Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Gandi Assembly

Gandi Assembly

کیا سیاستدانوں کو علم نہیں ہے کہ ان کی کردار کشی کے لئے کتنے ہی طبقات سرگرم عمل ہیں جو انہیں برا ثابت کر کے ریاست اور معاشرے کے زوال کی ذمے داری ان پر عائد کرنا چاہتے ہیں اور دلچسپ یہ ہے کہ سیاستدانوں میں سے کچھ اپنی مفاد پرستی اور بدکرداری کی وجہ سے انہیں یہ مواقع بار بار فراہم بھی کرتے ہیں۔ گندے لوگوں کی تعدادشائد دس فیصد بھی نہیں ہوگی جیسے سینٹ کے الیکشن میں ضمیر اور ووٹ بیچنے والے تھوڑے تھے مگر کالک سب کے منہ پر مل دی جاتی ہے، گالی سب کو پڑ جاتی ہے۔ مجھے آج سے بہت برس پہلے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سعید احمد خان منیس کی کہی بات یاد آ رہی ہے کہ سیاست اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو گی جب تک سیاستدان بطور برادری نہیں سوچیں گے، وہ آئین، جمہوریت اور کچھ بنیادی اخلاقی اصولوں پر اتفاق رائے نہیں کر لیں گے۔

قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ شرمناک ہے۔ یہ درست کہ وزیر خزانہ کی بجٹ کی تقریر کے دوران ایک روایتی احتجاج ہوتا ہے، کچھ نعرے لگتے ہیں اور کچھ پوسٹرز لہرائے جاتے ہیں اور اس کے بعد اپوزیشن واک آوٹ بھی کر جاتی ہے مگر حکومت کی طر ف سے اپوزیشن کے خلاف احتجاج ایک نیا رواج ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تمام جماعتوں کے ارکان نے اپنی حدود سے کراس کیا، آہ، اسلام آباد جیسے مہذب او رپڑھے لکھے علاقے سے منتخب رکن قومی اسمبلی کی گالیاں سن لیجئے آپ کو شراب کے نشے میں بدمست بازار حسن کے کسی رہائشی کا فلمی انداز لگے گا۔ آپ اس وزیر کو دیکھئے جو خاتون ہیں، بیرون ملک سے پڑھنے لکھنے کی دعویدار ہیں، انسانی حقوق کی وزارت چلاتی ہیں اور وہ جس طرح چور، چور کے نعرے لگا رہی تھیں ا س سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے تعلیم اور ڈگریاں کتنی غیرضروری ہیں، جی ہاں، پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے اصل میں آئین، جمہوریت اور عوامی حقوق کی آگاہی ضروری ہے۔ آپ ا س نوجوان وزیر کو دیکھئے جو تحریک انصاف کا چہرہ بنتا ہے وہ کس طرح میز پر چڑھ کرکتابیں پھینک رہا تھا۔ ایوان کو اخلاقیات کی روایات کے مطابق چلانے کی ذمے داری سپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی پر بھی تھی بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ان والدین پر بھی تھی جنہوں نے ان ارکان اسمبلی کی تربیت کی اور ان اساتذہ پر بھی جنہوں نے انہیں تعلیم دی مگر انہیں تہذیب سکھانے میں ناکام رہے۔ سپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر نے بھی پریس کانفرنس کی اور کہا کہ انہیں ہلڑ بازی کرنے والا کوئی وزیر نظر نہیں آیا تو اندازہ ہو گیا کہ ایوان کی عزت بچانے میں وہ شخص کتنا سنجیدہ اور با اختیار ہے، جو اس کا کسٹوڈین کہلاتا ہے۔

مسلم لیگ نون اپوزیشن میں ہے، احتجاج اس کا حق ہے مگر اسے کوئی حق نہیں کہ وہ دوسرے ارکان اسمبلی کو زخمی کرے۔ علی نواز کی فحش کلامی اور روحیل اصغر کی گالیاں ایک ہی جیسی تھیں مگر روحیل اصغر نے ظلم یہ کیا کہ گالیوں کو پنجاب کو کلچر قرار دے دیا۔ روحیل اصغر کا یہ بیان، اپنے ہی صوبے اور زبان پر غلاظت کے ٹرک کے ساتھ، خود کش حملہ تھا۔ روحیل اصغر جیسوں کا غصہ اور گالیاں اتنے عقل مند ہوتے ہیں کہ یہ وہاں ہی نکلتے ہیں جہاں سے نقصان کا خطرہ نہ ہو، یہ مخالف پر اور کمزور پر ہی کیوں نکلتے ہیں۔ اگر یہ روحیل اصغر کی ثقافت ہے تو پھر وہ بتائے کہ اس نے اپنے باپ، چاچے، تائے کو بھی وہی گالیاں دی ہیں جو قومی اسمبلی میں اپنے مخالفین کو دے رہا تھا اور کیا اس کی وہ گالیاں کبھی نواز شریف اور شہباز شریف کے لئے بھی منہ سے نکلی ہیں، نہیں، ایسا نہیں ہوا ہو گا کیونکہ اس کا کلچر عقل مند ہے، جانتا ہے کہ باپ کو گالی دیتا تو وہ گھر سے نکال دیتا، نواز شریف کو دیتا تو پارٹی سے، سو اس نے وہاں گالی دی جہاں سے اسے نکالا بھی گیا ہے تو عارضی طور پر، بہت تھوڑے عرصے کے لئے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ایوان میں قوم کے بجٹ پر بحث کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو ماں، بہن کی گالیاں دینے والے قوم ہی کے ٹیکسوں کی کمائی سے تنخواہیں او رمراعات بھی لے جائیں گے۔ میں خوش گمانی رکھتا تھا کہ تینوں بڑی جماعتوں کے رہنما بھی اپنے گندے، بے ہودہ اور گھٹیا ارکان کو نوٹس جاری کریں گے، کچھ شرم حیا کی جائیے گی، پارلیمانی سیاست کی آبرو بچائی جائے گی مگر میں نے دیکھا کہ وزیراعظم عمران خان اس روز بھی اسلام آباد میں ڈولفن سکواڈ کی نقل میں بننے والے ایگل سکواڈ کی افتتاحی تقریب میں قانون کی بالادستی کے اپنے روایتی جعلی بھاشن دیتے رہے اور نواز لیگ، پیپلزپارٹی کی اخلاقیات کے درس بھی سرکاری ارکان تک محدود رہے۔ محاورے کے مطابق ہر کسی کے اپنے کتے ٹامی رہے اور دوسروں کے کتے، کتے۔

مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ پنجاب اور پنجابی کا مقدمہ لڑنے والا کوئی نہیں، یہ وہ بدقسمت ز مین ہے جس کا کھاتے سب ہیں مگر اس کا مقدمہ کوئی نہیں لڑتا بلکہ اس کے اپنے بیٹے اس کے منہ پر کالک مل دیتے ہیں، اس کو کاٹنے کے لئے چھریاں لے آتے ہیں۔ روحیل اصغر اور اس سوچ کے دیگر لوگ بھی سن لیں کہ پنجابی گالیوں کی زبان نہیں ہے بلکہ تم لوگوں نے اسے ٹھٹھے، جگتوں اور گالیوں کی زبان بنا دیا ہے، یہ بابا فرید، بابابھلے شاہ، سلطان باہو، شاہ حسین، خواجہ غلام فرید، وارث شاہ، میاں محمد بخش، شاہ حسین، ہاشم شاہ جیسے بزرگوں کی زبان ہے، یہ اس صوفیانہ کلام کی زبان ہے جسے تم نے پنجابی کی تعلیم بند کر کے قتل کرنے کی سازش کی ہے۔ میں نے اپنے دھرتی اور زبان کا پنجابیوں سے بڑھ کے غدار اور دشمن نہیں دیکھا۔

قومی اسمبلی میں اس وقت بجٹ اجلاس چل رہا ہے اور حکومت کا دعوی ہے کہ اس نے ایک تاریخی بجٹ پیش کر دیا ہے جس میں عوام کی فلاح کے لئے بہت کچھ ہے مگر دوسری طرف ہر طبقہ اس بجٹ کو مہنگائی کی کنجی سمجھ رہا ہے۔ حکومت اگراپنے دعوے میں سچی ہے اسے چاہئے تھا کہ وہ لیڈرا ٓف دی اپوزیشن کی تقریر کو غور سے سنتی اور اگر ان کے اٹھائے ہوئے سوالات غلط ہوتے تو انہیں دلائل اور اعداد و شمار کے ساتھ رد کیا جاتا۔ اس سے حکومت کی مہنگائی کرنے والی ساکھ بھی بہتر ہوتی اور اپوزیشن کے دعووں کی بھی نفی ہوتی مگر حکومت نے تنقید کے جواب میں گالی دینااور شور مچانازیادہ مناسب سمجھا۔ اگر وہ حکومت والے یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے ذریعے وہ اپوزیشن کو قابو کر رہے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ فساد اور ہنگامے کی قیمت ہمیشہ حکومتوں کو چکانی پڑتی ہے اپوزیشن کو نہیں مگر ایک بات طے شدہ ہے کہ قومی اسمبلی کو کالک کا ڈرم بنانے سے منہ سب کا کالا ہواہے حتی کہ ان کا بھی جو ہنگامے میں شامل بھی نہیں تھے۔ حکومت اوراس کے بنائے ہوئے سپیکر پر ذمے داری کچھ زیادہ اس لئے کہ وہ ایوان کو قانون اور روایات کے مطابق چلانے کے پابند تھے اور اس کے بعد اپوزیشن پر کہ اس کے ارکان بھی حکومتی خواتین پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ہم نے قومی اسمبلی کی کارروائی کی کتاب میں ایک سیاہ باب رقم کیا ہے اورسیاستدانوں کے دشمن تمام طبقات کو موقع دیا ہے کہ وہ مدرآف دی آل انسٹی ٹیوشنز، کے ساتھ وہی کر سکیں جو انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے انگلیاں اٹھا اٹھا کے بتا رہے ہیں، دیکھو دیکھو، سیاستدانوں کو صرف گندا کہا ہی نہیں جاتا بلکہ وہ واقعی گندے ہوتے ہیں۔