Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

کسی بھی حکومت کی پہلی ذمے داری امن و امان کی ہوتی ہے او ر اس کے بعد صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر جیسی سہولتیں آتی ہیں۔ خیبرپختونخوا اس وقت لہو لہان ہے۔ ایک طرف فتنہ خوارج ہے جسے واپس لانے اور پھیلانے میں عمران خان بطور وزیراعظم ذمے دار ہیں اوراس کے علاوہ قبائلی اور فرقہ وارانہ مسائل بھی ہیں۔ ان سے ہٹ کے دو بڑے مسائل غیر قانونی اسلحے اور منشیات کے ہیں، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیاں بھی عام ہیں یعنی جرائم کو باقاعدہ روزگار کا درجہ ملا ہوا ہے اس صوبے کے اڑتیس لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں جن میں سے سترہ ہزار باقاعدہ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز ہیں۔

پچھلے دس، بارہ برس میں صوبے میں صرف ایک میگا پراجیکٹ لایا گیا ہے جو بی آر ٹی کا ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ جو منصوبہ پنجاب نے اٹھائیس ارب روپوں میں مکمل کیا تھا اسے کے پی میں ایک سو اٹھائیس ارب روپوں سے بھی زیادہ خرچ کرکے ناقص رکھا گیا۔ اسی صوبے میں بلین ٹری منصوبے کا بھی شور مچا مگر آج تک کسی کو علم نہیں کہ ون بلین یا ٹین بلین ٹریز کہاں لگائے گئے۔

اس وقت ضلع کُرم کی صورتحال تشویش ناک ہے اور یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اسی برس جولائی میں بھی تصادم ہوا تھا جس میں کئی درجن جانیں چلی گئی تھیں۔ اب تین روز قبل پاراچنار سے کرم جانے والی سڑک پر دوقافلوں میں شامل دو سو گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا، مسلح دہشت گردوں نے چوالیس افراد کو قتل کر دیا اور تیس کے لگ بھگ کو شدید زخمی۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس کے بعد بھی ضلع کُرم کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی بلکہ اگلے روز ایک بازار کو جلا کے راکھ کر دیا گیا اور خواتین تک کو اغوا کرنے کی اطلاعات ہیں۔

گذشتہ روز خیبرپختونخوا کے سرکاری ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کی گئی جس میں وزیر قانون اور چیف سیکرٹری سمیت دیگر اہم ذمے دار سوار تھے اور خدا کا شکر ہے کہ اس سے کوئی بڑی اور خطرناک خبر نہیں بنی۔ ضلع کرم کے ساتھ ساتھ ضلع بنوں کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ چوالیس ہلاکتوں والی دہشت گردی سے پہلے وہاں فتنہ الخوارج نے فوج اور ایف سی کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا اور خود کش حملے میں بارہ جوان شہید ہو گئے۔ اس سے ایک روز پہلے بنوں میں فائرنگ ہوئی اور گاڑی میں سوارچار افراد کو مار دیا گیا۔ اس سے بھی ایک روز پہلے ایک چیک پوسٹ سے سات پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا گیا۔

آپ پشاور سے شائع ہونے والے اخبارات کی فائل اٹھا لیں، آپ کو شائد ہی کوئی اخبار ایسا ملے جس میں ہر روز کسی نئے سانحے اور کسی نئے المیے کی کہانی نہ ملے۔ میں نے کہا، کسی بھی حکومت کی پہلی ذمے داری امن و امان کی ہوتی ہے اوراس کے بعد صحت اور تعلیم۔ حال یہ ہے کہ صحت کارڈ جیسے بڑے نعرے کے باوجود پنجاب کے ہسپتال، پختونوں کے بزرگوں اوربچوں سے بھرے پڑے ہیں کیونکہ وہاں علاج کی سہولیات ہی نہیں ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جب خیبرپختونخوا کے اضلاع لہولہان ہیں، آگ میں جل رہے ہیں تو خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ کہاں ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ عمران خان نے جہاں سے بھی اچھا یا برا، سچا یا جھوٹا مینڈیٹ لیا وہاں ا س نے بدترین قیادت دی۔ اس سے پہلے پنجاب پر عثمان بزدار اور خیبرپختونخوا پر محمود خان نامی جیسے نااہل نازل کئے رکھے اور اب کے پی عوام کی ووٹ کی غلطی کی سزا انہیں علی امین گنڈا پور جیسے عذاب کومسلط کرکے دی جا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ علی امین گنڈا پور اسی وقت ضلع کرم میں ڈیرے ڈال کے بیٹھ جاتا جب جولائی میں درجنوں کو مار دیا گیا تھا اورایک پلاٹ کے تنازعے پر فرقہ وارانہ کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔

پی ٹی آئی کے نابغے کہتے ہیں کہ وہاں امن و امان کا مسئلہ ڈسکس نہیں ہو رہا اور میں کہتا ہوں کہ یہ پی ٹی آئی حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ وہاں چار، چار درجن لوگ مار دئیے جاتے ہیں اور وہاں کے وزیراعلیٰ کا گریبان کوئی نہیں پکڑتا۔ اتنا بڑا واقعہ ہوگیا اور علی امین گنڈا پور نامی صوبے کا چیف ایگزیکٹو وہاں گیا تک نہیں۔ کرم اور بنوں جانے کی بجائے یہ نمونہ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کی حماقت کر رہا ہے۔ جب ڈبل ون ڈبل ٹو کی گاڑیاں ان علاقوں میں بھیجنی چاہئے تھیں یہ سیاسی جلوسوں کے ساتھ لا رہا ہے۔ جب پولیس کی اضافی نفری وہاں تعینات ہونی چاہیے تھی یہ پولیس اہلکاروں کو اسلام آباد پر حملے کے لئے اکٹھا کر رہا ہے۔ اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے تاجروں کی رٹ پر فیصلہ دیتے ہوئے فتنے کے احتجاج پر پابندی لگائی ہے تو دوسری طرف پشاور ہائی کورٹ نے بھی قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی احتجاج کر سکتی ہے مگر اس میں سرکاری وسائل کا استعمال نہیں کرسکتی۔

مجھے کہنے میں عار نہیں کہ اگر ہم ایک مہذب، آئینی اور جمہوری ملک میں ہوتے تو اس قسم کے چیف ایگزیکٹو کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہوتا۔ اس سے خود اس کی کابینہ اور اسمبلی کے ارکان تابڑ توڑ سوال کر رہے ہوتے مگر المیہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے او رجدت پسند ہونے کے دعوے دار ہونے کے باوجود یہ محض ذہنی غلام ہیں۔ ایک طرف پنجاب ہے جہاں ہرروز عوامی سہولت کا ایک نیا منصوبہ آ رہا ہے اور دوسری طرف خیبرپختونخوا ہے جہاں عوام پر ہر روز ایک نئی قیامت ٹوٹ رہی ہے۔ یہ وہ بدقسمت صوبہ ہے جو امن ہی نہیں روزگار کے حوالے سے بھی خالی ہے۔ یہاں کے عوام پنڈی، لاہور سے کراچی تک صحت، تعلیم اور روزگار کے لئے مہاجر ہوئے، ہوئے ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ صوبے کے عوام کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور اب وہ اپنی جمہوری غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ عمران خان نے محمود خان اور گنڈا پور جیسا نمونہ عثمان بزدار کی شکل میں پنجاب پر بھی ٹھونسا تھا مگر خدا کا شکر ہے کہ پنجاب کے عوام کی اکثریت نے عقل کی اور جھانسے میں نہیں آئے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا سٹیڈیم خیبرپختونخوا ہے جس کے چھ کروڑ عوام پچھلے بارہ تیرہ برس سے اپنی تباہی کا تماشا دیکھ رہے ہیں اورافسوس کا مقام ہے کہ اس کھیل کے ذمے داروں کو داد بھی دے رہے ہیں۔

میرا سوال الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے بھی ہے کہ اگر یہی شہادتیں پنجاب میں ہوجاتیں تو کیا یہ میڈیا ایک طوفان نہ برپا کر دیتا۔ کیا یہ حکمرانوں کی صلاحیتوں پر بڑے بڑے سوال نہ اٹھاتا۔ میں قصور کی زینب کے لئے انصاف کی خود آواز بنا رہا مگر جب ایسے واقعات خیبرپختونخوا میں ہوتے ہیں تو وہ ہیڈ لائنز میں کیوں نہیں آتے۔ کاش! آج خیبرپختونخوا کے ہزاروں اور لاکھوں لوگ علی امین گنڈا پور کے گھر کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور پوچھیں کہ تمہاری ذمے داری صوبے کا امن اور ترقی ہے، تم کرم اور بنوں جانے کی بجائے اسلام آباد کیوں جا رہے ہو؟ خیبرپختونخوا جل رہا ہے اوراس کا نیرو احتجاج کی بانسری بجا رہا ہے۔