Thursday, 21 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Fifth Generation Warfare

Fifth Generation Warfare

ففتھ جنریشن وار فئیرجسے مختصر کرکے فائیو جی ڈبلیو بھی کہا جاتا ہے اب قوموں اور گروہوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگ کی نئی صورت ہے جس میں روایتی ہتھیاروں کی بجائے سوشل میڈیا، پروپیگنڈے بلکہ فیک نیوز تک کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ جنگ فوجیوں کی بجائے سویلینز کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ اس جنگ کا سب سے خوفناک عنصر یہ ہے کہ اس میں دشمن کی بہت بڑی تعداد دشمن بن کے سامنے نہیں آتی بلکہ اپنا تعارف دوست کے طور پر کرواتی ہے۔

اس جنگ میں قلعوں کو اندر سے کمزور کیا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے جو اپنے ہی ملک اور قوم کے خلاف فصیلوں کے دروازے اندر سے کھولتے ہیں۔ موجودہ دور میں اس کی مثال پاک فوج کے کچھ بھگوڑے شاہین صہبائی، عادل راجا اور حیدر مہدی وغیرہ بھی ہیں۔ یہ خود کو قوم کے دوست اور حقیقی ہمدرد کہتے ہیں مگر یہ دشمن کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہ روایتی دشمن سے زیادہ خطرناک اس لئے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا پر بیٹھ کے کارکنوں کو اشتعال دلاتے ہیں کہ فلاں، فلاں جگہ پر فوج اور آئی ایس آئی کے دفاتر ہیں، ان پر جا کے حملے کر دو۔

یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا جیسے ٹولز کا استعمال آج ہونے لگا ہے مگرففتھ جنریشن وار فئیر آج سے صدیوں پہلے بھی موجود تھی۔ اس کی معروف ترین مثال لارنس آف عربیہ کی ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس پچھلی صدی کے آغاز میں برطانوی فوج کا ایک افسر تھا جسے پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں عرب علاقوں میں بغاوت منظم کرنے اور خلافت کے خاتمے کے حوالے سے خصوصی شہرت ملی۔

معروف روایات کے مطابق تھامس ایڈورڈ لارنس انگلستان کے ایک زمیندار تھامس چیمپن اور اس کی نوکرانی سارہ جونز کی ناجائز اولاد تھا۔ اسلامی خلافت کے خاتمے کے لئے عربوں میں قوم پرستی کے جذبات جگا کے انہیں ترکوں کے خلاف متحرک کرنے میں اس کا کردار سب سے اہم ہے۔ لارنس آف عربیہ کے نام سے اسے شہرت ایک فلم کے بعد ملی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گذشتہ صدی کے آغاز میں جب ترک مجاہدین نے دریائے دجلہ کے کنارے برطانوی افواج کو شکست فاش دی تو انگریزوں کو احساس ہوگیا کہ وہ مسلمانوں کو جنگ کے میدان میں شکست نہیں دے سکتے۔

لارڈ کرزن نے ہوگرتھ کے ذریعے تقسیم کرو اور حکومت کرو کا جو فارمولہ دیا اس کا سب سے بہترین استعمال تھامس ایڈورڈ نے ہی کیا۔ برلن سے بغداد جانے والی ریلوے لائن کی جاسوسی کے لئے اس نے وہاں آثار قدیمہ کے نگران اعلیٰ کا روپ دھارا اور کوشش کی کہ اپنے ساتھ مزید غداروں اور ضمیر فروشوں کو شامل کر سکے۔ اس کے لئے اس نے ترک پارلیمنٹ کے رکن سلیمان فائزی کا انتخاب کیا مگر سلیمان نے اسے ذلیل و خوار کرکے نکال دیا۔ اب یہاں سے کہانی کے دوسرے رخ کا آغاز ہوا جسے میں آج کی ففتھ وار جنریشن وار فئیر کے ساتھ جوڑ رہا ہوں۔ وہ عربی زبان بہت اچھے طریقے سے جانتا تھا اوراس نے عربی لباس بھی پہننا شروع کر دیا۔ اس نے بصرہ کی مسجد میں جا کے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور عرب کے صحرا نشینوں میں گھل مل گیا۔ اس نے کچھ ایسی فیاضی اور علمیت دکھائی کہ عرب اسے اپنا ہمدرد او رمسیحا سمجھنے لگے۔

