یقین کیجئے مجھے گیلپ پاکستان کے سروے نے حیران کرکے رکھ دیا ہے، پروفیسر نعیم مسعود نے اسے گیلپ کی گپ کہا، بولے، یہ ایک گپ میں ہی ہوسکتا ہے کہ سروے کے شرکاء پاک فوج کی بھی تعریف کر رہے ہوں اور اس عمران خان کی بھی جو فوج کو محض آئینی طور پر اپنا نیوٹرل کردار ادا کرنے پر جانور کہتے رہے اور اس کے سربراہ کو میر جعفر اور میر صادق، جن پر یہ ثابت ہوگیا کہ ان کی منصوبہ بندی سے ہی ان کی گرفتاری پرجی ایچ کیو راولپنڈی اور کور کمانڈر ہاؤس پر ہی نہیں سرگودھا سمیت مختلف شہروں میں شہدا کی یادگاروں پر حملے بھی کئے گئے۔
مجھے ملا نصیر الدین یاد آ گئے جنہیں کسی نے گیلپ جیسی عدالت کا جج بنا دیا، انہوں نے مدعی کو سنا تو فیصلہ سنا دیا تم ٹھیک کہتے ہو، ملزم اس پر چیخا، اپنا موقف بیان کیا تو فیصلہ دیا کہ تم بھی ٹھیک کہتے ہو، میرے جیسا کوئی کم آئی کیو والا وہاں موجود تھا، حیران ہوا، بولا، ملا یہ کیسے ہوسکتاہے کہ مدعی اورملزم دونوں ہی ٹھیک کہتے ہوں، ملا مسکرائے اور نہایت دانشورانہ انداز میں بولے، تم بھی ٹھیک کہتے ہو۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ گیلپ نے ملک بھر میں ایسے سیمپل، کیسے ڈھونڈے جو جی ایچ کیو کے بھی معترف ہیں اور جی ایچ کیو پر حملہ کروانے والوں کے بھی۔
گیلپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر برادر بلال گیلانی نے کہا کہ گیلپ چالیس برسوں سے سروے کا کام کر رہا ہے اور اس کی اس فیلڈ میں بڑی ساکھ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سروے سابق وزیراعظم اور ری امیجننگ پاکستان کے شاہد خاقان عباسی کے لئے کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ میں گیلپ پاکستان کی ساکھ کو چیلنج نہیں کرسکتا اور بلال کی بات کو اہمیت دیتا ہوں کہ انہوں نے سیمپلنگ کے لئے مروجہ قواعد وضوابط کو یقینی طور پر ملحوظ رکھا ہوگا مگر میرا کہنا ہے کہ اس سروے میں واضح تضادات موجود ہیں اور گیلپ نے ایک ہی ہلے میں فوج اور پی ٹی آئی دونوں کو خوش کر دیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ پاک فوج پر ملک بھر میں اٹھاسی فیصد جبکہ پنجاب میں نوے فیصد (پی ٹی آئی کے ہوم گراؤنڈ خیبر پختونخوا میں اکانوے فیصد) اعتماد رکھتے ہیں۔
میں اگر پاک فوج کو بطور ادارہ دیکھوں تو مجھے کہنے میں عار نہیں کہ یہ اعتماد اٹھاسی نہیں کم از کم اٹھانوے فیصد ہونا چاہئے کہ فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جس میں ڈسپلن بھی ہے اور میرٹ بھی ہے۔ جب ہم اس کا سیاسی جماعتوں کے ساتھ تقابل کرتے ہیں تو ہمیں جنرل ایوب خان سے جنرل عاصم منیر تک عام گھروں کے بیٹے اس کے سربراہ بنتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر کیا ہم اسی میرٹ اور جمہوریت کا مظاہرہ اپنی جمہوری سیاسی جماعتوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں، کیا وہاں کارکن سربراہ بن سکتے ہیں۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ انڈیا سے امریکا تک، وہ تمام ممالک جو پاک فوج کے مقابلے میں دس سے بیس گنا یا اس سے بھی زیادہ بجٹ استعمال کر رہے ہیں، وہ پروفیشنل ازم میں پاک فوج سے بہت پیچھے ہیں تو اس پربھی فوج بطور ادارہ قابل تعریف قرار پاتی ہے مگر سوال تو یہاں سیاسی بیانیوں کا ہے۔ یہاں رائے دینے والے اپنے اپنے لیڈر کے سیاسی مفادات کے مطابق رائے دیتے ہیں۔ کیا یہ ابھی کل ہی کی بات نہیں کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹوں کا تکیہ کلام پاک فوج کی حمایت کرنے کے لئے ماں کا نیک اور باپ کا ایک ہونا ضروری ہے، ہوا کرتا تھا۔
