Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Dhandli, Akhir Masla Kahan Hai?

Dhandli, Akhir Masla Kahan Hai?

میں نے کہا، انتخابات بائیو میٹرک کے ذریعے کسی کمپیوٹر پرسافٹ وئیر کے ذریعے ہوں یا پیپر بیلٹ پر مہریں لگ رہی ہوں، دونوں کی ساکھ اسی صورت میں ہے اگر ہارنے والا اپنی شکست کو تسلیم کر لے۔ خواجہ سعد رفیق اور شاہنواز رانجھا کی طرح اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کرے اور جیتنے والے کو مبارکباد دے دے مگر بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی اور ضروری ہوجاتا ہے کہ جیتنے والا بھی دل اور بازو کھولے اور ہارنے والے کو جپھی ڈالے۔ اس کے ووٹوں کو بھی تسلیم کرے۔ لیکن اگر شاہنواز رانجھا کی مبارکباد کے بعد گھر کے باہرفائرنگ کر دی جائے اور سعد رفیق کی مبارکباد کے بعد گلستان کالونی میں لیگی عہدیدار کے گھر اور دفتر پر جتھہ حملہ کر دے تو بھاڑ میں گئی ایسی اعلیٰ ظرفی۔

میں لاہور ہائی کورٹ بار کے الیکشن بورڈ کے چیئرمین میاں عرفان اکرم، ڈپٹی چیئرمین حسیب اللہ خان اور دیگر کا شکریہ ادا کر رہا تھا جنہوں نے وکلاء انتخابات کے موقعے پر مجھے بطور مبصر وہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ میں نے کبھی اتنے وکیل ایک ساتھ ایک جگہ پر نہیں دیکھے۔ کھوے سے کھوا چل رہا تھا۔ میری رہنمائی ہمارے سینئر رپورٹر عمر حیات کر رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ الیکشن ختم ہوتے ہی بس ایک پاس ورڈ کی انٹری ہوگی اور رزلٹ سامنے آ جائے گا۔

وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے قومی انتخابات بھی اسی طرح الیکٹرانک یا کمپیوٹرائزڈ طریقے سے ہونے چاہئیں۔ میں ان کی بات سے اتفاق بھی کر رہا تھا ا ور عدم اتفاق بھی۔ میرا اتفاق اس حوالے سے تھا کہ ٹیکنالوجی میں جدت آتی چلی جا رہی ہے اور ہمیں اپنے روزمرہ کے امور میں بھی اس جدت سے آسانی لانی چاہئے۔ میں قائل ہوں کہ الیکشن جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہی ہونے چاہئیں مگر میرا عدم اتفاق بھی اتنا ہی وزنی ہے جتنا کہ اتفاق۔

سوال یہ ہے کہ آپ کسی بھی سافٹ وئیر کو استعمال کر لیں چاہے وہ پچھلے انتخابات والا آر ٹی ایس ہو یا موجودہ انتخابات والا ای ایم ایس۔ ہمیں مشینوں اور سافٹ وئیرز سے پہلے اپنی نیتیں، کردار اور روئیے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے میاں عرفان اکرم سے کہا کہ یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ وکلا الیکشن کے لئے افراد اور سسٹم پر اتفاق اور اعتماد کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ ہماری قومی سیاست میں نہ افراد پر اعتماد ہے اور نہ ہی سسٹم پریقین۔

چالیس برسوں میں جتنے بھی الیکشن کروائے گئے ان تمام میں ہارنے والوں نے دھاندلی کاشور مچایا، خاص طور پر پی ٹی آئی نے جیت کر بھی۔ ہم نے پوری دنیا کے مقابلے میں بڑا تیر مارا اور انتخابی اصلاحات کرتے ہوئے نگران لے آئے۔ ہمیں ایک دوسرے پربھروسہ ہی نہیں تھا مگر دلچسپ یہ ہوا کہ نگرانوں والا تجربہ بھی ہمیشہ ناکام رہا۔ میں پنجاب کی بات کروں تو پچھلے انتخابات میں حسن عسکری رضوی اینٹی پی ٹی آئی حلقوں کے لئے مشکوک تھے اور اس مرتبہ محسن نقوی اینٹی پی ایم ایل این والوں کے لئے ناقابل قبول۔

