ہمارے کچھ دانشور ہیں یا شائد علم ریاضی کے ماہر جو اچھی جمع تفریق کر لیتے ہیں، وہ مسلسل بتا رہے ہیں کہ حماس نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کا یہ مرحلہ شروع کرکے بڑی غلطی کی ہے۔ وہ مان رہے ہیں کہ اول اول اسرائیلیوں کا تاریخ کے بڑے جانی و مالی نقصانوں میں سے بڑا نقصان ہوا مگر آخر میں فلسطینی ہی بڑی تعداد میں مارے جائیں گے۔ جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہو رہی ہے جس کے بعد بڑے مظالم اور سانحات کی ایک نئی تاریخ لکھی جا سکتی ہے مگر اس پورے نقصان کے باوجود کیا ہمارے وہ دانشور درست ہیں جو اسرائیل اور اس کے مربی امریکا کی طاقت سے ڈرا رہے ہیں، تیسری اور چوتھی نسلوں تک پہنچنے والے اس ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کو حماقت قرار دے رہے ہیں۔
میں کانپ کے رہ گیا کہ پاکستان سے بھاگ کے امریکا جانے والے ایک نام نہاد دانشور نے کہا کہ اس جنگ کا اختتام حماس کی تباہی پر ہونا چاہئے کہ قتل عام کی ذمے داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ یہ دانشورانہ بددیانتی اور فکری مغالطے کی انتہا ہے، آہ، یہ غیر ملکی شہریتیں غریب ملکوں میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے انسانوں سے کیا کیا کروا لیتی ہیں، ضمیر بکوا دیتی ہیں اور انہیں اس کا علم تک نہیں ہوتا۔ وہ دانشور بظاہر امن کی بات کرتا ہے لیکن امن اگرقبضے کے تسلسل اور ظلم کی بقاکی قیمت پر ہو تو لعنت ہے ایسے امن ہے، ایسی سوچ پر، ایسی دانش پر۔
فلسطین سے کشمیر تک، جہاں جہاں مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ ہے وہاں وہاں جنگ ہر اصول، ہر ضابطے اور ہر دانش کے مطابق ناگزیر ہے، ہاں، کچھ جنگیں ناگزیر ہوتی ہیں، وہ نفع ونقصان اور جمع تفریق سے بالاتر ہو کے لڑنی ہی پڑتی ہیں۔ وطن کو ماں کہتے ہیں، مادر وطن، جس شخص کی ماں کسی غاصب کسی ظالم اور کسی کافر کے قبضے میں ہواور وہ اس وجہ سے اسے چھڑانے نہ جائے کہ ظالم کے پاس ڈنڈا ہے تو اسے میں ایسا ہی دانشور سمجھوں گا جیسے دانشور کا ذکر میں نے کیا۔ کیا ان کے دل و دماغ ان سے بغاوت نہیں کرتے۔ کیا ان کے بدن میں بہنے والا لہوان کے بدن کے اندر ٹکریں نہیں مارتا یا وہ بہت، بہت سرد ہوتا ہے جو عزت اور غیرت ہی نہیں بلکہ انصاف تک کو اپنے اندر منجمد کر دیتا ہے۔ یہ محفوظ، ٹھنڈے کمروں سے دانشوری کرنے والے انہیں غلط کہہ رہے ہیں جو اپنی جانیں دے کر ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔
کیا حماس کو علم نہیں تھا کہ جب وہ اسرائیل کی انٹیلی جنس ہی نہیں بلکہ مضبوط ترین اور جدید ترین دفاع کو توڑ کر ان کی سرزمین میں داخل ہوں گے تو ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ کیا ان کے پاس اتنی عقل نہیں تھی، وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کبھی واپس نہیں آ سکیں گے۔ کیا ان کی جمع تفریق اتنی کمزور تھی کہ انہیں علم نہ ہوتا کہ چند دنوں میں ہی ان کے چھ سو بچے مار دئیے جائیں گے اور دو ہزار شہری۔ میں نے پڑھا، حماس کو بے وقوف لکھا جا رہا ہے اور میں جانا کہ ہر بزدل ہر بے غیرت ہر بہادر اور ہر غیرت مند کو احمق ہی سمجھتا ہے۔ ہر بزدل اور ہر بے غیرت کی اپنی ہی ڈکشنری ہوتی ہے جس میں عقل کا مطلب ظلم کو برداشت کرنا اورفہم کی تعریف جبر کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کا فلسطین میں یہودی بالادستوں سے جھگڑا ہو یا ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں سے، یہ محض زمین کے نہیں بلکہ نظرئیے کے جھگڑے ہیں۔
