Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Chitrol Ki Agli Tareekh

Chitrol Ki Agli Tareekh

خان صاحب نے اپنے کارکنوں کی چھترول کی اگلی تاریخ چوبیس نومبر دی ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی اپنے کارکنوں کو اسی مہینے میں خواہ مخواہ سینکوا چکے ہیں۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ وہ کارکنوں کو مار پڑوانے کے لئے ہرگز کسی ایک مہینے کا انتظار نہیں کرتے۔ دو تین برس میں دی گئی کالز کا جائزہ لیجئے، وہ مئی کی گرمی میں بھی انہیں مار کھانے کے لئے بھیج دیتے ہیں اور اکتوبر کے معتدل موسم میں بھی۔ اس کال کو ایک مرتبہ پھر فائنل کال کہا جا رہا ہے، لانگ مارچ کا نام دیا جارہا ہے تو مجھے دو برس پہلے والا وہ لانگ مارچ یاد آ گیا جو انہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقرری کے موقعے پر کیا تھا۔

لاہور کے لبرٹی چوک سے شروع ہونے والے مارچ کی منزل راولپنڈی قرار دی گئی تھی مگر یہ روات تک پہنچ کر ہی ختم ہوگیا تھا یعنی پنڈی کی باقاعدہ حدود میں بھی داخل نہیں ہوسکا تھا۔ یہ اس وقت بھی اتنے ہی خوش گمان اور خوش فہم ہو کر سمجھ رہے تھے کہ ان کے ساتھ لاکھوں لوگ نکلیں گے اور وہ راولپنڈی کی اہم ترین عمارت پر جا کے قبضہ کر لیں گے اوراس کے بعد اقتدار پر۔ جب وہ لاہور سے روانہ ہوئے تھے تو ان کے ساتھ پانچ ہزار کے لگ بھگ کارکن تھے۔ جب وہ گوجر انوالہ پہنچے تھے تو تعداد تین ہزارتک ہی رہ گئی ہے، اس کے بعد وزیرآباد والا ڈرامہ ہوگیا تھا۔ وہ، جذباتیت کے بھرپور استعمال کے باوجود، روات پہنچنے تک کسی ایک بھی جگہ اپنے مارچ کی شرکا کی تعداد دس ہزار سے نہیں بڑھا سکے تھے۔

پی ٹی آئی کا سب سے بڑااحتجاج نو مئی گذشتہ برس نو مئی والا تھا۔ خان صاحب کو علم تھا کہ وہ گرفتار ہونے جا رہے ہیں اوراس سے پہلے وہ اپنے اجلاسوں میں باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اور ڈیوٹیاں لگا کر گئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے ہزاروں (بلکہ ان کے خیال میں لاکھوں) کارکن باہر نکلیں گے اور وہ جی ایچ کیو سمیت تمام فوجی تنصیبات پر قبضہ کر لیں گے۔ وہ اس وقت تک ترکی کے ماڈل کو ذہن میں بسائے ہوئے تھے مگر بھول گئے تھے کہ ترکی کے حکمرانوں کی پرفارمنس کیا تھی جبکہ انہوں نے اور ان کے مسلط کئے بزداروں نے عوام کا کیا حال کیا تھا۔ اس احتجاج میں مختلف مقامات پر تین سو سے تین ہزار تک کارکن نکلے تھے اور ان میں سے بہت سارے آج تک اپنی تشریفیں سہلا رہے ہیں۔

خان صاحب کا خیال ہے کہ وہ ایسے احتجاجوں کے ذریعے حکمرانوں سے کوئی انتقام وغیرہ لیتے ہیں مگر عملی صورتحال یہ ہے وہ اپنے کارکنوں سے انتقام لے رہے ہیں جنہیں وہ بار بار احتجاجی سیاست میں دھکیل دیتے ہیں۔ رواں برس میں ہی آجائیں، پی ٹی آئی نے سوچا ترکی والا چورن تو نہیں بکا تو ہم بنگلہ دیش والا چورن ہی بیچ لیتے ہیں۔ اکتیس اگست کو سٹوڈنٹس کے مارچ کی کال دی گئی مگر عملی طور پر یہ ہوا کہ چڑیا کا ایک بچہ بھی باہر نہ نکلا۔ پی ٹی آئی نے آٹھ ستمبر کو سنگ جانی اسلام آباد اور اکیس ستمبر کو کاہنہ لاہور کے جلسوں کو بھی فائنل کال قرار دیا تھا اور اس کے بعد نو نومبر کے اپنے ہی صوبے میں اس جلسے کو بھی جس میں سرکاری ملازمین کی بھرپور حاضری کے باوجود شرکا کی تعداد پانچ، سات ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔

