میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا، پی ڈی ایم کا آخری جلسہ بھی ہو گیا، کیا لانگ مارچ ہو سکے گا، استعفے دئیے جا سکیں گے اور اس کے نتیجے میں سینیٹ کا الیکٹوریل کالج ختم ہو سکے گا۔ میں نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ کیا آپ پی ڈی ایم کے جلسے کوکامیاب سمجھتے ہیں تو وہ بولے، پہلے دوسرے سوال کو ڈسکس کرلیتے ہیں۔ جب اپوزیشن پر دھڑا دھڑ یف آئی آر ہو رہی ہوں، وزیراعظم کی سطح پرساؤنڈ سسٹم اور کرسیاں تک دینے والوں کو مقدمات درج کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہوں جوشائد کسی ڈپٹی کمشنر کو بھی زیبا نہ ہو۔ تم نے ابھی چند روز قبل ہی سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی پولیسنگ آف دی پولیس کے حق میں دو کالم لکھے ہیں مگر ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ ان کے دور کے سیاسی مقدمات ان کی تمام تر کارکردگی کو غائب کر دیں گے تو اعداد و شمار کے مطابق ان سے پہلے نواز لیگ پر مقدمات کی تعداد چار سے پانچ تھی مگر مریم نواز کی نیب کے دفتر والی ریلی سے اب تک 28 نئے مقدمات درج ہو چکے ہیں، جن میں 476 لیگی رہنماوں کو نامزد کیا اور 3900 کو نامعلوم رکھا گیا ہے جو پولیس کو فری ہینڈ دیتا ہے کہ کسی بھی حکومت کے حکم پر اغوا کرکے اسے قانونی رنگ دے دے جبکہ مجموعی طور پرگوجرانوالہ، فیصل آباد اورکراچی سمیت اڑتالیس نئے مقدمات کا اندراج ہوا ہے۔ ابھی ان میں وہ مقدمات شامل نہیں جو براہ راست ساونڈ سسٹم دینے والوں پرکئے جا رہے ہیں جیسے ڈی جے بٹ کا مقدمہ یا بٹ کڑاہی والوں پر مقدمہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشترمقدمات کے مدعی سرکاری پٹواری ہیں۔
پروفیسر صاحب بولے، حکومت کی طرف سے اجازت نہ دئیے جانے کے ساتھ ساتھ کورونا کا ڈر بھی ہے، یہ بھی دیکھو کہ اگر کسی محلے میں کورونا سے فوتگی ہوجائے، کسی کا کوئی پیارا کورونا میں مبتلا ہوجائے یا کسی کا علاقہ ہی سیل ہوجائے تو وہ غیر معمولی طور پر خوفزدہ ہوجاتاہے اور اس جلسے میں تیسری رکاوٹ موسم بھی بنا۔ تیرہ دسمبر کی رات انتہائی سرد تھی اور دن ایک بجے کے وقت کا اعلان کر کے جلسے کو غیر ضروری طور پر مغرب کے بعد شروع کیا گیا اور رات ساڑھے نو بجے تک کھینچا گیا۔ اب یہ بتاو کہ ایک شخص جو ایک بجے کے وقت کا سن کرتین، چار بجے بھی پہنچا ہو اس کے لئے مینار پاکستان کی ٹھنڈی ٹھار گراونڈ میں چھ گھنٹے گزارنا کس طرح ممکن تھا۔ لاہور کے جلسے کی کامیابی کی پوری ذمے داری مسلم لیگ نون پر تھی اورجناب عطاءالحق قاسمی کی دلیل اپنے اندر وزن رکھتی ہے کہ لاہوریوں نے جی ٹی روڈ پر اور فیروز پور روڈ پر مریم نواز کو جلسے سے پہلے ہی سن لیا اور دیکھ لیا اور یوں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ لاہوریوں کا شوق ان کے گھر کے دروازے پر ہی پورا ہو گیا تو انہیں خوارہونے کی کیاضرورت تھی۔ یہ الگ سوال ہے کہ کس رکن اسمبلی کے ذمے کتنے لوگ لانا تھا اور وہ کتنے لایا۔ جہانزیب برکی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے لوگ اڑھائی تین ہزار تھے اور شائد حقیقت میں اس سے بھی کہیں کم ہوں کہ جب لاہور میں بلاول بھٹو زرداری کی سالگرہ کی چالیس تقریبات منعقد کی جار ہی تھیں تو ہرجگہ وہی پرانے سو، ڈیڑھ سو جیالے ہوتے تھے۔ جو جیالے بلاول کی سالگرہ کی تقریب میں نہیں گئے وہ جلسے میں کب، کہاں اور کیسے آئے ہوں گے۔
بہرحال، اس صورتحال میں اگر جلسہ ہو گیا ہے تو یہی بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ مان لینا چاہئے کہ اس جلسے کی حاضری بہرحال ملتان اور پشاور سے بہت بہتر تھی۔ لاہوری جلسہ گاہ، مینار پاکستان کے سامنے سڑک تک کی جگہہ تھی جہاں اب سڑک ختم کر کے گیٹ لگا دیا گیا ہے، یہ وہی جگہ ہے جسے شہباز گل نے اپنے ٹوئیٹس میں دکھایا ہے جبکہ مینار پاکستان کے پیچھے والی جگہ اب بھی خالی تھی اور پہلے بھی وہاں بادامی باغ والے لاری اڈے تک کرکٹ گراونڈز ہواکرتی تھیں لہذا پی ڈی ایم کے جلسے کے لئے اتنی ہی جگہہ تھی جتنی جگہہ پر اس سے قبل عمران خان نے اپنا وہ جلسہ کیا تھا جس کے بارے میں کبھی کہا جاتا ہے کہ پانچ لاکھ شرکا تھے اور کبھی ان کی تعداد دس لاکھ بتائی جاتی ہے تو کیا اسی اوراتنی ہی جگہ پر نون لیگئے محض پانچ یادس ہزار تھے؟