میں اپنے دوستوں سے پوچھتا ہوں بلکہ معذرت کے ساتھ وہ میرے دوست کیسے ہوسکتے ہیں جن کی نہ سوچ میرے ساتھ ملتی ہے اور نہ ہی نظریہ مگر بہرحال وہ اپنے آپ کو عقلی اور فکری محاذ پر بڑے جغادری سمجھتے ہیں کہ اگرظلم کے خلاف مزاحمت کم عقلی اور بے سمجھی ہے تو پھر حل کیا ہے۔ جب آپ مزاحمت چھوڑ دیتے ہیں تو آپ کا دشمن شیر بن جاتا ہے اور آپ کو کھا جاتا ہے، چلیں، مان لیتے ہیں کہ اسرائیل اور ہندوستان بہت طاقتور ہیں اور انہوں نے بہرحال مارنا ہی مارنا ہے تو پھر کیا مار چپ کرکے کھائی جائے یا اگلے کو بھی مارا جائے۔ حماس قابل تعریف ہے کہ ایک خرگوش نے ایک بھیڑئیے کا منہ نوچ لیا ہے۔
میں نے دیکھا کہ ہمارے سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں پاکستان کمزور ہوا، اس کے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ساتھ رشتے کمزور ہوئے، اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر کشمیریوں کی حمایت کمزور ہوئی تو اسی بی جے پی کی حکومت نے جو ایک طاقتور پاکستان کے ساتھ اعلان لاہور کرکے گئی تھی اور کہا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق باہمی گفت و شنید سے حل کرے گی، جی ہاں، اسی بی جے پی کی حکومت کے قصائی رہنما نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر لیا، اسے بھارتی آئین کے تحت اپنا اٹوٹ انگ بنا لیا ااور پاکستان کا وزیراعظم اپنے کچھ فالوورز کو آدھا گھنٹہ دھوپ میں کھڑا کرنے کے سوا کچھ بھی نہ کر سکا، جی ہاں، جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی ہوتی ہے مگر دوسری طرف حماس نے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو ایک مرتبہ پھر دنیا کا اہم ترین اور سنگین ترین معاملہ بنا دیا ہے۔
پوری دنیا کی توجہ اب فلسطین کی طرف ہے اور یہ کام حماس نے ہی کیا ہے۔ اس کے مجاہدین نے اسرائیل کی جدید ترین ٹیکنالوجی والی باڑھ توڑ کے اندر داخل ہونے کے بعد کیا ہے۔ ہزاروں اسرائیلیوں کو جہنم میں پہنچا کر کیا ہے۔ ان کا غرور توڑ کے کیا ہے۔ سو پیارے قارئین، ظلم کو اس صرف اس لئے برداشت نہیں کیا جانا چاہئے کہ ظالم طاقتور ہے، وہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ظالم کا تو کام ہی یہی ہے تو مزاحمت چھوڑ دی جائے؟
نام نہاد دانشوروں کی دانشوری کے فریب میں آ کے ظلم اور انصافی کے خلاف مزاحمت نہیں چھوڑ ی جا سکتی، اپنا حق چھوڑ دینے کی حکمت اور فراست اگر اصول بنا لی جائے تو پھر کسی غریب اور کسی کمزور کے پاس کچھ باقی نہیں رہے گا اور اگر کوئی اسے امن کی بنیاد بنانا چاہتا ہے تو بنائے، میں اس تصور کی حمایت نہیں کر سکتا، میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں بہرحال ظلم اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرنی ہے، ہاں، یہ ضرور ہے کہ ہمیں اتنا طاقتور ہونا ہے کہ ہم بھی ظالم کے ہاتھ، پاوں توڑ سکیں، اسے عبرت کا نشان بنا سکیں۔
میرے رب نے اپنے دئیے ہوئے دستور میں واضح طور پر ظلم اور جبر کو قبول نہ کرنے کا حکم دیا ہے اور کیا ہم ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کے اتنے ٹھنڈے ہو گئے ہیں کہ جانیں قربان کرتے فلسطینیوں کو غلط کہیں، ان پر تبرے کرتے ہوئے کہیں کہ مظلوم ہی ختم ہوجائے تب ہی ظلم کا قصہ ختم ہوگا۔ یہ کوئی انتہائی بے شرم، احمق اور بزدل ہی کہہ سکتا ہے، مجھ سے اس کی امید نہ رکھیں۔