Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Chaudhary Parvez Elahi Ko Mubarakbaad

Chaudhary Parvez Elahi Ko Mubarakbaad

پنجاب اسمبلی کی نئی، شاندار اور پرشکوہ عمارت کی تکمیل پر چوہدری پرویز الٰہی کو مبارکباد بنتی ہے اور میں اس دلیل سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا کہ یہ وسائل کا ضیاع ہے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے مجھے کہنے دیجئے کہ انگریز ی استعمارکے بعد کسی کو اگر پنجاب میں ریاستی عمارتوں کی صوبے کی ضرورت اوروقارکے مطابق تعمیر کا خیال آیا تو چودھری پرویز الٰہی کوہی آیا۔ میں پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کا دو مرتبہ سیکرٹری اور دو مرتبہ ہی صدر منتخب ہو چکا ہوں سو جمہوری ایوانوں کی اہمیت سے پوری طرح واقف ہوں۔ مشرف دور میں صوبائی اسمبلی کے ارکان میں ایک تہائی اضافے کے بعد پرانا ایوان ناکافی ہوچکا تھا اور اس کا لفٹ، فرنیچر اور ساونڈ سسٹم سمیت پورا تاریخی انفراسٹرکچر پرانا، بوسیدہ اور آوٹ ڈیٹڈ۔ اس کی وزیٹرز گیلری کو بھی جگہ کی کمی کی وجہ سے ایوان کا حصہ بنا دیا گیا تھا اور وہاں لے دے کہ ایک پریس گیلری ہی بچی تھی۔ سو یہ وقت کی ضرورت تھی، تاخیر نے تعمیراتی خرچ میں اضافہ کیا سویہ تاخیر قطعی طور پر مناسب نہیں تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ہی کلب روڈ پر نیا ایوان وزیراعلیٰ تعمیر ہوا، نوے شاہراہ قائداعظم کی بیسمنٹ میں خوبصورت کشادہ ہال تعمیر کیا گیا، سیکرٹریٹ کے ساتھ منسٹرز بلاک بنا اور پنجاب اسمبلی کے اس نئے ایوان کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ نوے شاہراہ قائداعظم کا یہ ہال اب بہت ساری تقریبات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ عمارتیں ریاست، حکومت اور عوام کی نمائندگی کرتی ہیں کہ ہمارے پاس ابھی تک انگریز دور کا ہی سیکرٹریٹ موجود ہے اور اسی دور کا گورنر ہاوس۔ یوں آج کے بعد جو بھی جمہوری نمائندہ منتخب ہو کر اس ایوان میں پہنچے گا اس کا اخلاقی فرض ہو گا کہ وہ اس خوبصورت ہال کے تحفے پر چوہدری پرویز الٰہی کا شکریہ ادا کرے۔

میں چوہدری صاحب کو عشروں سے جانتا ہوں، جیسا کہ میں نے کہا میں پریس گیلری کا صد ررہ چکا جب وہ اس سے پہلے بھی سپیکر تھے۔ یہ چوہدری پرویز الٰہی ہی تھے جنہوں نے پریس گیلری کوعزت اور مقام دیا۔ میں نے پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے اس پہلے سٹڈی ٹور کی بطور صدر قیادت کی تھی جس نے بلوچستان کا دورہ کیا تھا اوراس کے اہتمام اور اخراجات دونوں چوہدری صاحب کی مہربانی تھے۔ بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب نے شہباز شریف کے دور میں ترقی کی مگر مجھے یہ اضافہ کرنا ہے کہ اس ترقی کا اہم ترین باب پرویز الٰہی کا بطور وزیراعلیٰ دور بھی ہے۔ مجھے بطور صحافی یہاں کچھ تاریخ کے قرض بھی اتارنے ہیں۔ نواز لیگ کے بہت سارے دوست چوہدری برادران پر نواز شریف سے غداری کا الزام لگاتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں کہ چوہدری، مشرف کے مارشل لا میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ میں نے یہ سوال بہت ساروں سے بہت مرتبہ پوچھا اور رائے یہ بنی کہ چودھری برادران کا ایک سیاسی نظریہ ہے اور اسی نظرئیے نے انہیں نواز شریف کے ساتھ کھڑا کیا، وہ نظریہ مزاحمت کا نہیں مفاہمت کا ہے مگر مشرف کے مارشل لا میں نواز شریف بوجوہ مفاہمت سے مزاحمت کی طرف چلے گئے اور یوں دلیل یہ ہے کہ بدلے نواز شریف تھے، چوہدری برادران اپنے مقام پر کھڑے تھے۔ کہتے ہیں کہ مقتدر حلقوں کا ساتھی ہونا جمہوری جرم ہے مگر مان لیجئے کہ یہ اسی وقت تک ہے جب تک آپ کے سیاسی مخالف اس پوزیشن کو انجوائے کر رہے ہوں ورنہ یہاں ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف تک کی مقبول قیادت اسی راستے سے آئی ہے اور جناب عمران خان کو بھی اقتدار اسی کے نتیجے میں ملا ہے ورنہ ان کی بائیس میں سے اٹھارہ برس کی جدوجہد کا نتیجہ ایک تانگہ پارٹی ہی تھی۔ اب بھی کچھ عرصہ پہلے شور مچا کہ جناب بلاول بھٹو زرداری کے معاملات طے پا گئے ہیں اوراس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی موت بھی واقع ہو گئی توذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادتوں پر جمہوری پھریرے لہرانے والے اس سیٹنگ کے فضائل بیان کر رہے تھے، سو اگر آپ کی سیٹنگ ہوجائے تو یہ ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی دوسرا کر گزرے تو غلط ہے، حرام ہے۔

