پنجاب اسمبلی کے نئے ایوان کی تکمیل پر جو بات شروع ہوئی تھی وہ ایک کالم میں مکمل نہیں ہوسکی۔ یہ ایوان چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کی پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ میں چوہدری پرویز الٰہی کو جب بطور سپیکر دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ وہ بھرپور کارکردگی اور خدمت کے باوجود ایک مرتبہ پھر پنجاب کے وزیراعلیٰ کیوں نہیں ہیں تاہم تاریخ اور سیاست کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے جانتا ہوں کہ میاں نوازشریف نے بھی پہلے غلام حیدر وائیں اوراس کے بعد شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنا دیا مگر چوہدری پرویز الٰہی کو نہیں، اسی طرح جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنی تھیں تو انہوں نے پہلے سیاسی لین دین کی مجبوریوں میں میاں منظور وٹو اور اس کے بعد سردارعارف نکئی کو وزیراعلیٰ قبول کر لیا تھا، سردار عارف نکئی ایک سال سے کچھ زیادہ دنوں تک پنجا ب کے وزیراعلیٰ رہے تھے۔ سردار عارف نکئی کی بطور وزیراعلیٰ اہلیت صرف یہ تھی کہ وہ نااہل تھے اور وفاق میں بیٹھا کامیاب سیاستدان کبھی پنجاب میں ایسا وزیراعلیٰ نہیں چاہتا جو اس کی قیادت کو چیلنج کر سکے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے بھی طویل عرصہ سندھ میں قائم علی شاہ کو اسی لئے وزیراعلیٰ رکھا تاکہ حقیقی حکمران خاندان کے لئے کوئی مسئلہ نہ بنے، یوں یہاں نااہلی ہی اصل اہلیت قرار پاتی ہے۔ یہ خطرہ رہا ہے کہ یہاں اگر ایک ایسا وزیراعلیٰ آجائے جو کارکردگی میں وزیراعظم کو پیچھے چھوڑ دے تو پھر وہ وزیراعظم بن جاتا ہے سو جہاں تک ممکن ہو یہ رسک پہلے بھی نہیں لیا جاتاتھا، یہ رسک اب بھی نہیں لیا گیا۔
میں نے پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما سے اس بارے پوچھا تو اسے بھی علم نہیں تھا کہ عثمان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ کیوں ہیں، بس یہ عمران خان کی مرضی ہے، کے سوا کوئی جواب نہیں ملتا۔ ہم پنجاب میں ناقص حکمرانی پر ہی تنقید کررہے تھے کہ ایوان وزیراعلیٰ میں اے سی، ڈی سی جیسے عہدوں کے لئے بولیاں لگنے اور کروڑوں روپے رشوت لینے کاالزام سامنے آگیا ہے۔ میں برملا کہہ سکتا ہوں کہ چوہدری پرویز الٰہی ایک رجے ہوئے آدمی ہیں، اگر وہ وزیراعلیٰ ہوتے تو ایسی حرکتوں بارے سوچا بھی نہ جا سکتا۔ پی ٹی آئی اگر میرٹ پر نوجوان قیادت ہی لانا چاہتی تو اس کے پاس راجا یاسر سرفراز ہمایوں سمیت کئی اچھے نام تھے مگر مسئلہ وہی ہے کہ حسب روایت اہل بندہ درکار ہی نہیں۔ حکومتی حلقوں سے ڈسکشن میں ایک دلیل یہ بھی آئی کہ چوہدری پرویز الہٰی اتحادی ہیں، پی ٹی آئی کاحصہ نہیں تو جواب تھا کہ جب ایک اتحادی کم سیٹوں کے ساتھ سپیکر بنایا جا سکتا ہے تو وزیراعلیٰ کیوں نہیں۔ کئی ماہ سے پیپلزپارٹی، نواز لیگ کو راہ دکھا رہی ہے کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ دے کرپنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم کر دے۔ نواز لیگ کے متحرک رہنما رانا محمد ارشد نے مجھ سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ عثمان بزدار کوہٹانے کی کسی موو کی حمایت نہ کرنا میاں نواز شریف کی ہدایت ہے یعنی یہاں نواز شریف اور عمران خان اکٹھے ہیں کہ پنجاب اس دور میں کیسے چلنا چاہئیے۔ یہ واضح ہے کہ وہ نواز لیگ جو اپنی حکومت میں چوہدری پرویز الٰہی کو بطور وزیراعلیٰ راستہ نہیں دے سکی تو اب کیسے دے سکتی ہے۔ عثمان بزدار، نواز لیگ کے لئے عمران خان کا ایک تحفہ ہیں، ہاں، یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود پرویز مشرف کے دور میں اگر کسی گھرانے نے شریف فیملی کو ریلیف دلوایا تو وہ چوہدری برادران ہی تھے۔ حمزہ شہباز، شریف فیملی کی جلاوطنی کے دوران پاکستان میں اکیلے تھے جو کاروبار اور اثاثوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے اور یہ بات بہت سارے لوگ جانتے ہیں کہ کئی موقعوں پر حمزہ کی خاموشی سے مدد کی گئی۔