یہاں ایک سوال بہت اہم ہے کہ کیا واقعی دھاندلی ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہارنے والے کو ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ میں نے بہت سارے دانشوروں اور تجزیہ کاروں سے پوچھا کہ کیا واقعی دھاندلی ہوتی ہے تو ان سب نے اپنے منہ کو زیادہ دانشورانہ انداز میں پھلاتے ہوئے کہا سو فیصد ہوتی ہے، ہربار ہوتی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اگر کوئی شے ہوتی ہے تو اس کا کوئی ثبوت بھی ہوتا ہے اور کوئی گواہ بھی۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے سیاستدان پینتیس پنکچروں کا الزام لگاتے ہیں مگر نہ وائٹ پیپر آتا ہے نہ کوئی ثبوت۔ بعد میں کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے تو سیاسی بات کی تھی۔

جب آر ٹی ایس بیٹھنے کی بات ہوتی ہے تو اس موقعے پر بھی کوئی وائٹ پیپر نہیں آتا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ آر اوز کے الیکشن کانعرہ لگانے والے اب فارم پینتالیس کا نعرہ لے آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دعوے ہیں کہ پی ٹی آئی نے ایک سو اسی سیٹیں جیتیں اور مسلم لیگ نون نے سترہ۔ مگر حالات یہ ہیں کہ ری کاونٹنگ میں جب پوری تسلی کے ساتھ دوبارہ ووٹوں کی جانچ ہورہی ہے تو دھاندلی کا شور مچا نے والی پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اب تک کوئی سات، آٹھ سیٹیں ہار چکی ہیں یعنی کامن سینس ہے کہ ریٹرننگ افسران نے پہلے انہیں غلط طور پر جتوایا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی جعلی فارم پینتالیس لئے پھر ر ہی ہے۔

یہ کہا جا ئے کہ لاہور ہائی کورٹ بار کی طرح مشینوں پر الیکشن کروا لیں کہ مشینیں تو جھوٹ نہیں بولتیں مگر اس مرتبہ بھی سسٹم بیٹھ گیا اور نتائج میں تاخیر ہوئی۔ مجھے ایک بات بتائیں کہ ایک مشین میں اگر صرف یہ کمانڈ دے دی جائے کہ فلاں نشان کے ووٹ دس فیصد بڑھا دو اور فلاں نشان کے دس فیصد کم کردو تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا، درجنوں کم مارجن والی نشستیں ادھر سے ادھر ہوجائیں گی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم بہت ذوق و شوق کے ساتھ سازشی تھیوریوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے پچھلے الیکشن میں پیارے افضل اور اس الیکشن میں لیاقت چٹھے جیسا کوئی نمونہ سامنے آجاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر عطائی صحافی جعلی خواہشیں اور افواہیں بیچتے ہیں۔ شور مچایا جاتا ہے کہ کتا کان لے گیا ہے اور سب پتھر لے کر بھاگ پڑتے ہیں، کان نہیں ٹٹولتے۔ سوال تو سچ پوچھا جا رہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ا لیکشن امام کعبہ یا امام ابوحنیفہ نے کروائے ہیں اور پنجاب میں چیف الیکشن کمشنر نے، ہیں جی، یہ میٹھا ہپ ہپ کڑوا تھو تھو والا کام تو بہت برا ہے۔

اب آپ مسلم لیگ نون کو ہی دیکھ لیجئے۔ جاوید لطیف کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے اور اس کا اگلا منطقی سوال یہ ہے کہ دھوکا کس نے کیا ہے، کیا شہباز شریف نے جس نے چھوٹے بھائی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ برادران یوسف کی مثال کو آج کے دور میں غلط ثابت کر دیا یا مریم نوازجیسی جی دار بیٹی نے۔ اس اسٹیبلشمنٹ نے دھوکا کر دیا ہے جو انہیں واپس لائی۔ مقدمات میں باعزت بری کروایا۔ نااہلی ختم کروائی۔ کیا ہم بات کرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ ہماری بات کا کوئی سر پیر بھی ہے۔

اسی طرح مولانا فضل الرحمان ہیں۔ وہ کے پی کے میں پی ٹی آئی سے ہارے ہیں اور اسی پی ٹی آئی کو جپھیاں ڈال کے اور گاجر کے حلوے کھلا کے دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ یہ بات ایسی ہے کہ بڑھتی چلی جائے گی مگر اس کا کوئی سرا ہاتھ میں نہیں آئے گا کیونکہ ہم سب اسی کو حق سمجھتے ہیں جو ہمارے حق میں ہو۔ سنو لوگو! مشینیں بعد میں ٹھیک کر لینا پہلے اپنی نیتیں ٹھیک کرلو، اپنے کردار ٹھیک کر لو، اپنے روئیے ٹھیک کرلو۔ تھوڑے ظرف اور ہمت والے ہوجاؤ۔ اگر تم ٹھیک اور اچھے ہو گئے تو انتخابات بھی ٹھیک اور اچھے ہوجائیں گے۔