میں نے کہا، جلسہ ہو گیا، اب کیا ہو گا، اصل سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن اپنا استعفا بم چلا سکے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ اپوزیشن بہر صورت سینیٹ کا الیکٹورل کالج ختم کرنا چاہتی ہے کہ اگر سینٹ انتخابات ہوگئے تو اس کے نتیجے میں گیم ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ میں نے رائے ظاہر کی کہ استعفا بم چلانے میں دیر ہو گئی ہے۔ اب اگر پوری اپوزیشن بھی استعفے دے دے تو سپیکر انہیں چھ ماہ تک روکنے کی قانونی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ اس دوران ایک ایک رکن کوبلا کر پوچھ بھی سکتے ہیں کہ تم بغیر کسی دباو کے اپنی مرضی سے استعفیٰ دے رہے ہو اور اسی دوران ارکان پر استعفیٰ نہ دینے کے لئے بھی نامعلوم جگہ سے دباو آ سکتا ہے۔ ارکان اسمبلی اس وقت تک ارکان اسمبلی سمجھے جائیں گے جب تک ان کا استعفیٰ قبول اور نوٹیفائی نہ ہوجائے اور اسی دوران سینٹ انتخابات کا انعقاد ہوجاتا ہے تو حکومت کلین سویپ کر جائے گی۔ اپوزیشن ان انتخابات میں حصہ نہیں لیتی تب بھی وہ کسی عدالت سے انہیں غیر آئینی اور غیر قانونی بھی ڈیکلئیر نہیں کروا سکے گی اور اسی شغل میلے میں اگلے عام انتخابات کا وقت آجائے گا۔
پروفیسر صاحب بولے، اپوزیشن کی تحریک میں اس وقت چاہے سامنے مریم اور بلاول کے چہرے ہوں مگراس کے پیچھے کچھ تجربہ کار اور کچھ طاقت ور ہاتھ ضرور ہیں۔ یہ چھوٹی بات نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری سینیٹ انتخابات رکوانے کے لئے سندھ اسمبلی توڑنے تک پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ کیا تمہیں یہ عام بات لگتی ہے کہ میاں نواز شریف جیل کی سلاخوں سے نکل کر پچھلے ایک برس سے لندن میں موجود ہیں۔ مریم نواز سزا یافتہ ہونے کے باوجود نہ صرف آزاد ہیں بلکہ دھڑلے سے جلسے جلوس کر رہی ہیں اور حکومت بے چاری میں اتنی جان بھی نہیں کہ انہیں روک سکے۔ جو لوگ استعفے دیں گے اور جو لوگ استعفے دلوائیں گے وہ اس لئے نہیں دیں گے اور دلوائیں گے کہ اس کے بعد بھی نظام اسی طرح چلتا رہے۔ یوں بھی سینٹ کے الیکشن اگر اپوزیشن کے بغیر ہو گئے اور اپوزیشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی بجائے عوامی اسمبلیوں میں موجود ہوئی تو اس کے بعد پارلیمنٹ کی آئینی، سیاسی اور اخلاقی حیثیت پر بہت سارے سوا ل اٹھ جائیں گے۔ پارلیمنٹ دو ٹانگوں پر کھڑی ہوتی ہے، ایک حکومت اور اپوزیشن، یاد رکھو کہ لنگڑے لوگ کبھی لمبی دوڑ کا حصہ نہیں بن پاتے، وہ حصہ لے بھی لیں تو جلد ہانپ کے گر جاتے ہیں اور اپنے دانت تڑوا لیتے ہیں۔ حکومت کے جو درشنی سیاسی پہلوان اچھل اچھل کر اپوزیشن کو مستعفی ہونے کے ہُشکارے دے رہے ہیں وہ جان لیں کہ اپوزیشن کا اسمبلیوں میں بیٹھا اپوزیشن کے نہیں خود حکومت کے مفادمیں ہے۔ حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ جن لوگوں نے نواز شریف کو جیل سے لندن پہنچایا جو مریم نواز کو ہر طرح کی آزادی او ر سہولت فراہم کر رہے ہیں اور سوچنا چاہئے کہ آنے والے دنوں میں وہ مزید کیا کر سکتے ہیں، مزید کیا کروا سکتے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے ٹھنڈی سانس بھری اور بولے، حکومت اور اپوزیشن تو صرف چہرے ہیں۔ یہ صرف باکسرز کے دستانے ہیں خود باکسرز نہیں ہیں۔ اپنی تاریخ کا مطالعہ کرو اور جان لو کہ اصل لڑائی کہیں اور لڑی جا رہی ہے۔ دعا کرو، اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت کرے، پاکستان کے عوام کی حفاظت کرے، پاکستان کی حفاظت کرنے والوں کی حفاظت کرے۔ میں نے صدق دل سے کہا، آمین، اور اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر لئے۔