موٹرویز کے مختلف سیکشنز "مرمت" کے لئے پچھلی شب سے بند کردیئے گئے۔ اسلام آباد کی حدود میں قائم پبلک ٹرانسپورٹ کے اڈوں کو ڈپٹی کمشنر کے حکم نامے کے ذریعے قناعتیں لگاکر بند کروادیا گیا ہے لاہور وغیرہ میں بھی یہی حالات ہیں۔ اسلام آباد سمیت چند دوسرے شہروں میں "کنٹینر میلہ" آب و تاب کے ساتھ شرع ہوچکا دوسری جانب پی ٹی آئی تادم تحریر اتوار کے ملک گیر احتجاج اور اسلام آباد مارچ پر ڈٹی ہوئی ہے۔
طرفین کے بیانات ہیں کہ آگ کے گولے جو برستے ہی جارہے ہیں ان ساری باتوں کے بیچوں بیچ عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان نے "دھماکہ" کردیا۔ بعض لوگ اس بیان کو عمران خان کی سیاست پر خودکش حملہ قرار دے رہے ہیں۔ وزیراعظم کہہ رہے ہیں سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات پر حملہ کرنے والوں کے عوام بازو توڑدیں گے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ بشریٰ بی بی نے اپنے ویڈیو بیان میں سعودی عرب کا نام نہیں لیا۔
پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ عمران خان کے سعودی عرب کے شاہی خاندان سے "نجی مراسم" ہیں ان مراسم سے خوفزدہ عناصر ہوائیاں چھوڑ رہے ہیں۔ یہ سطور لکھے جانے سے دو دن قبل بشریٰ بی بی نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا "عمران خان جب پہلی بار ننگے پائوں مدینہ منورہ گئے تو ان کی واپسی پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون آنا شروع ہوگئے۔ کہا گیا "ہم نے اپنے ہاں شرعی نظام ختم کرنے جارہے ہیں یہ تم کسے اٹھالے ہو یہ تو شریعت کا ٹھیکیدار ہے"۔
اب یہ کہنا کہ بشریٰ بی بی نے سعودی عرب کا نام نہیں لیا بچوں جیسی بات ہی ہوگی انہوں نے کیا کہا وہی جو ویڈیو میں موجود ہے۔ فقیر راحموں کہتا ہے شاہ اس ویڈیو بیان کی ٹیلیفون کہانی میں جملہ تو بس ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ "باجوہ یہ تم کسے اٹھالائے ہو؟"
اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو ہزارہ اٹھارہ سے عمران اور اس کے حامی فوج کے جھرلو برانڈ انتخابی نتائج سے اقتدار میں آنے کی تردید کرتے آرہے تھے لیکن بشریٰ بی بی کی بتائی صرف ایک بات نے کہ "ٹیلیفون کرنے والوں نے کہا کہ "باجوہ یہ تم کسے اٹھالائے ہو" سے آر ٹی ایس برانڈ انقلابی تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان کی جماعت اب جو جی میں آئے کہے وضاحتیں کرے ویڈیو بیان کی دُم کو مڑوڑیں، سچ یہ ہے کہ بشریٰ بی بی کے بیان سے انصافی سیاست کو نقصان پہنچا ہے اور یہ بھی کہ اس سے پاک سعودیہ تعلقات پر حرف گیری بھی ہوئی ہے۔
ماضی میں جب بشریٰ بی بی پر مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید ہوتی تھی تو انصافی کہتے تھے ایک خالص گھریلو عورت کی کردار کشی ہورہی ہے۔ کردار کشی والی بات اب خود بشریٰ بی بی نے بھی اپنے ویڈیو بیان میں کہی۔ وضاحتوں کی چاند ماری تھمے تو انصافیوں سے یہ سوال پوچھا جائے کہ اس ویڈیو بیان اور بم کو لات مارنے کی ضرورت کیا آن پڑی تھی؟
ایک خالص گھریلو عورت نے اس بیان کے لئے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا۔
ایک سادہ سی بات جو فوراً ذہن میں اتی ہے وہ یہ کہ ریاست مدینہ ثانی تعمیر کرنے کے خواہش مند عمران خان کی اہلیہ نے اپنے حامیوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے "یعنی میرے شوہر نامدار پاکستان میں شریعت نافذ کرنا چاہتے تھے اور نفاذ شریعت کے دشمنوں نے انہیں اقتدار سے ہٹادیا"۔
کچھ لوگ اس بیان اور پارا چنار سانحہ میں ربط تلاش کرتے دیکھائی دے رہے ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کیچڑ والے پانی کے تالاب میں مچھلیاں پکڑنے کی خواہش لے کر تالاب کے کنارے بیٹھ جائے۔
خیر چھوڑیئے آپ جس وقت یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اتوار 24 نومبر کی صبح ہوگی تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کے لئے یہ دن بہت اہم ہے اس کا ملک گیر احتجاج اور اسلام آباد مارچ اگر ناکام ہوئے تو احتجاجی سیاست کو دھچکا لگے گا۔ ویسے کیا دوسروں کو خاندانوں کا غلام قرار دے کر حقارت سے گفتگو کرنے اور گالی اچھالنے والے اپنے طرز عمل پر غور کرنے کی زحمت کریں گے کہ آج تو وہ خود بھی اندھی شخصیت پرستی کی ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کا رزق جھوٹ جھوٹ اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