میں کالم کے پہلے حصے میں ایک پارلیمانی مدت میں بے مثال کارکردگی پر چوہدری پرویز الٰہی کے منصوبے تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا۔ میں سمجھتا ہوں کہ گذشتہ دور میں پنجاب اسمبلی اور منسٹرز بلاک ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وزیر آباد کا انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، لاہور کے جنرل ہسپتال کا توسیعی منصوبہ، میوہسپتال کا نیا ٹاور وغیرہ بھی نہیں روکے جانے چاہئیں تھے۔ یہ بات درست ہے کہ شہباز شریف کے کام کرنے کا اپنا انداز تھا اور چوہدری پرویز الٰہی کے کام کرنے کا اپنا۔ شہباز شریف نے لاہور میں مسلم ٹاون کا اوور ہیڈ برج منصوبہ سو دنوں میں مکمل کر دیا تھا جبکہ چوہدری پرویز الٰہی کے کاموں میں جلدی نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ گجرات سے منڈی بہاوالدین جانے والی سڑک کی تعمیر و توسیع کا آغاز ان کی حکومت قائم ہونے پر ہوا تھا اور جب وہ دوبارہ الیکشن کی طرف جا رہے تھے تو میں بطور رپورٹر ان کے ساتھ اس کی افتتاحی تقریب میں گیا تھا مگر اس وقت بھی کام مکمل نہیں ہوا تھا مگر یہ ضرور ہے کہ چودھری پرویز الہٰی کے منصوبوں میں گہرائی تھی جیسے پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کی ترویج، جیسے قرآن محل، ڈبل ون ڈبل ٹو، جیسے وارڈن سسٹم۔ اس وقت بھی جب پی ٹی آئی حکومت کے نااہل وزیروں کی وجہ سے تعلیم سمیت جس شعبے میں بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو چوہدری پرویز الٰہی حکومت اور متاثرین کے درمیان ایک پل کے طورپر سامنے آتے ہیں جیسے پیف کے ایشو پر انہوں نے اپنی سطح پر کردارادا کرنے کی کوشش کی، فوری طور پر وہ مسئلہ حل نہ کرواسکے مگر ان کے مصالحانہ کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ گراس روٹ لیول سے سیاست کرتے ہوئے آئے ہیں، انہوں نے اداروں کی ورکنگ اور مسائل کو قریب سے دیکھا ہے لہٰذا وہ بہت سارے دوسروں کے مقابلے میں حکومتی اور انتظامی مسائل کے قابل عمل حل جانتے ہیں۔ یہی بات ان کا ساتھ نبھانے والے راجہ محمد بشارت کے حوالے سے کہی جا سکتی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر راجہ بشارت نہ ہوتے تو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی اپنے ہاتھوں سے لگائی ہوئی گرہیں حکومتی دانتوں سے بھی کھولنی مشکل ہوجاتیں۔
ایک صحافی کا فرض ہے کہ وہ حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ تاریخ کا قرض بھی چکاتا جائے، اپنی گواہی ریکارڈ کرواتا جائے، ہاں، مجھے ایک کمی ضرور محسوس ہوتی ہے کہ جب پنجاب کی بات ہوتی ہے تو چوہدری برادران کی آواز میں بھی دوسروں، کی طرح وہ دم نہیں ہوتا، وہ گرج نہیں ہوتی جو پنجاب کے ایک جٹ بیٹے کا طرہ امتیاز ہونی چاہئے۔ پنجاب نے ہمیشہ بڑے بھائی کا کردارادا کیا ہے مگر جواب میں ہمیشہ گالی کھائی ہے۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جو اپنے بچوں کو اپنی زبان پنجابی نہیں پڑھنے دیتا۔ یہ واحد صوبہ ہے جسے کاٹنے کی باتیں کی جاتی ہیں حالانکہ یہ اس سے پاکستان کے نام پر اپنا وجود کٹوا چکا، اپنے بدن پر چھری چلوا چکا۔ یہاں جاگ پنجابی جاگ، کے نعرے کو الزام اور گالی سمجھا جاتا ہے، نجانے کیوں یہ چاہا جاتا ہے کہ پنجابی ہمیشہ سوتا رہے، کبھی نہ جاگے۔ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے پنجاب کا مقدمہ لڑ سکتے ہیں اورانہیں ضرور لڑنا چاہئے کہ جس دھرتی ماں کے بیٹے ہی اس کے محافظ اور پاسبان نہ ہوں، وہ کیسے خوش رہ سکتی ہے، کیسے آباد رہ سکتی ہے، رہ گئی چوہدری شجاعت حسین کی بات، اللہ تعالیٰ انہیں صحت دیں، وہ سیاسی اختلافات سے بالاترحقیقت میں رکھ رکھاو، معاملہ فہمی، تعلق داری اور تدبر کی اعلیٰ مثال ہیں۔