یہ اکتوبر 2011 تھا جب میڈیا کوباقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے مطابق احکامات دیتے ہوئے عمران خان کا بخار چڑھایا گیا تھا اور پھر اس کے ساتھ سوشل میڈیا میں یہ بخار بڑھ کے ٹائیفائیڈ کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ہمارے بڑے بڑے تجزیہ کار اس بخار کا شکار ہو گئے تھے۔ انہیں عمران خان کی شکل میں ایک مسیحا نظر آ رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان ان خاندانوں کو سیاست میں لے آیا ہے جو اس سے پہلے سیاست کو کوئی گندی شے، کوئی شجر ممنوعہ سمجھتے تھے۔
وہ اس کلاس کے سیاست میں آنے کو انقلاب قرار دے رہے تھے جس کلاس کے خلاف خود انقلاب آنا چاہئے۔ یہ ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹوں کی فیملیاں تھیں۔ یہ ایک کلاس تھی جس کے بچے مہنگے اداروں میں پڑھتے تھے۔ ان کے پاس بلا کی خود اعتمادی تھی۔ ان میں سے بہت سارے فر فر انگریزی بولتے تھے۔ یہ دوسروں کو متاثر کرنے بلکہ احساس کمتری کا شکار کرنے کی خصوصی تعلیم، تربیت اور ماحول رکھتے تھے۔ ان کی نظر میں ان سے اختلاف کرنے والا ہر شخص جاہل تھا، نااہل تھا، کرپٹ تھا۔
عمران خان کے ساتھ ملنے والوں میں دوسری کلاس وہ تھی جنہیں پرانی سیاسی جماعتوں میں اہمیت نہیں ملی تھی۔ کوئی ٹکٹ سے محروم رہا تھا اور کوئی من پسند عہدے تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ تیسری کلاس وہ تھی جو ہمیشہ سے موقع پرست رہی ہے۔ اسے علم ہوا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا گھوڑااب عمران خان ہے تو انہوں نے اس پر کاٹھی ڈالنے میں دیر نہیں لگائی تھی اور اگر کسی نے دیر بھی لگائی تھی تو اسے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ہانک کر عمران خان تک پہنچا دیا گیا تھا۔
ہم میں سے بہت سارے کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس کسی کو بنانے کا ہنر تو ہے مگر اس کو مٹانے کا نہیں اور ان کے پاس پیپلزپارٹی سے نواز لیگ تک اپنی تھیوری کو ثابت کرنے کے لئے بہت ساری مثالیں بھی موجود ہیں مگر دوسری حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس کٹ ٹو سائز، کرنے کے بھی بہت سارے آزمودہ اور کامیاب طریقے موجود ہیں۔ مجھے ذرا جمہوریت کے آئیڈیلزم سے باہر نکل کر تجزیہ کرنے دیں۔ اس آئیڈیلزم سے اس لئے باہر نکلنا ہے کہ ہمارے جمہوریت مانگنے والے خود اپنے لئے جمہوریت کوپسند نہیں کرتے۔
اس وقت جدت اور جمہوریت کے سرخیل عمران خان ہی بنے ہوئے ہیں مگر وہ بھی اپنی پارٹی کے صدر تک مقدس اور محترم عہدے پر لوگوں کو اس طرح لاتے اور نکالتے ہیں کہ اس طرح تو کوئی چپڑاسی بھی نہیں رکھتا اورنکالتا۔ پارٹی کے اندر جمہوری اقدار کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور نواز لیگ بھی کوئی شاندارروایات نہیں رکھتیں۔ سو میں پوری طرح قائل ہوں کہ پاکستان میں مغربی طرز جمہوریت اپنی اصل صورت میں آنا اور لاگو ہونا ناممکن ہے۔ اس کی ایک وجہ وہ ہے جو ابھی بیان کی اور دوسری وجہ ہمارا خطہ ہے۔
کیا ہمارے ارد گرد چین، ایران، افغانستان وغیرہ میں مغربی جمہوریت ہے۔ بہت سارے ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتے ہیں مگر میری نظر میں وہ دنیا کی سب سے بُری جمہوریت ہے جو کشمیر سے آسام تک ظلم، زیادتیوں، نفرتوں اور تعصبات کی آماجگاہ ہے۔ ہمارے پاس بہت سارے وہ لوگ بھی موجود ہیں جو جمہوریت کو اپنے مذہب کے منافی سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ڈکٹیٹر شپ کسی بھی جمہوری سیٹ اپ کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اورمستحکم حکومت سمجھی جاتی ہے۔