ہمارے ہاں انصافی دیوانے، متوالے، جیالے، سابق سرخے حاضر سبزے (اسلام پسند) ان میں سے کوئی بھی کبھی اپنی ادائوں پر غورنے کی زحمت نہیں کرتا وہ کہتے ہیں نا کہ اپنی آنکھ کا تنکا جنہیں محسوس نہیں ہوتا وہ دوسرے کی آنکھ میں شہتیر تلاش کرلیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی سیاسی اٹھان نفرت اور احتجاجی سیاست پر ہوئی یہی اس کی زندگی کی ضمانت ہے۔ اس جماعت نے جس دن سیاسی اقدار کو اپنانے کا راستہ اختیار کیا نفرتوں کی بنیاد پر اس کے حامیوں کے بڑے طبقے کے ارمانوں پر اوس پڑ جائے گی لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ ایک دن وہ دن چند ماہ بعد آئے یا کچھ برسوں اور یا پھر ایک ادھ عشرے بعد، سیاسی اقدار کو اہمیت دینا ہی پڑے گی۔ نہیں دیتے تو ان کی مرضی۔
البتہ یہ سچ ہے کہ حکومت مانے یہ نہ مانے اس کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں اسلام آباد کو جس طرح ایک محصور شہر میں حکومت نے تبدیل کردیا ہے اس پر فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ " گلیاں ہوجان سنجیاں وچ نقوی یار پھرے"۔
فقیر راحموں کے وہ سارے خیالات و ارشادات جو ہم ان سطور میں نقل کرتے رہتے ہیں ان کے حوالے سے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ "ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی آرا سے متفق ہونا ضروری نہیں"۔ اچھا ویسے آپس کی بات یہ ہے کہ اس کی بات غلط بھی نہیں موٹرے کے مختلف سیکشن جنہوں نے "مرمت" کے نام پر بند کروائے ہیں ان بے شرموں کو اوباڑہ سے کراچی کے درمیان صوبہ سندھ کی حدود میں موجود قومی شاہراہ کی حالت زار کیوں نظر نہیں آتی قومی شاہراہ سے اربوں کے ٹال ٹیکس وصول کرنے والے ذیلی محکمے اور وزارت مواصلات دونوں میں اگر رتی برابر بھی شرم کا مادہ ہے تو چلو بھر پانی میں ڈوب مریں بلکہ یہ تجویز زیادہ مناسب ہے کہ اوباڑہ سے کراچی کے درمیان قومی شاہراہ پر جو کھڈے ہیں ان میں سے کسی کھڈے میں پانی ڈلواکر اگر ڈوب مرا جائے تو کم از کم "شہید سڑک" کا اعزاز مل ہی جائے گا۔
ہفتہ 23 نومبر کی صبح جب یہ سطور لکھ رہا ہوں پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے شہروں کوٹلی راولا کوٹ اور چند دوسرے مقامات پر پچھلے تین دن سے تازہ بہ تازہ کالے قوانین کے خلاف احتجاج جاری ہے یہ احتجاج اس قانون کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آزاد کشمیر کی حدود میں قائم کوئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت اور تنظیم کسی قسم کے اجتماع اور احتجاج کے لئے ایک ہفتہ قبل متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دینے کے پابند ہوں گے۔
ڈپٹی کمشنر حالات کے مطابق اجتماع و احتجاج کی اجازت دینے کے ساتھ اس کے لئے مقام اور وقت مقرر کرے گا اس نئے قانون کے تحت کوئی غیررجسٹرڈ تنظیم کسی قسم کا اجتماع یا احتجاج نہیں کرسکتی۔
عام الفاظ میں اس کالے قانون کی تشریح یہ ہے کہ یہ قانون جوائنٹ ایکشن کیمٹی کی سرگرمیوں پر پابندی کا ابتدائیہ ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے رواں برس بجلی کے بلوں کےٹیرف کے حوالے سے آزاد کشمیر کی کٹھ پتلی سرکار اور اسلام آباد کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا
اب آقا و غلام دونوں اپنے وچولوں (ایجنسیوں) کے تعاون سے اس جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا مکو ٹھپنے کے پروگرام کی ابتدا کرچکے ہیں۔
ستم یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کو بھارتی کشمیر میں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی دکھتی ہے لیکن پاکستانی کشمیر کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے اس کے پَر جلتے ہیں۔
حرف آخر یہی ہے کہ اس ملک میں قانون کی حاکمیت، آزادی اظہار عوامی جمہوریت یعنی عوام کی حاکمت کے خواب بس دیوانوں کے چونچلے ہیں ورنہ لوگ باگ تو سکیورٹی اسٹیٹ کے "نظامِ عدل" میں اطمینان سے جی بس رہے ہیں۔