کیا آپ کے لئے یہ حیرت انگیز نہیں کہ امریکی نمائندوں کو غزہ میں ہونے والے تاریخ کے بدترین ظلم اور قتل و غارت پر تشویش نہیں مگر پاکستان کے ایک سیاسی رہنما کے حوالے سے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ ارکان متحد ہیں جو اپنے کئے گئے جرائم میں باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ، ایک آئینی عدالتی نظام کے ذریعے سزا بھگت رہا ہے۔ کیا یہ بھی حیرت انگیز نہیں ہے کہ پاکستان کے نظام میں بار بار مداخلت کرنے والے اپنی حکومتی اور عدالتی نظام پر عافیہ صدیقی کو دی گئی سزا کے ذریعے لگی ہوئی کالک پر بھی نہ شرمندہ ہیں اور نہ ہی اسے مٹانے کے لئے کوشاں۔
مجھے اس پر حیرت اس لئے نہیں کہ میں ان کا مائنڈ سیٹ اور مقاصد دونوں جانتا ہوں۔ امریکا بطور ریاست، اس کا پورا نظام اور سیاستدان بااثر یہودی خاندانوں کے زیر اثر ہیں جیسے کہ گولڈ سمتھ فیملی، پاکستانی سیاستدان عمران خان کا سابق سسرال۔ ان کی اہلیہ برسوں پہلے عمران خان سے بطور فرد علیحدہ ہونے کے باوجود اسرائیلی ایجنڈے سے پوری طرح وابستہ ہیں جس میں پاکستان کو کمزور، اس کی فوج کو ٹارگٹ، سی پیک جیسے منصوبوں کو سبوتاژ اورایٹمی پروگرام کو تباہ کرنا ہے۔ وہ پاکستان کی فوج اور ریاست کے خلاف سرگرم عمل عادل راجاؤں، سے مکمل طور پر رابطے میں نظر آتی ہیں اور مبینہ طور پر ایسے بہت سارے کرداروں کی فنڈنگ بھی کی جاتی ہے۔
میں جب اپنی تشویش ظاہر کر رہا ہوں تو امریکی پارلیمنٹ کے 60 ارکان کے بعد ایک مرتبہ پھر 46 ارکان امریکی صدر جوبائیڈن کو ایک خط لکھ چکے ہیں جس میں انہوں نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے شور مچایا ہے۔ یہ دوسرا خط اس وقت لکھا گیا ہے جب چوبیس نومبر کو عمران خان ایک مرتبہ پھر ایک نام نہاد فائنل کال دے چکے ہیں۔ دونوں میں وقت کی یکسانیت ظاہر کررہی ہے کہ دونوں اقدامات کو کرنے والی قوتیں ایک ہی ہیں جو پاکستان کو ایک ساتھ ہی اندرونی اور بیرونی ضرب لگانا چاہتی ہیں۔ کیا یہ سوال جائز نہیں ہے کہ امریکی کانگریس کے ارکان اتنے تاولے کیوں ہورہے ہیں۔ انہیں اپنا کون سا ایجنڈا اور مقاصد خطرے میں نظر آ رہے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ فرسٹریشن اڈیالہ سے واشنگٹن منتقل کی جارہی ہے اوراس کے لئے بھاری فنڈز خرچ کئے جا رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک ایسی سیاسی جماعت جو نہ اقتدار میں ہے اور نہ ہی جلسے کرنے کے قابل ہے، اس کے پاس ہر مہینے ہزاروں اور لاکھوں ڈالرز کہاں سے آ رہے ہیں کہ وہ یہودی لابی سے وابستہ امریکی گانگریس کے ارکان خرید رہی ہے۔ یہ واضح شبہ کیا جا سکتاہے کہ اس کے پیچھے گولڈ سمتھ فیملی سمیت ان تمام کا پیسہ ہو سکتا ہے جو عمران خان کو پاکستان کی محب وطن قیادت، دفاع کی ذمے دارفوج اور سی پیک جیسے ترقی کے ضامن منصوبوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
اڈیالہ جیل میں بند بانی پی ٹی آئی کی فرسٹریشن کی وجہ یہ ہے کہ ان کا خریدا ہوا جیل کا سٹاف تبدیل ہوچکا ہے۔ وہ آئینی، سیاسی، پارلیمانی میدان میں ہی نہیں بلکہ اس کے بعد اعلیٰ ترین عدالتی اداروں میں بھی اپنے مقاصد کے حصول میں شکست کھا چکے ہیں۔ ان کے بار بار کے احتجاج اور جلسوں کے حربے بھی ناکام ہو چکے ہیں۔ اب وہ آخری زور لگا رہے ہیں جس کی کامیابی بارے ان کے قریبی ساتھیوں کو بھی بہت سارے شکوک و شبہات ہیں۔ وہ ایک بار پھراپنے بے وقوف حامیوں کو ریاستی اداروں کے سامنے پھینکنے کی حماقت کر رہے ہیں حالانکہ وہ یہ سب اکتوبر میں بھی کرکے دیکھ چکے ہیں جس میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے اپنے صوبے کی پولیس اورایمرجنسی سروسز سمیت تمام ملازمین کو بھی غیر آئینی اور غیرقانونی طور پروفاق پر چڑھائی کے لئے استعمال کیا۔
