شورہے کہ صحافی غیر جانبدار نہیں رہے، کوئی ابھی تک عمران خان کی صورت میں کرپشن کے خاتمے اور ملکی ترقی کے خواب دیکھ رہا ہے اور کوئی نواز شریف کی صورت میں ووٹ کی عزت، کسی کو ابھی تک امید ہے کہ جماعت اسلامی واقعی میں حقیقی اسلامی انقلاب برپا کر دے گی اور کوئی بلاول بھٹو کی شکل میں جمہوریت اور سیکولرازم کا تحفظ دیکھ رہا ہے۔ کسی کو نواز لیگ کے حامی صحافی لفافے لگتے ہیں تو کسی کو پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے مہا کرپٹ۔ قیامت کے اس شور میں، میں پوچھتا ہوں کہ صحافی کب جانبدار نہیں رہے۔ پہلی علمی اور عقلی دلیل تویہ ہے کہ آپ ایک دکاندار تک کو رائے رکھنے کا حق دیتے ہیں تو یہ حق اس صحافی سے کیسے چھین سکتے ہیں جس کے پاس فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہوتی ہے۔ دوسرے مجھے آپ بتادیں کہ مجھے صحافی بناتے ہوئے آپ مولاناظفر علی آزاد سے مجید نظامی تک جتنے بھی بڑے صحافیوں کی خدمات کا مجھے گرویدہ بناتے ہیں کیا وہ غیر جانبدار تھے یا اپنے اپنے دور میں ایک نظرئیے اور مقصد کی جنگ لڑ رہے تھے۔ یہی بحث صحافت کو نظرئیے اور کاروبار کے درمیان تقسیم کرتے ہوئے بھی کی جاسکتی ہے کہ آپ صحافت کو ایک نظریہ سمجھتے ہیں تو اے میرے پیارے معصوم لوگو، کوئی نظریہ کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتا، ہر نظریہ کسی نہ کسی دوسرے نظرئیے کی ضد ہوتا ہے، نفی ہوتا ہے۔
جی جی، میں آپ کی بے چینی سمجھ رہا ہوں اور آپ کے اندر تڑپنے مچلنے والے سوال کو بھی، آپ فرما رہے ہیں کہ صحافی کو ہمیشہ حق اور سچ کے ساتھ ہونا چاہئے تو میرے پیارے قارئین، اس کا جواب کون دے گا کہ حق اور سچ کیا ہے۔ کیا نواز شریف پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات حق اور سچ ہیں اور ان کا ڈھنڈورا پیٹنا ہی حب الوطنی ہے یا دوسری طرف نواز شریف کی بیان کی ہوئی جدوجہد حق اور سچ ہے اوراس کے ساتھ کھڑے ہونا ہی بہادری ہے۔ میں پروگرام کرنے بیٹھتا ہوں تو میرے سامنے پی ٹی آئی والے کا اپنا سچ ہوتا ہے اور نون لیگ والے کا اپنا سچ، تیسرا جماعت اسلامی والا ایک الگ سچ ڈھونڈ لاتا ہے اوراگر پیپلز پارٹی کا جیالا پروگرام میں ایڈجسٹ ہوجائے تو چوتھا سچ بھی سامنے آجاتا ہے لہذا سچ ایک اضافی صفت ہے جو ہر کسی کے پاس اپنی اپنی ہوتی ہے۔ بین الاقوامی مباحثے سن لیجئے، امریکا کے پاس اپنا سچ ہے اور افغانستان کے پاس سچ، پاکستان اور انڈیا بھی اپنے اپنے سچ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ سب اپنے اپنے سچوں کے لئے جانیں لینے اور دینے تک تیار بیٹھے ہیں۔
میرے آج کے کالم کا موضوع کچھ اور ہے مگر تمہید نہ ہوتی تو شائد بات بھی مکمل نہ ہوتی۔ اب سوال یہ ہے کہ ان تمام کے باوجود صحافیوں کوسچ بولنا چاہئے اور انہیں صحافی ہی رہنا چاہئے کسی کا وکیل نہیں بننا چاہئے یعنی نواز شریف کے صحافیوں کے ٹوئیٹ اٹھا کے دیکھ لیجئے انہیں نواز شریف کی کوئی خامی اور عمران خان کی کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر صحافی کسی ایک دھڑے سے بھی وابستہ ہے تو وہ اپنے دھڑے کی خامیاں بھی بیان کرے۔ ہمارے کئی دوست یہاں مثال دے سکتے ہیں کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کی فکری اور صحافتی جدوجہد کرنے والے اس وقت خود پر لعنتیں بھیج رہے ہیں اور خود کو الو کے۔۔۔۔ تک قرار دے رہے ہیں، اگرچہ میری نظر میں وہ اپنے بارے میں سو فیصد درست کہہ رہے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب آنکھوں کو دھوکا ہے، وہ لفظوں کی پٹاری سے کبوتر نکالتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہوجاتا ہے اور حقیقت میں وہ نہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی ایک نااہل حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوتے ہیں۔