کیا ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان کے آٹھ برس تک وزیر نہیں رہے اور کیا انہوں نے بچے کھچے پاکستان کا اقتدار مجیب الرحمان کی مخالفت کرکے حاصل نہیں کیا مگر پھر وہی مخالف ہوئے۔ پرویز مشرف کے مارشل لاء سے پہلے اسی کی دہائی میں نواز شریف، ضیاء الحق مرحوم کی یہ دعا لے کرسیاسی میدان میں نہیں آئے تھے کہ انہیں (نواز شریف کو) ان کی (جنرل ضیاء الحق) کی عمر لگ جائے مگر پھر کیا ہوا؟ سروے میں کہا گیا ہے کہچیئرمین پی ٹی آئی ملک بھر میں (اور پنجاب میں بھی)بے پناہ مقبول ہیں ہی مگر سعد رضوی، پرویز الٰہی اورشاہ محمود قریشی بھی نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز سے زیادہ پاپولر ہیں۔
میں نے برادرم بلال گیلانی سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے تو انہوں نے اعداد و شمار کے ساتھ جواب دیا کہ 2018ء میں مسلم لیگ نون کے ووٹ 2013ء کے مقابلے میں بہت کم تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ مسلم لیگ نون کی عدم مقبولیت کا ٹرینڈ نیا نہیں ہے بلکہ برسوں سے چل رہا ہے۔ میں نے عمر اسلم سے پوچھا، وہ لاہور میں سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ نون کی گراس روٹ پر پولیٹیکل رپورٹنگ میں ایک بڑا نام ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ نواز لیگ نے پرویز مشر ف کی موجودگی میں لاہور اور پنجاب جیتا تھا اور کسے نہیں علم کہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں کیا ہوا۔ کس طرح شیر کے انتخابی نشان کی ٹکٹیں واپس کروائی گئیں اور کس طرح آر ٹی ایس بند ہوا۔
میرا سوال تھا، ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف اور اسحق ڈار کے دورمیں ہونے والی مہنگائی نے مسلم لیگ نون کے ووٹ بنک پر اثر ڈالا ہو مگران کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود پنجاب کا ووٹر جانتا ہے کہ مہنگائی کی اصل وجہ کیا ہے اور آنے والے دنوں میں ترقی اور خوشحالی کا نقیب کون ہوسکتاہے۔ بہرحال اصل بات تو یہ ہے کہ نواز لیگ کی مقبولیت کا اصل پتااس وقت چلے گا جب اکیس اکتوبر کو نواز شریف وطن واپس لوٹیں گے۔ میں انتخابی نتائج کے بارے نہیں جانتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جس حال میں مسلم لیگ نون 2018ء کے انتخابات میں تھی، اسی حال میں جنوری 2024ء میں ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی ہوگی۔
میں جانتا اور مانتا ہوں کہ سعد رضوی کے چاہنے والے بہت ہیں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ پچھلے انتخابات میں ان کی پارٹی ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی تھی اور مجھے سیاسی میدان میں ان کی مقبولیت میں کوئی فرق نظرنہیں آتا، بریلوی طبقے کا جذباتی ووٹر ان کے ساتھ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے مگر مجھے واقعی علم نہیں کہ یہ علاقہ گجرات کے ایک دو حلقوں کے سوا کون ساہے جہاں پر پرویز الٰہی، نواز شریف سے بھی زیادہ مقبول ہیں۔ سروے کہتا ہے کہ پولیس پر 54 فیصد عوام اعتماد کرتے ہیں، حیرت ہے۔
مجھے معذرت کے ساتھ کہنا ہے کہ اس سروے نے بہرحال گیلپ کی ساکھ میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ گیلپ اور گپ میں فرق کو کم ہی کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی عوام میں مقبولیت نہیں ہے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ انتخابات کی سائنس بہت مختلف ہوتی ہے۔ میں نے نوے کی دہائی سے اب تک (محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہونے والے انتخابات کے سوا) ہر مرتبہ الیکشن میں اسی سائنس کو کامیاب ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
ہم صحافیوں کو ہی نہیں بلکہ عوام الناس تک کو علم ہوتا ہے کہ کون سی پارٹی الیکشن جیتنے والی ہے۔ میں برادرم بلال گیلانی سے شرط لگانے کے لئے تیار ہوں کہ ان کا سروے غلط ثابت ہوگاجس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی پنجاب میں نواز لیگ ہی نہیں بلکہ سندھ میں پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ مقبول ہے۔