یقین کیجئے میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں بڑے میاں صاحب کو ایک بار قریب سے دیکھوں چاہے وہ مجھے ہمیشہ کی طرح سوال نہ کرنے دیں مگر ان کی گفتگو خوو اپنے کانوں سے سنوں تاکہ اس کا فرسٹ ہینڈ تجزیہ کر سکوں۔ انہوں نے مجھے ایک بار پھر حیران (اور پریشان) کرکے رکھ دیا ہے اور اس میں سو فیصد خامی میری اپنی ہے کیونکہ وہ ماضی میں بھی بہت کچھ ایسا کرتے رہے ہیں جیسے بارہ اکتوبر ننانوے کی رات گیارہ بجے، انہوں نے استعفیٰ دینے اور اسمبلیاں توڑنے سے انکا رکر دیا تھا اور اس سے پہلے بغیر کسی ہوم ورک کے اپنے ایک وفادار لیفٹیننٹ جنرل کو آرمی چیف لگا دیا تھا جس کے ساتھ کوئی کور کمانڈر تو کیا اس کا اپنا پی اے اور ڈرائیور تک نہیں تھے۔
میاں نواز شریف اس رات استعفیٰ دے دیتے تو عوام ایک مارشل لا سے بچ جاتے اور ان کی پوری فیملی بہت ساری مشکلات سے۔ پھر انہوں نے 2007ء کے انتخابات (جو2008ء میں ہوئے) کا بائیکاٹ کر دیا۔ میں نے اس موقعے پر جو معروضات ان کے سامنے پیش کی تھیں و ہ میں ایک سے زائد کالموں میں بتا چکا۔ سچ پوچھیے تو مجھے انہوں نے دوسری مرتبہ جلاو طنی اختیار کرکے بھی حیران کیا تھا۔ میں بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ جیل کی کچھ صعوبتیں برداشت کر جاتے تووہ پاکستان کی تاریخ بدل کر رکھ دیتے۔ حیران تو انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع کے لئے اپنی پارٹی کا ووٹ دلوا کر بھی کیا تھا اور تازہ ترین حیرانی ان کی طرف سے کچھ اہم ناموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے مطالبے پر ہے۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ سمجھتا ہوں کہ تین مرتبہ کے وزیراعظم اور وزارت عظماؤں میں سے ایک وہ ہے جسے وہ ایک مارشل لا کو شکست دے کر پہنچے تو ان سے بڑھ کے تجربہ کار اور سمجھ دار کون ہوسکتا ہے مگر انہوں نے پھر حیران کیا جب انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید، دو سابق چیف جسٹسوں ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ، جسٹس ریٹائر عظمت سعید اور اگلے چیف جسٹس مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن کو 2017 کے سازشی قرار دیتے ہوئے انجام تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ان سب شخصیات کو ملکی تباہی کا ذمے دار قرار دیا اور کہا کہ ہنستے بستے پاکستان کو ایک سازش کے تحت تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا، کھلنڈروں کے ٹولے کو ملک پر مسلط کیا گیا۔
مجھے یاد آگیا کہ سینئر صحافی حامد میر سمیت دیگر کی گواہی موجو د ہے کہ میاں نواز شریف کے حقیقی بھائی شہباز شریف کو بھی اس موقعے پر پیش کش کی گئی تھی مگر انہوں نے اسے ویٹو کر دیا تھا۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ میاں نواز شریف پاکستان کے سمجھدار ترین اور تجربہ کار ترین سیاستدان ہیں تو پھر میرا یہ سوال بجا ہے کہ کیا وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ فوج اور عدلیہ کے سربراہوں کو اس لئے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے کہ انہیں وزارت عظمیٰ سے الگ کیا گیا تھا۔
میں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جمہوری سیاسی جماعتوں کی یہی بہت بڑی کامیابی سمجھتا ہوں کہ آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے سربراہوں نے ایک پریس کانفرنس کرکے کہا تھا کہ فوج اب سیاست میں حصہ نہیں لے گی، وہ غیر جانبدار رہے گی، کیا جمہوری سیاسی جماعتوں کی یہ ایک بڑی کامیابی نہیں تھی۔ جہاں اس پریس کانفرنس کا پیپلزپارٹی کی طرف سے ویلکم کیا گیا تھا وہاں نواز لیگ اس پر حیرت انگیز طو رپر خاموش رہی تھی۔ میاں نواز شریف نے یہ بم اس وقت پھوڑا جب ان کے بھائی شہباز شریف ان کی سیاست اور اقتدار میں واپسی کے لئے راہ ہموار کر