چوہدری برادران اسی او رنوے کی دہائی سے ہی پنجاب پر اپنا حق سمجھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ بہتر طور پر ڈیلیور کر سکتے ہیں مگر انیس سو ستانوے کے انتخابات کے نتیجے میں ملنے والی اکثریت نے میاں نواز شریف کو اقتدار اپنے گھر میں رکھنے کی راہ دکھائی۔ وہ خود وزیراعظم بنے اور اپنے چھوٹے بھائی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ چوہدری برادران غصے میں آئے اور یہ غصہ بجا بھی تھا، بہرحال، نواز شریف کا ساتھ چھوڑنا ان کے لئے سیاسی طور پر گھاٹے کا سودا نہ رہا کیونکہ نواز شریف نے انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ یا وزارت عظمیٰ کبھی نہیں دینی تھی۔ چوہدری شجاعت حسین، چاہے مختصر ترین عرصے کے لئے ہی سہی، وزیراعظم بنے اور چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے رحیم یار خان سے جیتی ہوئی سیٹ رکھی اور جنوبی پنجاب کو اس کے حصے سے زیادہ فندز دئیے اور یہ سلسلہ اگلے دور میں بھی جاری رہا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے ہی ٹریفک پولیس کے پرانے نظام کو ختم کر کے وارڈن سسٹم دیا، انہوں نے ہی ایمرجنسی ریسکیو سروس ڈبل ون ڈبل ٹو دی، انہوں نے دیہات کی ترقی کو اہمیت دی اور چھوٹے شہروں کو ملا نے والی سڑکوں کے لئے خصوصی فورس تشکیل دی۔ میں پہلے بھی بارہا ذکر کر چکا کہ صحافی چوہدری پرویز الٰہی کے مشکور ہیں کہ چوہدری صاحب نے بلاامتیاز پریس کلب کے تمام ارکان کو دس، د س مرلے کے پلاٹوں کا مالک بنا دیا ورنہ بصورت دیگر حالات یہ ہیں کہ نوے فیصد سے زیادہ صحافی قلم اور جوتے گھساتے مر جاتے ہیں لیکن وہ چاپلوسی اور کرپشن میں ماہر نہ ہونے کی وجہ سے زندگی بھر کی محنت کے بعد اپنا تین مرلے کا گھر بھی نہیں بنا سکتے۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف ایک نظریہ بن چکے مگر دلچسپ یہ ہے کہ اس نظرئیے میں شہباز شریف، خواجہ آصف، احسن اقبال فٹ ہوجاتے ہیں مگر چودھری برادران نہیں، ویسے میرا نہیں خیال ہے کہ چودھری برادران نے کبھی واپسی کا سوچا ہو گا۔

چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ہونے والی ترقی کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ ٹھوس بھی تھی اورمتاثر کن بھی، وہ واقعی پنجاب کے بجٹ کو سرپلس چھوڑ کر گئے تھے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمیں ان کے دور کے حوالے سے ایک ہی بات یاد کروائی جاتی ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف کو وردی میں دس بار منتخب کرنے کا اعلا ن کیا تھا حالانکہ اس دور میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ چوہدری برادران پر ایک اور دلچسپ اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے نظریاتی قلابازی لگاتے ہوئے پیپلزپارٹی کی حکومت میں ڈپٹی پرائم منسٹر ہونا قبول کر لیا مگر اس کی ایک دوسری تشریح بھی ہے جس کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کی یہ سیاسی حکمت عملی کمال تھی جس نے اس خط کا اثر تک زائل کر دیا جو بے نظیر بھٹو نے اپنی شہادت سے پہلے لکھا تھا، یوں اگر یہ کوئی سرنڈر تھا تو پیپلزپارٹی کا تھا جو اپنا اقتدار اپنے بدترین مخالف سمجھے جانے والے سیاستدانوں کے ساتھ شئیر کرنے پر مجبور ہوئی جیسے مشرف سے کالی پٹیاں باندھ کے نواز لیگیوں کا حلف لینا، نواز لیگ کی نہیں پرویز مشرف کی مجبوری اور ناکامی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ سب کو دستیاب وزیراعلیٰ تھے۔ کوئی ان سے نظرانداز ہونے یا لفٹ نہ کروانے کا گلہ نہیں کر سکتا تھا۔ ایک عام ساصحافی ہوتے ہوئے بھی چوہدری صاحب سے ملاقات اتنی آسان تھی جیسے ایک فون کال اور جوا ب میں آپ کبھی چوبیس گھنٹے بھی انتظار نہیں کرتے تھے، گھر یا دفتر، کہیں نہ کہیں ملاقات ہوجاتی تھی۔ (جاری)