سنٹرل انڈیکشن پالیسی سے مراد پنجا ب کابینہ کا وہ فیصلہ ہے جس کے تحت دو برس سے ایم فل کے داخلے تک نہ کر پانے والی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پنجاب بھر کے پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے داخلے بھی خود ہی کرے گی اور میرا سوال ہے کیوں۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا ماجرا یہ ہے کہ یہ خود کو اب تک یونیورسٹی کے طور پر بھی ڈویلپ نہیں کرپائی، یہ محض ایک ایگزامینیشن باڈی ہے مگر اس کے وائس چانسلر کو شوق سوار ہوا ہے کہ وہ پنجاب بھر کے تمام میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے داخلوں کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس خواہش پر پنجاب کے نگران وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم بھی ان کے وکیل بنے ہوئے ہیں حالانکہ پامی، کے وفد سے ملاقات میں وہ اس پالیسی کو فولِش، کہہ چکے ہوئے ہیں اور انہوں نے درست کہا تھا۔ میں منسٹر سیشلائزڈ ہیلتھ پنجاب کی اس دلیل پر بعد میں بات کروں گا جو بنیادی طور پر بلیم گیم میں آتی ہے مگر پہلے اس سوال کو ڈسکس کر لیتے ہیں کہ سنٹرل انڈیکشن سے مسئلہ کیا ہے۔
یہ بات مان لینی چاہئے کہ پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز اپنی ضروریات میں سرکاری اداروں سے مختلف ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اخراجات خود پورے کرنے ہوتے ہیں جبکہ سرکاری اداروں کو ٹیکس کا پیسہ ملتا ہے اور یہیں سے بنیادی فرق بھی پیدا ہوتا ہے اور ابتدائی دلیل بھی سامنے آتی ہے کہ آپ جن اداروں کو ایک روپے کی گرانٹ نہیں دیتے تو ان کا رائیٹ آف ایڈمیشن کیسے ہائی جیک کرسکتے ہیں۔ ابھی بات میڈیکل کالجز کی ہو رہی ہے تو کیا کل پنجاب کی حکومت صوبے کے تمام دوسرے کالجوں کے داخلے بھی خود سنبھال لے گی۔ اگر کسی کو یہ شوق ہے تو وہ نیشنلائزیشن کرکے دیکھ لے، اسے لگ پتا جائے گا۔
معاملہ یوں ہے کہ پنجاب کابینہ نے ستمبر کے آخر میں ہونے والے اجلاس میں صوبے بھر کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے بارے میں پی ٹی آئی دور کی، نوشیروان برکی کی دی ہوئی، سنٹرل انڈیکشن پالیسی کو دوبارہ بغیر مشاورت تھوپ دیا ہے حالانکہ نگران حکومت کا کام انتخابات تک روزمرہ کے معاملات کو نمٹانا ہے، وہ کسی بھی شعبے میں بنیادی طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا مینڈیٹ ہی نہیں رکھتی اور مجھے یقین ہے کہ جب یہ معاملہ عدالت میں جائے گا تونگران حکومت کا یہ فیصلہ ختم ہوجائے گا۔
میڈیکل کالجوں کو پاکستان بھر میں ریگولیٹ کرنے والا ایک ہی ادارہ پی ایم ڈی سی ہے اور کسی صوبے کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی اور باڈی موجود نہیں ہے جو میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کو چلا سکے مگر پنجاب کابینہ نے وفاق اور دوسرے صوبوں کے برعکس صوبے کی نکمی ترین یونیورسٹی کو اس میں داخل کر دیا ہے۔ اس سے کئی طرح کے آئینی اور قانونی سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ کیا کوئی صوبہ، وفاق کے کسی بھی قانون اور اختیار کے اوپر اپنی قانون سازی کر سکتاہے تو ماہرین کے مطابق اس کا جواب نفی میں ہے۔
منسٹر سپیشلائزڈ ہیلتھ اس امرکی آن دی ریکارڈ تصدیق کر رہے ہیں کہ انہوں نے یہ فیصلہ کرتے یا کرواتے ہوئے نہ پی ایم ڈی سی کو اعتماد میں لیا ہے اور نہ ہی پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن یعنی پامی کو، بلکہ سچ پوچھا جائے تو پامی کو دھوکا دیا گیا ہے۔ میڈیکل کالجوں کے داخلے پی ایم ڈی سی کی ریگولیشن کے سیکشن تھری کے تحت ہوتے ہیں جس میں آن لائن پورٹل کے ذریعے شفافیت برقرار رکھی جاتی ہے اورمیرٹ کو فالو کیا جاتا ہے۔ سیکرٹری پامی آفتاب محمود بتا رہے تھے کہ وہ وفاق اور باقی تینوں صوبوں کے ساتھ داخلے شروع کر چکے، حتمی میرٹ اور ایڈمیشن لسٹیں ملک بھر سے کونسل کو فراہم کر دی جائیں گی، اس میں پنجاب پورے ملک سے الگ کیسے چل سکتا ہے؟