میں بہت ساروں کے اس سوال کو جانتا ہوں کہ عمران خان تو امریکہ سے آزادی کا نعرہ لگا رہے تھے اور ان کے مطابق وہ پاکستان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تووہ مجھے لارنس آف عربیہ کی ایک نقل نظر آتے ہیں جس نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور خلافت کے خاتمے کے لئے عربوں کی آزادی کا نعرہ لگایا۔ یہاں پر بھی ریاست مدینہ اور نیا پاکستان کے نعرے دئیے گئے۔ لارنس آف عربیہ نے اسلام دشمن بیک گراؤنڈ کے باوجود عربوں کو بے وقوف بنایا۔ بصرہ کی مسجد میں جا کے اسلام قبول کیا۔ وہ عربی زبان کا ماہر تھا اور عربی لباس زیب تن کرنا شروع کر دیا۔ اس نے عربوں سے ترکوں پر گولیاں برسوائیں۔
عمران خان اور لارنس آف عربیہ کے طریقہ کار سے مقاصد تک میں اہل علم اور اہل نظر کو بہت ساری مماثلتیں نظر آتی ہیں۔ وہ ہم کوئی غلام ہیں، سے تیزی کے ساتھ ہاں ہم غلام ہیں، کے نعرے کی طرف بڑھ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولز ٹرمپ کے جیتنے کے بعد عمران خان کی رہائی کے لئے دباؤ کے اشارے دے رہے ہیں تاہم ری پبلکن پارٹی کے پاکستانی نژاد رہنما ساجد تارڑ ایسے تمام مفروضوں کی نفی کر رہے ہیں یوں بھی اس وقت بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے حامی ہوں یا ترکی میں گولن کے سپورٹرز، سب کے سب ٹرمپ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔
یہ خط لکھا کیسے گیا، اس بارے امریکہ کی سیاسی اور پارلیمانی نظام کو نچلی سطح پر سمجھنے والے بتاتے ہیں کہ یہ ڈالرز اور لابنگ کے کھیل ہیں۔ آپ ایک اچھا ڈنر ارینج کیجئے اور وہاں کانگریس کے ارکان کو بلا کے جو مرضی ان کے ہاتھ میں تھما کے تصویر بنوا لیجئے، وہ مسکراتے ہوئے وصول کر لیں گے اور یہی حال لابنگ فرمز کا ہے۔ وہ ہزاروں ڈالرز لے کر ایسے کام کرواتی ہیں جو بین الاقوامی قوانین تو ایک طرف رہے خود امریکہ کی سیاسی، اخلاقی اور جمہوری پوزیشن پرسوال اٹھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر نئے لکھے ہوئے خط میں ایک اور دلچسپ پہلو پاکستان میں امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم کے کردار پر تحفظات کا اظہار ہے۔
ڈونلڈ بلُوم نے اب تک ایک ذمے دار سفارتکار کے طور پر کام کیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بطور سفیر وہ کسی بھی دوسرے آزاد اور خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ سفارت اور سیاست کے اصولوں کے ماہرین جانتے ہیں کہ جس طرح پہلے امریکہ کے کرائے پر دستیاب ساٹھ ارکان کا دبائو بے اثر گیا عین اسی طرح ان چھیالیس ارکان کے خط کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
عمران خان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے اسرائیلی اور امریکی سرپرستوں کی بجائے اپنے ملک اور لوگوں کی طرف رجوع کریں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا تواس کے لئے وہ اپنی عدالتوں پر اعتماد کریں جو انہیں مسلسل ریلیف دے رہی ہیں۔ رہ گیا امریکی دباؤ سے رہائی کا خواب تو انہیں یاد دلا دوں کہ پاکستان میں اس وقت عربیوں کا ڈرائیور حکمران نہیں، حکمران وہ محب وطن اور بہادر سیاستدان ہیں جنہوں نے کلنٹن کا دباؤ اورلالچ مسترد کرکے قوم کو ایٹمی طاقت بنا دیا تھا، سلالہ حملے کے بعد نیٹو سپلائی بند کر دی تھی۔