لاہور جیسے شہر میں پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ، جی سی یوکو چھوڑ کر، اچھے میرٹ والے تمام کالجوں جیسے ایف سی کالج، اسلامیہ کالج سول لائنز، سائنس کالج وحدت روڈ پراسلامی جمعیت طلبا قابض، ہے۔ آپ لفظ قابض پر اعتراض کرسکتے ہیں لیکن جب سٹوڈنٹس یونینوں کے انتخابات ہی نہیں ہوں گے تو ہم غیر جمہوری طور پر موجود تنظیموں کو قابض ہی کہہ سکیں گے یوں اس کالفظ کا بوجھ جمعیت پر نہیں بلکہ ان حکومتوں پر ہے جوخواہش کے باوجود بھی تعلیمی امن برقرار نہ رہنے کے خوف سے ان انتخابات سے بھاگتی ہیں۔ اگر آپ اپنے روایت اور مذہب پسند معاشرے میں جمعیت کے بارے میں رائے جاننا چاہیں تو اس کی سپورٹ کرنے والے بہت سارے لوگ ملیں گے۔ جمعیت اگرچہ جماعت اسلامی کا سٹوڈنٹس ونگ ہے مگر اس کی سپورٹ کرنے والے جماعت اسلامی کے ووٹروں کی تعداد سے بھی زیادہ ملتے ہیں۔ وہ اس کی حمایت یوں کرتے ہیں کہ جمعیت تعلیمی اداروں میں اسلام کی بات کرتی ہے، وہ قرآن اور حدیث کے دروس کا اہتمام کرتی ہے، کردارسازی کوبنیادی اہمیت دیتی ہے۔ میں نے سوشل میڈیا پر جمعیت کے بارے پوچھا کہ یہ رحمت ہے یا عذاب، تو یہ پوسٹ جمعیت کی سوشل میڈیا مینجمنٹ کا شکار ہونے کے باوجود کچھ ایسی آرا دے گئی جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رائے درست ہے کہ بہت سارے خاندان اپنی بچیوں کے لئے پنجاب یونیورسٹی کا چناو ہی اس لئے کرتے ہیں کہ وہاں جمعیت ہے جو جامعہ پنجاب کو ایسے کئی اداروں کے مقابلے میں والدین کے لئے قابل اعتماد بناتی ہے جہاں جمعیت نہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بڑے شہروں سے باہر ہمیں انجمن طلبا اسلام ملتی ہے جو بریلوی مکتبہ فکر کے طالب علموں کی تنظیم ہے۔ جمعیت والے جس طرح جماعت اسلامی سے تعلق نہیں مانتے اسی طرح اپنے دیوبندی مکتبہ فکر تک محدودہونے کو بھی نہیں مانتے جو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کا مسلک تھامگر اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عام نوجوانوں میں اس وقت بھی مذہب ایک بڑی ڈرائیونگ فورس ہے۔ مجھے جمعیت پر اعتراض ہے کہ وہ جامعہ پنجاب سمیت دیگر اداروں میں دوسری طلبا تنظیموں کوکام نہیں کرنے دیتی تواس کا جواب ہے کہ جن سرکاری تعلیمی اداروں میں دوسری تنظیمیں ہیں کیا وہ جمعیت کو کام کرنے دیتی ہیں جیسے ایم اے او کالج، دیال سنگھ کالج وغیرہ وغیرہ۔ آپ کو جمعیت کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ وہ جماعت اسلامی کی طرح اپنے اندر جمہوریت کو لئے ہوئے ہے جس کا ہمیں دوسری طلبا تنظیموں میں انتہائی فقدان نظر آتا ہے جیسے مسلم لیگ نون پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے مگر اس کے سٹوڈنٹس ونگ کے صدر ہمارے دوست سابق رکن اسمبلی رانا محمد ارشد ہیں جن کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح آپ آئی ایس ایف اور پی ایس ایف کی تنظیم کو ڈھونڈنے نکلیں گے تو آپ کو وہی لوگ ملیں گے جو غیر منتخب ہیں اوربرس ہابرس سے عہدوں پر ہیں، ہاں، ایک دلچسپ سوال ہے کہ اگر جمعیت اتنی ہی اچھی ہے تو خود جماعت اسلامی کے لوگوں کی بنائی ہوئی یونیورسٹیوں میں کیوں نہیں ہے؟
جمعیت کو پنجاب یونیورسٹی کے اندر ایم ایس ایف، آئی ایس ایف اور پی ایس ایف جیسی تنظیمیں چیلنج نہیں دیتیں بلکہ ان کے سامنے پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے طالب علموں کی کونسلز ہیں۔ اب وہاں اول الذکر تینوں تنظیمیں کیوں موجود نہیں تو اس کا جواب مسلم لیگ، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی والے ہی دے سکتے ہیں۔ جمعیت کو اپنے مقابلے میں پروگریسو سٹوڈنٹس ملتے ہیں مگر جمعیت والوں کا کہنا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لمز جیسے اداروں سے نکلتے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے ہولڈ کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جمعیت پر تنقید کے دوبڑے ایونیوز ہیں، پہلا یہ کہ جمعیت والے بدمعاشی کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ لڑکیوں کی آزادی کے خلاف ہیں۔ پہلے اعترا ض پر سوال ہے کہ کیا قائدا عظم یونیورسٹی اور اسلامک یونیورسٹی وغیرہ سے زیادہ پنجاب یونیورسٹی کا تعلیمی ماحول خراب ہے تو اس کا جواب ہے کہ نہیں اور دوسرے سوال کا جواب کم از کم ہمارے معاشرے میں بہت پیچیدہ ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمار ے تمام نوجوان ہی غیر ذمے دار ہیں اوروہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کی بجائے عشق معشوقی کے لئے آتے ہیں مگر دو، چار فیصد تو ایسے ضرور ہیں۔ یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس میں غلطی کرنا اور گمراہ ہوجانا بہت آسان ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا جمعیت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جہاں لڑکے اور لڑکی کو بیٹھے ہوئے دیکھیں، وہاں خدائی فوجدار بن کر پہنچ جائیں، ان کے والدین تک اطلاع پہنچانے سمیت دیگر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ یہ معاملہ میری نظر میں متنازع ہے کہ میں ایک طرف ایک اسلامی اور باوقار ماحول کو برقرار دیکھنا چاہتا ہوں، میں نہیں چاہتا کہ لڑکیاں تعلیمی اداروں میں جینز پہنے، اپنا سرکسی لڑکے کی ٹانگ پررکھے سگریٹ کے کش لگا رہی ہوں مگر دوسری طرف جمعیت کے از خود لئے ہوئے اختیارات بھی قبول نہیں ہیں کہ کسی مہذب ریاست میں اخلاقی اور انتظامی امور پرکسی گروہ یا جتھے کوتھانے داری کاحق کیسے دیا جا سکتا ہے۔ الزام یہ بھی ہے کہ جو طالب علم اپنی کلاس، دوستوں یا سٹڈی سرکل میں بھی سوشلزم، لبرل ازم یا دیگر خیالات کا اظہار کرتا ہے اسے بھی دشمن کی صف میں شامل کر کے ٹارگٹ بنا لیا جاتا ہے۔
جمعیت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے پنجاب یونیورسٹی میں امتیازی صنفی قوانین لاگو کروا رکھے ہیں تو اس کا جواب تو محترم وائس چانسلر ہی دے سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ سابق وائس چانسلر جناب مجاہد کامران کے دورمیں جمعیت کو ایک ٹف ٹائم دیا گیا جس کے مقابلے میں ا ب جمعیت والے کافی ریلیکس نظر آتے ہیں۔ لڑکیاں شکایت کرتی ہیں کہ انہیں مغرب کے بعد ہاسٹلوں سے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا۔ لڑکے رات نو بجے تک لائبریریوں میں بیٹھ کے پڑھ سکتے ہیں مگر لڑکیوں کے لئے مغرب سے پہلے واپسی ضروری ہے۔ لڑکیاں اپنے ہاسٹلوں کے باہر بھی واک نہیں کر سکتیں جبکہ لڑکوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انتظامیہ کو سیکورٹی بہتر بنا کے لڑکوں اورلڑکیوں کے لئے ایک جیسے ضوابط بنانے چاہئیں مگر یہاں بھی میں کفیوژ ہوجاتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ کوئی زیادتی، کوئی سانحہ ہو گیا تو اس کی جواب دہی کیا ہمارے وہ دوست کریں گے جو قواعد و ضوابط نرم کروانا چاہتے ہیں۔ میرے ارد گرد ابھی ایسے والدین موجود ہیں جو اپنی بچیوں کو مخلوط تعلیم کے اداروں میں بھیجتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کئی نجی اداروں نے بھی اپنے قواعد ایسے سخت رکھے ہیں کہ وہاں ہینکی پھینکی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے مگر دوسری طرف کئی ادارے ایسے بھی ہیں جہاں مادر پدر آزادی ہے، وہاں ایک محدود طبقے کی پارٹیوں اور گیٹ ٹوگیدرز کی تصویریں اور ویڈیوزان والدین کو مزید ڈرا دیتی ہیں۔
میں نے جمعیت والوں سے مکالمہ کیاجس کا اہتمام سیکرٹری انفارمیشن جمعیت جامعہ پنجاب ابراہیم شاہد نے کیا، جمعیت کے ناظم ضیا جان اور سیکرٹری ارسلان بلوچ نے کہا کہ اب جمعیت کے خلاف عورت کارڈ جیسے گھسے پٹے الزامات نہ دہرائے جائیں۔ میں نے جانا، جمعیت کے ساتھ بھی محبت اور نفرت کی انتہا والا معاملہ ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جو اسے تعلیمی اداروں میں اللہ کی رحمت سمجھتے ہیں اور دوسری طرف وہ ہیں جواسے ایک زحمت اور عذاب۔ فیصلہ اپنی اپنی سوچ، نظرئیے، ماحول اور ضرورت کے مطابق اپنا اپنا ہے۔