چکے تھے۔ شہباز شریف جو لندن سے پاکستان پہنچے ہی تھے انہیں دوبارہ بھاگ کر لندن پہنچنا پڑا مگر بتایا جا رہا ہے کہ وہ بڑے بھائی کو سمجھانے میں ایک مرتبہ پھر ناکام رہے۔ شہباز شریف کی پوری کوشش تھی کہ نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بنیں مگر وہ لوگ کام دکھا گئے ہیں جو شہباز شریف سے بغض رکھتے ہیں اور اس بغض میں انہیں پروا نہیں کہ اس میں نواز شریف کی بھی ایسی تیسی ہوجائے۔
میں نے اپنے دوستوں کے تجزئیے پڑھے، انہوں نے لکھا کہ نواز شریف کی وطن واپسی انتخابی نتائج کا پانسہ پلٹ سکتی ہے اور مجھے یاد آ گیا کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے بھی میاں نواز شریف سے یہی کہا گیا تھاکہ وہ اپنے بستر مرگ پر پڑی محبوب اہلیہ کو چھوڑ کر بیٹی کا ہاتھ پکڑے پاکستان پہنچ جائیں تو شیر پر ٹھپوں والے ووٹوں سے صندوقچییوں کے تالے ٹوٹ جائیں گے۔ میاں نواز شریف نے اقتدار کے حلوے کی اس پلیٹ کو ٹانگ دے ماری ہے جو ان کے بھائی نے بڑی محنت سے پکا کے ان کے سامنے رکھی تھی۔ کچھ زمینی حقائق کا جائزہ لیجئے اور اس پھر اس سوال کا جواب دیجئے کہ کیا آپ فوج اور عدلیہ کے سابق سربراہوں کو محض اپنے مطالبے کے لئے ذریعے سزائیں دے سکتے ہیں جبکہ آپ کی اپنی کامیابی اس وقت صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت سمجھی جا رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی پارٹی نے
دعویٰ کیا ہے کہ آپ کی آمد پر دس لاکھ لوگوں کو مینار پاکستان پر جمع کرے گی مگر مجھے علم ہے کہ اس کا دس، بیس فیصد اکٹھا کرنے کے چکر میں ہی اس کے دانتوں تلے پسینہ آنے لگا ہے۔ تکلف برطرف، مجھے یقین ہے کہ آپ کو، آپ کے ساتھیوں کو ہرگز نہیں بھولا ہوگا کہ آپ نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو بھی سزا دینے کی کوشش کی تھی تو اس کا نتیجہ کیا نکلا تھا۔
سوشل میڈیا پر میاں صاحب کے فدائیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا تھا، اب اس امر کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ محنت کریں اور پھر ان کے خلاف سازش نہ ہوجائے لہٰذا ان کے نامزد کردہ ناموں کوسزائیں دینا ضروری ہے۔ مجھے اس کے جواب میں کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت اسی طرح معاشی بدحالی کا شکار ہے جس طرح آج سے دس برس پہلے تھا اور اگر آپ اس وقت وطن کے لئے قربانی دینے کی بجائے اپنی انا اور ضد کو ترجیح دیں گے تو پھر سب کچھ تباہ ہو کے رہ جائے گا۔ آپ کے سامنے دیوار ہے تو اسے ٹکر مار کے سرمت پھوڑیں، اس میں روزن ڈھونڈیں، کھڑکیاں اور دروازے بنائیں۔
میاں صاحب مجھے ایک ناگوارسی مثال دینے دیجئے کہ عمران خان بھی یہ سمجھتا تھا کہ اس کے ساتھ عوام کی ایسی بھاری اکثریت ہے کہ جب وہ گرفتار ہوگا تویہ اکثریت پورے ملک پر قبضہ کرکے اس کا ترنگا لہرا دے گی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ صبر، تحمل اور تدبر ہی جیتتے ہیں۔ عمران خان ہوں یا آپ، اپنے آپ کو اردوان مت سمجھیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدان تیزی کے ساتھ اپنی ساکھ کھوتے جا رہے ہیں۔ عوام کو مہنگائی اوربدحالی کا سامنا ہے۔ ہر وہ پاکستانی جس کے پاس کچھ ہنر ہے یا کچھ پیسہ وہ امیگریشن کے چکر میں پڑ گیا ہے۔
میرا تو خیال تھا کہ پاکستان کے ٹیک آف کے لئے سب کچھ تیار ہوگیا ہے۔ آئین اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے آرمی چیف اور چیف جسٹس کے ساتھ ایک زبردست کمبی نیشن بننے جا رہا ہے مگر پھر یہ بیان آ گیا تو میرا دل چاہا کہ پوچھوں، میاں صاحب آپ کی طبیعت ٹھیک ہے، یہ فیصلے عدالتیں، ٹریبونل اور کمیشن نہیں بلکہ تاریخ کرتی ہے۔