میرے اس پورے تھیسز سے یہ مت سمجھئے گا کہ میں آمریت یا مقتدر حلقوں کی مداخلت کی وکالت کر رہا ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک سیاسی کارکن نہیں کہ خواب دیکھوں اور کسی قیادت کا مقدمہ لڑوں، میں ایک چھوٹا یا بڑا، اچھا یا براصحافی ہوں، ایک تجزیہ کار ہوں سومیرے سامنے جو حالات ہوں گے ان کا ہی تجزیہ کروں گا۔ میں نے نو مئی کے حالات و واقعات کے تناظر میں پیمرا کا وہ حکم نامہ دیکھا ہے جس میں پی ٹی آئی رہنماوں کے ایسے بیانات چلانے سے روکا گیا ہے جس میں نفرت اور تعصب ہو، جو ریاستی اداروں اور قومی سلامتی کے خلاف ہوں۔
میں مانتا ہوں کہ ہم ماضی اور حال میں ایسے احکامات کے ذریعے سو فیصد نتائج حاصل نہیں کرسکے مگر آپ کو بھی ماننا ہوگا کہ ہم نے اس سے واقعی کچھ نتائج حاصل بھی کئے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ وہ پتھر چاٹ کے واپس آ چکی ہیں جس کو عمران خان نے سر کی ٹکر مار دی ہے۔ عمران خان کا جرم، ذوالفقار علی بھٹو او رنواز شریف سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ پی ٹی آئی کے احمقین، اس کی سنگینی کا احساس ہی نہیں کر پا رہے۔ میں اس معاملے کو پہلی سطح پر ڈیل کرنے والوں سے گفتگو کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ عمران خان نے اپنی حماقتوں سے بہت ساروں کی جان لینے کی منصوبہ بندی پوری کر لی ہے۔ اس شخص کے اپنے بچے تو یہودیوں کی تحویل میں محفوظ ہیں مگر اس نے اپنے فالورز کو تختہ دار تک پہنچانے کا کام پورا کر لیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو تو خود مرے تھے یا نواز شریف تو خود جلاوطن ہوئے تھے مگر اس شخص نے ایک مثال کے مطابق، بندریا نے زمین گرم ہونے پر اپنے بچوں کو اپنے پیروں تلے داب لیا ہے۔ یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ خود جلنے سے بچ جائے گی۔ اس امر پر سیاسی اور قانونی رائے مکمل ہوچکی ہے کہ عمران خان کور کمانڈر ہاوس اور عسکری ٹاور پر حملوں کی منصوبہ بندی میں براہ راست چارج شیٹ ہوگا۔ کوئی اسے درست سمجھے یا غلط مجھے یہ سیاسی رہنما ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد ایک سو نو میں براہ راست سخت ترین سزا پاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ پانچ سات برس کے بعد کیا ہوگا مگر مجھے اب جو کچھ ہونے والا ہے وہ دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ مجھے اپنے سینئر دوستوں کے چند ہفتے پہلے کئے ہوئے تجزئئے یاد آ رہے ہیں جس میں وہ عمران خان کو بہت بڑی قوت قرار دے رہے تھے۔ ایسی قوت جو ناقابل شکست تھی مگر اب انہیں بھی اپنے تجزئیے واپس لینا پڑ رہے ہیں۔
مجھے کہنے دیجئے کہ ہم موروثیت کی بہت مخالفت کرتے ہیں مگر ذوالفقار علی بھٹو کا نام بھی اس کی بیٹی نے زندہ رکھا اور نواز شریف کی سیاست بھی اس کی بیٹی ہی زندہ رکھے گی مگر عمران خان کے پاس ایسی کوئی بیٹی نہیں ہے اور جو ہے وہ اس کا نام نہیں لے سکتا۔ اس وقت عمران خان کی سیاسی جائیداد حصے بخرے ہونے پر لگ گئی ہے۔
میں مانتا ہوں کہ پی ٹی آئی وہی ہے جو عمران خان ہے مگربہتر برس کے عمران خان کے بعد کیا ہے، کون ہے؟ ملتان کا شاہ محمود قریشی ہے؟ گجرات کا چوہدری پرویز الٰہی ہے؟ جہلم کا اسد عمر ہے؟ پنڈی کا اسد عمر ہے؟ سوات کا مراد سعید ہے؟ نوشہرے کا پرویز خٹک ہے؟ اس کا فیصلہ تب ہوگا جب جھاڑو پھر چکے گا، ایک مرتبہ پھر صفائی مکمل ہوگی۔