سچ پوچھئے تو صحافیوں کی کئی ایک مجبوریاں بھی ہیں، جی ہاں، ان میں ایک مجبوری مال کمانا بھی ہوسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک خاص نکتہ نظر رکھنے والے صحافی کروڑوں روپوں کی گاڑیاں، فارم ہاوسز ہی نہیں بلکہ جہازوں تک کے مالک بن جاتے ہیں، ان کے گھروں میں جائیں تو مین گیٹ سے ڈرائنگ روم تک جاتے ہوئے بندہ تھک جاتا ہے مگر مسائل اس سے ہٹ کر بھی ہیں۔ جب سے الیکٹرانک میڈیا آیا ہے صحافیوں کی وابستگیاں بھی ان کی قیمت لگواتی ہیں اور بہت سارے مالکان یہ دیکھ کر تنخواہ دیتے ہیں کہ اس صحافی کا تعلق کس دھڑے سے ہے۔ اس میں صحافیانہ صلاحیتیں یعنی درست خبر کی تلاش اور مدلل تجزئیے کا کرنا ہرگز ہرگز ضروری نہیں ہے کہ ایک بڑے چینل کے وفاقی دارالحکومت جیسے شہر میں بیورو چیف ہوتے ہوئے ہر تھوڑے دنوں بعد ایک بونگی آجاتی ہے اور میرٹ پر پوچھیے تو وہ پرچی کلرک کی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔ کارکن صحافیوں کو کسی ایک پارٹی کا حامی بنانے میں بیٹ سسٹم، بھی کردارادا کرتا ہے اور رپورٹر کسی ایک جماعت کا ایکسپرٹ، ہوجاتا ہے۔
صحافیوں کے لئے سوشل میڈیا نے بھی مسائل پیدا کئے ہیں کہ وہاں ان کو فالووردرکار ہوتے ہیں جن کے حصول کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ عمران خان کو برا بھلا کہو تو نواز لیگ والے جوق در جوق فالو کر لیں گے اور نواز شریف کو جگتیں لگاو تو پی ٹی آئی والے اور والیاں صدقے واری ہونے لگیں گے لیکن جہاں آپ نے غلطی سے دونوں کے بارے سچ بولنا شروع کیا تو دونوں ہی آپ کو کرپٹ، لفافہ اور لوٹا کہتے ہوئے ان فالو کر جائیں گے۔ میں نے دیکھا ہے کہ چوزے چوزے سے رپورٹر مختلف پارٹیوں کے سوشل میڈیا ایکٹیویٹس کو پاگل بنا کے اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ سیاسی کارکنوں میں اسی سے نوے فیصد ذہنی غلام ہوتے ہیں اور انہیں ایسے دلائل درکار ہوتے ہیں جو ان کے لیڈر کے گوبر کو حلوہ اور ان کے مخالف کے حلوے کو بھی گوبر ثابت کر سکیں، یہ کیمیکل سیاسی رہنماوں کے علاوہ صحافیوں کے پاس بھی ہوتا ہے۔ یہیں سے ان صحافیوں کے تعلقات بن جاتے ہیں اور یہ تعلقات انہیں پابند کرتے ہیں وہ اپنے دھڑے کی خامیوں کو نظرانداز کر دیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے جیسے سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر کی ویڈیو سامنے آئی تو وہی لوگ جنہیں چئیرمین نیب کی ویڈیو بہت گندی اور واہیات لگ رہی تھی انہیں یاد آ گیا کہ یہ ذاتی معاملات ہیں اور اصل غلط بات ہی ان کی ویڈیو بنانا ہے۔ غیر جانبدار صحافی صرف ایک طرح زندہ رہ سکتا ہے کہ وہ کسی بڑے چینل میں پرائم ٹائم شو کر رہا ہوا ور اپنے شو میں سب کو برابر تنقید کا نشانہ بنا رہا ہو مگر اس کی نوکری کتنی دیر رہتی ہے اور وہ کتنی دیر بڑا صحافی رہتا ہے، وہ اس کی طر ف سے کسی بھی ایک غلطی ہونے تک ہے۔ بڑے سیاسی دھڑے اپنے اپنے صحافیوں کی غلطیوں بلکہ بلنڈرز کا بھی دفاع کرتے ہیں اور یوں صحافی اپنا تحفظ اور بقا ہی اس میں سمجھتے ہیں کہ کوئی اس خطرناک پروفیشن میں ان کی پشت پرموجود ہو جو ان سے ہونے والی کسی ہینکی پھینکی پر ان کے گھر آسکے، ان سے اظہار یکجہتی کر سکے، ان سے زیادتی کرنے والوں پر دباو بڑھا سکے۔
اچھا چلیں، ساری بحث چھوڑیں، اس صورتحال میں آپ بتا دیں کہ غیر جانبدار صحافی کون ہے جس پر کسی ایک دھڑے کی چھاپ نہیں ہے۔ جس کی سوشل میڈیا پر وفائل کے نیچے اسے گالیاں دینے والوں کی قطاریں نہیں ہیں۔ یقین کیجئے کہ اگر کوئی صحافی غیر جانبدار ہے تو وہ ہرگز بڑا صحافی نہیں ہے۔ وہ بڑا اور کامیاب صحافی بنتا ہی اس وقت ہے جب وہ صحافی کے ساتھ ساتھ کسی دھڑے کا وکیل اور ترجمان بنتا ہے اور وہ دھڑا اس کی واہ واہ کرتا ہے، اس دھڑے کے بڑے لوگ اس کی نوکری کے محافظ ہوتے ہیں اور کارکن اس کی مقبولیت اور شہرت کے، یوں وہ ایک نظریاتی صحافی کا درجہ بھی پاتا ہے۔