسے یہ کہ ایک ایڈیٹر اور ایک صحافی کے طور پر خبر کے سورس پر خصوصی توجہ دی جائے کہ وہ اس خبر کو دینے کی اہلیت رکھتا بھی ہے یا نہیں، کسی بھی الزام کے ثبوتوں کو خاص اہمیت دی جائے۔ ایک عام شہری کے لئے ضروری ہے کہ وہ خبر دینے والے ادارے کے ماضی، مفادات اور ساکھ کو ضرور دیکھے۔

میرا کہنا یہ ہے کہ جھوٹی خبر اس وقت سچی خبر پر حاوی ہوجاتی ہے جب آپ خود جھوٹی خبر سننا چاہتے ہوں۔ میرے سامنے کوئی چھوٹے بچے موجود نہیں تھے بلکہ وہ سب کے سب نوجوان تھے، بی ایس کے طالب علم تھے۔ میں انہیں بتا رہا تھا کہ ہم سب کے پاس اپنے اپنے سچ موجود ہوتے ہیں جیسے ایک ہی پروگرام میں مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے لوگ موجود ہوتے ہیں اور مختلف معاملات پر ان کے پاس اپنے اپنے حقائق ہوتے ہیں جن کو اپنی اپنی تعلیم و تربیت، حالات و واقعات اور تجربات سے اخذ کرتے ہیں۔

اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک بچہ جو واہگہ اٹاری بارڈر سے پاکستان والی سائیڈ پر پیدا ہوتا ہے اس کے پاس کشمیر کے معاملے پر جو سچ ہوتا ہے وہ انڈیا والی سائیڈ پر پیدا ہونے والے بچے کے سچ سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ ایک پرانی کہاوت ہے کہ آپ ریاضی کے عدد 6 کے کس طرف کھڑے ہیں کیونکہ دوسری سے دیکھنے سے یہی عدد 9 ہوجائے گا سو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ دوسرا کہاں کھڑا ہے۔

میں نے کہا کہ ہمارے دماغ میں مختلف کیمیکلز کام کرتے ہیں اور مختلف قسم کی انفارمیشن کو اکٹھا کرنے کے لئے نیورونز کے کلسٹربنتے ہیں۔ سو ہم جس کے حق میں زیادہ سوچتے ہیں اس کے بارے میں زیادہ مضبوط کلسٹر بننے لگتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ ہمارا دماغ ان کلسٹرز کا گڑھ بن جاتا ہے اور ان کے مخالف نیورونز کو جگہ ہی نہیں ملتی۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب ہم اپنے مخالف کے حق میں کسی سچی خبر، گواہی اور ثبوت کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں اور یوں سچی خبر کی قبولیت اور مقبولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بن جاتے ہیں جس کا ہمیں اندازہ تک نہیں ہوتا۔

میرے لیکچر کی نوجوانوں کے لئے بوریت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ میں نے انہیں اعتدال کی راہ اپنانے کا مشورہ دیا، انہیں بتایا کہ ہر تصویر کے ایک سے زیادہ رخ ہوتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ بہادری اور بے وقوفی کے درمیان فرق صرف عقل اور حکمت کا ہوتا ہے۔ عقل سے عاری شخص یہ کہہ کے بہت توجہ لے سکتا ہے کہ وہ چلتی ہوئی ٹرین کے سامنے کھڑاہو کے اسے روک سکتا ہے مگر عقل والا جانتا ہے کہ اس کے نتیجے میں موت ہے۔

ایک پختون نے مجھے کہا کہ آپ لوگ وزیرستان سے آنے والی ایسی خبریں کیوں شائع کرتے ہیں کہ وہاں دہشت گردوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں تو اس پر میر اسوال تھا کہ آپ دنیا کی کسی ایک ریاست میں ایسا میڈیا بتائیں جو اپنی ہی فوج اور محافظوں کے خلاف رپورٹنگ کرتا ہو، ہاں، جہاں سانحہ ساہیوال جیسے حقائق سامنے آتے ہیں تومیڈیا ہی سٹینڈ لیتا ہے۔ میں کنوینس ہوں کہ پاکستانی سیاستدان جمہوریت کو صرف اور صرف اپنی کارکردگی اور حکمت سے ہی مضبوط بناسکتے ہیں۔

میں پاکستان کی تاریخ میں مقتدر حلقوں کی مداخلت اوراس کے منفی اثرات سے انکار نہیں کرسکتامگریہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ساری خرابیاں اسٹیبلشمنٹ میں ہی ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کو درست کرنے سے پہلے خود کو درست کرنا ہوگا۔ میں نے انہیں یہ بتا کے بھی بدمزہ کیا کہ جمہوریت مانگنے والوں کے اندر خودجمہوریت نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو اپنے خاندانوں سے باہر نہیں نکلتے اور جن کے بچے اور خاندان اس سہولت کے لئے دستیاب نہیں ہیں وہ اپنی پارٹی میں صدورکو یوں لگاتے اور اکھاڑتے ہیں جیسے کوئی چپڑاسی بھی نہیں لگاتا اور نکالتا۔ کوئی شخص اس مولوی کی با ت پرپنچ وقتہ نماز کیوں پڑھے گا جو خود نماز نہ پڑھتا ہو؟