لارنس نے گورنر مکہ حسین ہاشمی تک رسائی حاصل کر لی اور نہایت مکاری اور چال بازی سے خود کو اس کا ہمدرد ثابت کر دیا۔ جیسے اب نوجوان نسل کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بالکل اسی طرح اس نے گورنر مکہ کے بیٹوں عبداللہ، علی، فیصل، زید پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور انہیں خلافت سے بغاوت پریہ کہتے ہوئے قائل کرنا شروع کر دیا کہ تم سید زادے ہو اور غیر سیدزادوں کی اطاعت کیوں کرتے ہو۔ ایک دن یہ آیا کہ ان لڑکوں نے اپنے گھر کی کھڑکی سے ترکوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ یہ لارنس کی بہت بڑی کامیابی تھی کہ اس نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوا دی تھی۔

تاریخ پر ہی رہیں تو ایک اور واقعہ بھی بہت اہم ہے۔ یہ چھٹی صدی ہجری کا واقعہ ہے جب نصرانیوں نے ایک خوفناک سازش تیار کی کہ رسول اللہ ﷺ کا جسم اطہر نکال کر اپنے قبضے میں لے لیا جائے۔ اس مقصد کے لئے دو نصرانی مدینہ منورہ پہنچے اور ففتھ جنریشن وار فئیر کے اصولوں کے عین مطابق انہوں نے خود کو اندلس سے بہت ہی برگزیدہ اور عبادت گزار شخصیات ظاہر کرکے مزار اقدس کے قریب ہی رہائش اختیار کر لی۔ یہ دن بھر لوگوں کی مدد کرتے اور رات کو مزار مبارک تک پہنچنے کے لئے ایک خندق کھودتے۔ اس خندق کے کھودے جانے سے جو مٹی نکلتی وہ چمڑے کے تھیلوں میں بھر کے جنت البقیع میں ڈال آتے اور ظاہر کرتے کہ وہ جنت البقیع کی زیارت کے لئے وہاں جاتے ہیں۔ ٹھیک انہی دنوں نور الدین زنگی کو خواب میں رسول اللہﷺ کی زیارت ہوئی۔

رسول اللہﷺ نے دو بھورے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ان پر نظر رکھو۔ نورالدین زنگی گھبرا کے اٹھ گیا مگر اسے تین بار مسلسل یہی خواب نظرآیا تواس نے اپنے وزیر جمال الدین موصلی کو طلب کیا۔ اس کے مشورے سے وہ دن رات سفر کرتا ہوا سولہ روز میں مدینہ منورہ پہنچا اور اعلان کر دیا کہ وہ بہت سارا مال و زر اپنے ساتھ لایا ہے۔ مدینہ کے لوگ اس سے ملاقات کریں۔ سب نے ملاقات کی مگر وہ دونوں نصرانی ملاقات کو نہ آئے کہ انہیں نہ نور الدین سے ملنے کی ضرورت ہے نہ مال و اسباب کی کہ وہ بہت نیک اور پارسا ہیں۔

نورالدین زنگی نے انہیں طلب کیا اور فوری طور پر پہچان گیا کہ یہ دونوں وہی ہیں۔ نورالدین ان کے گھر پہنچا اور تلاشی لی تو گھر کے اندر قالین کے نیچے سے ایک سرنگ نکلی جو مسجد نبویﷺ کی دیوار سے آگے پہنچ چکی تھی۔ لوگوں نے ان کی اصلیت جانی تو حیران اور پریشان رہ گئے۔ زنگی نے ان کے سر قلم کرنے کا حکم دیا اورساتھ ہی روضہ رسولﷺ کے باہر خندق کھود کے اس میں سیسہ بھرنے کا حکم دے دیا۔ ا س سے پہلے وہ خوارجی بھی اس کی مثال ہیں جنہوں نے شیر خدا کو شہید کیا تھا خود کو مسلمانوں سے بڑھ کے مسلمانوں کا خیرخواہ کہتے تھے۔

مجھے کہنا صرف یہ ہے کہ ہم جسے ففتھ جنریشن وار فئیر کہہ رہے ہیں یہ صدیوں سے جاری ہے مگر اس میں اضافہ صرف سوشل میڈیا کا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سارے لوگ سامنے آتے ہیں جو کسی بھی نظریاتی اور اصولی تحریک کا خود کو سب سے بڑا ہمدرد کہتے ہیں مگر ان کا مقصد لارنس آف عربیہ کی طرح تقسیم کرنا اور بغاوت پیدا کرنا ہوتا ہے یااندلس کے نصرانیوں کی طرح کوئی بہت بڑی زک پہنچانا۔

ہردور کی نظریاتی تحریکوں کوا ن جیسے گھس بیٹھیوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے لارنس آف عربیہ کی طرح کسی گورنر مکہ کو اپنے قابو میں کیا ہوتا ہے یا اندلس کے نصرانیوں کی طرح نیک اور پارسا ہونے کا ڈھونگ رچایا ہوتا ہے۔ آج ہماری فوج ہو یا سیاسی جماعتیں، انہیں بھی ایسے لوگوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے جو دوست بن کے ان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