Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Fareed Paracha Ki Umar e Rawan

Fareed Paracha Ki Umar e Rawan

 ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر، سابق رکن قومی و صوبائی اسمبلی ایک سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ پندرہ سے زائد تصانیف کے مصنف بھی اور عمر رواں، ان کی خود نوشت۔ سچ پوچھئے تو وہ سیاسی کارکن مجھے مجاہد لگتے ہیں جو کسی نظرئیے کی جنگ میں اپنی عمریں گزار دیتے ہیں اور اپنے لیڈر سے اتنے کمٹڈ کہ ڈاکٹریٹ بھی ان کے افکار کے دفاع اور فروغ میں یعنی پی ایچ ڈی مقالے کاموضوع ہے، سید مودودی کے سیاسی افکار، عصری افکار کے تناظر میں،۔ مجھے یہ گواہی دینے میں کوئی عار نہیں کہ جماعت اسلامی نے ملکی سیاست کو بڑے بڑے مست ملنگ سیاسی کارکن دئیے ہیں، اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کمٹڈ، ذاتی اخلاقی سیاسی اورمالی کرپشن سے پاک۔ دبنگ آواز اور بھاری دلائل والے فرید احمد پراچہ بھی ان میں سے ایک ہیں جیسے میں نے قاضی حسین احمد کو دیکھا اپنی جماعت کی مقبولیت کے لئے گرم دم گفتگو بھی اور گرم دم جستجو بھی، جیسے سید منور حسن تھے خشیت الٰہی سے کانپتے مگرمخالفین کو للکارتے ہوئے، جیسے مست ملنگ حافظ سلمان بٹ تھے اور جیسے امیر العظیم جیسی معصوم اور پیاری شخصیت ہے، ابھی کل پرسوں ہی مزمل سہروردی کے والد کی رسم قل میں دیکھا، جماعت اسلامی کا جھنڈا اپنی قمیض کے کالر، کفوں اور بٹنوں کی پٹی پرسلوائے ہوئے، اللہ، اللہ، میں ان کو اور ان جیسوں کو دوسری جماعتوں میں دیکھتا ہوں تو مایوسیوں کے گھپ اندھیروں میں امید کی کرن نظر آتی ہے۔ مان لیجئے کہ ایسے لوگ پیپلزپارٹی میں بھی ہیں، نواز لیگ میں بھی ہیں، پی ٹی آئی میں بھی ہیں، اے این پی، جے یوآئی، ایم کیو ایم سمیت سب جماعتوں میں ہیں، ان کی قیادتوں کی نیتوں میں ہیر پھیر ہو سکتا ہے مگریہ سچے اور کھرے ہیں، ان کے لشکر ہارے ہوئے ہوں گے مگر یہ جیتے ہوئے ہیں کیونکہ یہ ڈٹے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی عمر رواں، پڑھی، یہ ہماری سیاسی تاریخ ہی نہیں بلکہ ادب کے ذخیرے میں بھی ایک غیر معمولی اضافہ ہے۔ میں فرید پراچہ کی پارٹی، سیاست اور موقف سے اختلاف کر سکتا ہوں مگر انکار نہیں کر سکتا۔ مجھے کئی موقعوں پر یوں لگاکہ جیسے میں نے یہ سب کچھ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جو وہ بیان کر رہے ہیں۔ بات یوں ہے کہ وہ جن گلیوں، محلوں کا ذکر کر رہے تھے میں ان میں ہی گھومتا پھرتا بڑا ہوا۔ دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ انہوں نے جس ملک امیر کی بات کی اور پیپلزپارٹی کی طرف سے غنڈہ گردی کا الزام دھرا، میں اسی ملک امیر کے ساتھ برس ہا برس ان کی چھوٹی سی مسجد میں نماز ادا کرتا رہا جو میرے گھر کے قریب تھی۔ ملک محمدامیر کے خاندان نے پیپلزپارٹی کے ساتھ بہت وفا نبھائی، اچھے بندے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ صحت مندبوڑھا شخص ہاتھ میں اپنا بڑا سا ڈنڈا لئے صبح صادق کے وقت گلیوں میں گھومتا تھا اور شور مچاتا تھا اٹھو فجر کی نماز کے لئے اٹھو۔ اب اس خاندان کے ملک انوار الحق سیاست میں ہیں مگر پیپلزپارٹی سے مایوس ہو کر مسلم لیگ نون کو پیارے ہو چکے۔

مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا کہ جماعت اسلامی میں سیاسی سوچ رکھنے والے کارکنوں اور رہنماوں کو زیادہ ذمہ داریاں ملنی چاہئیں، انہیں جماعت کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہونا چاہئے تاکہ غلط فیصلے نہ ہوں جیسے جماعت اسلامی نے 2008 کے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا حالانکہ اس سے قبل 2002 میں وہ بہت سارے حلقے جیت چکی تھی مگر اس نے دوسروں کے لئے میدان خالی کر دیا۔ میں یقین سے رائے دے سکتا ہوں کہ جماعت اسلامی، سیاسی جماعت کے طور پر، اپنی فیصلہ سازی غیر سیاسی لوگوں کو پیچھے کرتے ہوئے سیاسی ذہن والوں کے ذریعے کرے تو بہت بہتر نتائج دے سکتی ہے۔ فرید پراچہ نے آج سے تیرہ برس پہلے تک کی باتیں لکھیں۔ اپریل 2021 میں لکھی چار سو صفحات پر مشتمل خود نوشت میں مجھے آخری بڑا سیاسی موضوع2008 کے انتخابات کے بائیکاٹ کا ہی ملا حالانکہ اس کے بعد بھی سیاست کے پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہا جو ستھرا بھی تھا اور گدلا بھی تھا۔ خاص طور پر میں نے دیکھا کہ جناب سید منور حسن نے جماعت اسلامی کو پی ٹی آئی کی گود میں ڈال دیا اور جب پی ٹی آئی کو اقتدار ملنے لگا تواسے طلاق دے دی۔ یہ جماعت کا عجب معاملہ ہے کہ ضیا الحق کے ساتھ جاتے ہیں، آمریت کی وزارتیں لینے کا گناہ کرتے ہیں مگر جب اس گناہ کا مزا لینے کا وقت آتا ہے تو توبہ کرلیتے ہیں، نواز شریف کے اتحادی بنتے ہیں اور زور شور سے آئی جے آئی بناتے ہیں مگر جب نواز شریف وزیراعظم بنتا ہے تویہ نیک لوگ نادیدہ فرشتوں کے کہنے پراقتدار کی جنت سے نکل جاتے ہیں اور پھر پی ٹی آئی والا معاملہ، یہ نیک اور اچھے لوگ نجانے اتنے ناقص اور نقصان دہ سیاسی فیصلے کرنے کی صلاحیت کہاں سے لے آتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی کارکنوں کو لکھنا چاہیے تاکہ ان کے تجربات آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ہوجائیں۔ مجھے اس موقعے پر بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان یاد آ گئے۔ وہ اپنی ڈائری بہت تفصیل سے لکھا کرتے تھے۔ ایسی ڈائری کہ تاریخ میں بھونچال پیدا کر سکتی تھی مگر انہوں نے اسے اپنی زندگی میں بہت ساری سمجھ آنے والی وجوہات کی بنا پر شائع نہ کروایا اور ان کی وفات کے بعد بھی وہ ڈائری شائع نہ ہوسکی کیونکہ مشرف دور میں ان کے سچ سے خائف لوگوں نے شائد اسے تلف بھی کردیا۔ اس سے پہلے نوابزادہ منصور علی خان میں اتنے ستو، ہی نہیں تھے کہ وہ سٹینڈ لیتے اور اپنی با پ کی عظیم سیاسی جدوجہد اوراس سے بھی زیادہ چھپے ہوئے تلخ سیاسی حقائق کو سامنے لاتے۔ ایک شے بہت دلچسپ رہی اور وہ اسلامی جمعیت طلبا کی روداد ہے، جمعیت جماعت اسلامی کی نرسری ہے مگر جمعیت کے دوست ہمیشہ خود کو جماعت اسلامی سے الگ قرار دیتے ہیں جب میں یہ کہتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کو تعلیمی اداروں میں اپنی بغل بچہ تنظیمیں بنانے اور ان کے ذریعے تعلیمی اداروں پر قبضے کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ ماں باپ تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو سیاسی کارکن بنانے نہیں بلکہ پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں مگرمیں دوسری طر ف اس متضاد دلیل سے بھی واقف ہوں کہ طلبا سیاست ہمت، جرات اور شعور دیتی ہے مگر اس کی قیمت ماوں کے لعلوں کے مستقبل اور جانیں نہیں ہونی چاہئیں۔

مجھے فرید احمد پراچہ کی خود نوشت پڑھتے ہوئے جہانگیر بدرسمیت ایسے بہت سارے سیاسی کارکن یاد آ رہے ہیں جو اپنی نظریاتی جدوجہد میں زندگی بھر ثابت قدم رہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ وہ لیڈر کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں ایسے سیاسی کارکن ملتے ہیں جو اپنی زندگیاں ان کے فلسفے پر گزار دیتے ہیں۔ نظریہ، خلوص، بہادری اور وفاداری بھی خدا کی اپنے منتخب کئے ہوئے لوگوں کو دی ہوئی کچھ صفات ہیں ورنہ سب لوگوں کی قسمت میں کہاں جہانگیر بدر، مشاہد اللہ خان، حافظ سلمان بٹ اور فرید احمد پراچہ ہونا ہوتا ہے، یقینا عزت اورکامیابی، طاقت اور دولت میں نہیں، محبت اور کردار میں ہے۔ بڑے بھائیوں کی طرح محترم ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کو ایک خوبصورت تاریخی سیاسی و ادبی تصنیف کا خالق ہونے پر مبارکباد اور اسامہ فرید کا شکریہ کہ انہوں نے اس کتاب کا مجھ تک پہنچنا ممکن بنایا۔