پی ٹی آئی کی یہ کال بتاتی ہے کہ انہوں نے سیاست اور مذاکرات کے ذریعے کامیابی میں ناکامی تسلیم کر لی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے باوجود، جس کو اس وقت کے چیف جسٹس نے آئین ری رائیٹ کرنے کے مترادف قرار دیا تھا، پی ٹی آئی حکومت آئینی ترامیم، اہم قوانین میں تبدیلیوں سے لے کر اعلیٰ ترین عدالتی ایوانوں میں ہونے والے فیصلوں میں شکست کھا چکی ہے۔ آئینی، سیاسی، پارلیمانی میدانوں میں ناکام ہونے کے بعد اب ان کی تمام تر امیدیں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے جڑی ہوئی ہیں جس کے امکانات بھی دن بدن معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں سو بانی پی ٹی آئی کی یہ تازہ ترین کال فرسٹریشن کی انتہا بھی ہے اور سازش کی بھی، کیسے، یہ ہم آپ کو ابھی بتاتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کی آخری چھترول اکتوبر میں کروائی تھی جب انہوں نے ایس سی او کانفرنس سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی۔

اس عالمی کانفرنس کے خلاف اسلام آباد پر حملہ دو قسطوں میں کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جس میں پہلی کال تین اور دوسری پندرہ اکتوبر کی دی گئی تھی۔ اس احتجاج میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے سرکاری ملازمین اور مشینری کا بھرپور استعمال کیا تھا مگراس کے باوجود وہ ڈی چوک تک پہنچنے اور کسی سیاسی مقصد کے حصول میں ناکام رہے تھے۔ اس موقعے پر وہ منظر سے بھی غائب ہو گئے تھے اور بعدا زاں خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں نمودار ہوئے تھے اور ایک مضحکہ خیز بیان دیا تھا کہ وہ بارہ ضلعے کراس کرکے پشاور پہنچے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکن عمومی طور پراپنی قیادت کے گناہوں، جرائم اور حماقتوں کو نہ صرف نظرانداز کرتے ہیں بلکہ ان کا دفاع بھی کرتے ہیں مگر اس سیاسی ڈرامے پر سخت تنقید ہوئی تھی۔

اب سوال کیا جا رہا ہے کہ احتجاج پی ٹی آئی کا آئینی، سیاسی اور جمہوری حق ہے۔ وہ اپنے بانی کی رہائی اور چھبیسویں آئینی ترمیم کا خاتمہ چاہتی ہے تو میں ایک تجزیہ نگار کے طور پر اس سیاسی حق کو کارکنوں کی چھترول کے ساتھ کیوں جوڑ رہا ہوں تواس کا سیدھا سادا جواب ہے کہ عمران خان کی رہائی کا راستہ سیاست اورعدالت سے نکلے گا اور چھبیسویں ترمیم کے خاتمے کا راستہ پارلیمنٹ سے، احتجاج اس میں کہیں بھی کوئی کردارادا نہیں کر سکتا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ سیاسی قوتوں نے ماضی سے سبق سیکھا ہے۔ وہ اس سے پہلے آئینی اور جمہوری حقوق کے نام پر اسلام آباد میں تماشا لگانے کی اجازت دے چکی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوگیا تھا اور سی پیک کا افتتاح بھی۔ وہ پاکستان جو تیزی کے ساتھ ایشئن ٹائیگر بننے جا رہا تھا اسے عمرانی سازش کے ذریعے ڈیفالٹ کنارے پر پہنچا دیا تھا۔ پاکستان اس وقت تیزی کے ساتھ اکنامیکل ٹیک آف، کر رہا تھا۔ اس کی سٹاک ایکسچینج نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ اس کا مالیاتی خسارہ ختم ہو چکا ہے۔ شرح سود مسلسل کم ہو رہی ہے۔ جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دنیا بھر کی ریاستیں اور عالمی مالیاتی ادارے پاکستان پر اعتمادبحال کر رہے ہیں تو ایسے میں ایک مرتبہ پھر ماضی کی سازش اور سازشیوں کو راستہ دینا ہرگز دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود اقتدار میں ہوں تو دوست ممالک کو ناراض کرتے اورآئی ایم ایف جیسے اداروں سے معاہدے توڑتے ہیں لہٰذا عوام کے بہترین مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اس سازش کا ریاستی طاقت سے راستہ روکا جاتا ہے تو وہ ہرگز بلاجواز نہیں ہے۔