معاملہ آئین اور قانون کے ساتھ ساتھ طلبا و طالبات کا بھی ہے کہ جب انہوں نے ایم بی بی ایس کے لئے فیس ادا کرنی ہے تو پھریہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے کالج کا چناؤ کریں او ر خاص طور پر لڑکیاں، جو چاہتی ہیں کہ اپنے گھروں کے پاس یا اپنے شہروں میں موجود میڈیکل کالجوں کو ترجیح دیں۔ طلباو طالبات کا مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ نوشیرواں برکی کے دئیے ہوئے اس ناکام نظام میں جب کسی سٹوڈنٹ کا داخلہ سنٹرل انڈیکشن پالیسی کے تحت ہوجاتا ہے تو وہ استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے خود فیس جمع نہیں کرواتا اور دوسرے کی سیٹ بھی روک لیتا ہے۔
پریشانی اس سے بھی آگے یہ ہے کہ سٹوڈنٹس اپ گریڈیشن اور فیس ٹرانسفر کے چکر میں پھنس جاتے ہیں اور جو داخلے جنوری میں ہوجانے چاہئیں وہ ستمبر اکتوبر تک چلتے رہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کابینہ کے اس فیصلے کے نتیجے سٹوڈنٹس کو اپنے ملکی کالجوں کی بجائے سنٹرل ایشیا اور چین کے کالجوں کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اگلا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاملات عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور پڑھائی کا پہلا سال اسی طرح ضائع ہوجاتا ہے۔ پامی کے دئیے ہوئے اعداد وشمار کے مطابق جب یہ پالیسی پہلے نافذ کی گئی تھی تو دو برس کے دوران اسی گھن چکر میں ساڑھے تین سو کے قریب سیٹیں خالی رہ گئی تھیں اور میڈیکل کالجوں کو بڑا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔
بات پھر وہی ہے کہ آپ اچھے خاصے چلتے چلاتے سسٹم کو کیوں روکنا او ر مشکل بنانا چاہتے ہیں تواس کا نگران وزیر صحت نے مجھے جواب دیا کہ پرائیویٹ کالجوں والے بڑی بڑی فیسیں ہی نہیں ڈونیشن بھی لیتے ہیں۔ اب دلچسپ امر یہ ہے کہ سنٹرل انڈیکشن پالیسی کا فیس اور ڈونیشن سے تعلق ہی نہیں ہے بلکہ اس پر پامی پنجاب چیپٹر کے صدر میاں عبدالرشید کے مطابق پی ایم ڈی سی کا قانون واضح ہے اگر ایک بھی داخلہ قواعد و ضوابط کے منافی ہوتا ہے تو اس پر متعلقہ کالج کو پندرہ لاکھ روپے تک فی داخلہ جرمانہ ہوسکتا ہے۔
میں نے وزیر صاحب سے پوچھا، آپ بتا سکتے ہیں کہ کتنے کالجوں کو جرمانے ہوئے تو ان کا جواب تھا کہ کون سا کوئی بتا کے ڈونیشن لیتا ہے۔ میاں عبدالرشید نے بجا طور پر اسے بلیم گیم قرار دیا ہے اور وہ مصر ہیں کہ نگران وزیر صحت نے ان کے سامنے اس پالیسی کی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ اس سلسلے میں پی ایم ڈی سی کے سربراہ کو فون بھی کیا تھا۔
سچ پوچھئے تومیڈیکل کالجوں اور خاص طورپر پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلوں پر بااثر لوگوں کی نظریں ہوتی ہیں۔ انہوں نے ان کالجوں میں اپنے سفارشیوں کو داخل کروانا ہوتا ہے سو وہ چاہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی نہ کوئی ایسا اختیار آجائے کہ وہ ان کی گردن مروڑ سکیں، ان سے اپنی بات منوا سکیں۔ معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی جو میڈیکل پروفیشن کی بہتری کو اپنی پہلی ترجیح بنائے ہوئے ہیں انہیں کسی نے میڈیکل ایجوکیشن کے حوالے سے غلط بریف کر دیا ہے اور ایک خواہ مخواہ کا محاذ کھول دیا گیا ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے، پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز ملک و قوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ ایک کاروبار بھی ہیں اور کوئی جان بوجھ کے ایسے کاروبار کو تباہ کرنا چاہتا ہے جس میں اربوں بلکہ کھربوں روپوں کی سرمایہ کاری ہے۔ اس شرپسند کو تلاش کرنا اور اس قرارواقعی سزا دینا ضروری ہے کیونکہ پامی نے بدترین خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے اس برس اپنے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے نہ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جو تباہ کن ہوگا۔