بہت شور تھا کہ آٹو موبیلز پالیسی آ رہی ہے جس کے بعد، مشرف دور کی طرح ایک مرتبہ پھر، چھوٹی موٹی کار عام آدمی کی پہنچ میں ہوگی اور تین برسوں میں مڈل کلاس کی کاروں کی قیمتوں میں دس لاکھ تک اور اپر مڈل کلاس کی کاروں کی قیمتوں میں سولہ لاکھ روپے تک کا اضافہ ہوا ہے اس میں کم از کم ایک تہائی کمی تو ضرور ہو گی۔ وفاقی وزرا خسرو بختیار اور فواد چوہدری نے جس آٹو موبیلز پالیسی کا اعلان کیا اس کے تحت عام گاڑیوں کی قیمتوں میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کمی ہوئی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ جو ہزار سی سی گاڑی اکیس، بائیس لاکھ روپے کی تھی اب اگر وہ انیس یا بیس لاکھ کی ہو گئی ہے تو کسٹمر کو کتنا فرق پڑے گا حالانکہ یہی کسٹمر اسی گاڑی کی قیمت میں تین برسوں میں آٹھ سے دس لاکھ روپے کا اضافہ دے رہا ہے۔
الفاظ بہت اچھے ہیں کہ حکومت نے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی اور ساڑھے آٹھ سو سی سی تک کی چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس بھی ختم کر دیا ہے۔ پاک وہیلز ڈاٹ کام کے چیئرمین سنیل سرفراز منج کے مطابق حکومت اس وقت ایک گاڑی پر قیمت کا پینتیس سے چالیس فیصد تک ٹیکس وصول کر رہی ہے یعنی چالیس لاکھ کی گاڑی پر پندرہ، سولہ لاکھ روپے تک ٹیکس، ختم ہونے والی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی بھی موجودہ حکومت نے ہی تھی جس کے نتیجے میں ایک ساتھ ہی گاڑی دو، اڑھائی لاکھ روپے مہنگی ہو گئی تھی سو آپ نے اپنا ہی لگایا ہوا ایک بے جا ٹیکس ختم کیا تو اس پر داد کے بھی طلبگار ہیں تو بندہ کیا کہے۔ شہزادہ سلیم، کارڈیلرز فیڈریشن کے سربراہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کاکاروبار تباہ ہوچکا، جس حکومتی پالیسی کا بہت انتظار تھا وہ مسترد، مسترد، مسترد۔ میں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ یہ تو طلاق والی بات ہو گئی۔ جواب ملا، ہم نے اپنے شوروم میں جناب عمران خان کی قیادت میں عصر کی نماز ادا کی تھی، وہ امامت بھی واپس، وہ قیادت بھی واپس، اب ہم پی ٹی آئی کے ساتھ آئندہ انتخابات میں وہی کریں گے جو انہوں نے ہمارے کاروبار کے ساتھ تین برسوں میں کیا ہے یعنی تباہی اور بربادی۔
سنجیدہ اور بنیادی سوال یہ ہے کہ گاڑیاں مہنگی کیوں ہوئیں تو اس کا جواب ہے کہ حکومت نے لوکل اسمبلرز کو تحفظ دینے اور زرمبادلہ بچانے کے نام پر گاڑیوں کی امپورٹ تقریباً ناممکن بنا دی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کارسازی کی صنعت میں مقابلہ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ ہمارے کار ساز ادارے انڈیا کے مقابلے میں ہمیں کم معیار کی گاڑیاں کم و بیش ڈبل پرائس پر فروخت کر رہے ہیں جس کے مختلف جواز پیش کرتے ہیں اور حکومت اپنے عوام کے مفادات کے تحفظ میں ناکام نظر آتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت نے گاڑیاں سستی کرنے کے نام پر صرف ٹیکس میں کمی کی مگر نہ توآٹو موبیلز مینوفیکچررز کو قائل کیا کہ وہ لاگت اور قیمتوں میں کمی کریں اورنہ ہی امپورٹ کی اجازت دے کراوپن کمپی ٹیشن کی اجازت دی۔ یہ وہ ادارے ہیں جو تین اور چار عشروں سے پاکستان میں کار سازی کر رہے ہیں اور ان کا وعدہ تھا کہ یہ دس برسوں میں یہ کاریں پاکستان میں بنائیں گے مگر اس وقت بھی یہ گاڑی کے انجن اور گئیرباکس سمیت اہم ترین حصے امپورٹ کر رہے ہیں یوں جہاں پاکستان میں ٹیکنالوجی نہیں آئی وہاں حکومت کی ڈالر باہر جانے سے روکنے کی بات بھی پوری نہیں ہوئی۔
حکومت قیمت میں کمی کا جو دعویٰ کر رہی ہے اور کمپنیوں نے اس بھی پر کچھ نوٹیفیکیشن جاری کئے ہیں اگر آپ ان پر معروف برینڈز کی گاڑیاں لینے جائیں تو ڈیلر آپ سے کہیں گے کہ اس قیمت پر گاڑی آپ بک کروا لیجئے جو آپ کو چھ سے آٹھ ماہ بعد ملے گی مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ ان چھ سے آٹھ ماہ میں قیمت دوبارہ کہاں چلی جائے گی اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ لاگت میں اضافے کا بہانہ ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ دوسری طرف قیمتوں میں کمی کے پہلے دن ہی ہونڈا سوک پر جو اون ایک لاکھ روپے تھا وہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی جو ڈالر کچھ ہفتوں سے ایک سو پچپن، چھپن روپوں پر تھا چھلانگ لگا کر ایک سوساٹھ روپوں پر چلا گیا۔ بی بی سی نے ایک دلچسپ سٹوری کی ہے کہ کیا پاکستان میں موٹرسائیکل چلانے والا اس پالیسی کے بعد اپنی گاڑی کا مالک بن سکتا ہے تو اس کا جواب ہر ماہر نے نفی میں دیا ہے کہ قیمتوں میں کمی نہ ہونے کے برابر ہے اور دوسرے جس شخص کی تنخواہ تیس سے ساٹھ ستر ہزار کے درمیان ہے وہ بھی بیس فیصد ڈاون پیمنٹ کے بعد سٹیٹ بنک کی شرا ئط کے مطابق گاڑی کی قسط کا اہل قرار نہیں پاتا لہٰذا عام آدمی تو چاہے بچے چار بھی ہوجائیں موٹرسائیکل پر ہی رہے گا۔ سنیل سرفراز منج دلچسپ سوال پوچھتے ہیں کہ حکومت عام آدمی کی بات کر رہی ہے مگرکیا اس نے موٹرسائیکل بھی سستی کروائی، معروف ترین سیونٹی برینڈ نے اپنی تمام موٹرسائیکلیں چھ ماہ کے عرصے میں تین مرتبہ مہنگی کی ہیں اور ان میں سے دو مرتبہ کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی، سونے پر سہاگہ جب ڈالرکا ریٹ کم ہو رہا تھا تب بھی موٹرسائیکل مزید مہنگی ہو رہی تھی۔
آپ کو ایک اور دلچسپ بات بتاتا ہوں کہ حکومت نے ساڑھے آٹھ سو سی سی گاڑی پر سیلز ٹیکس معاف کر کے قیمت کم کرنے کا جودعویٰ کیا ہے وہ کمی ایک لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے مگر دوسری طرف الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسیوں کے نام پر جو رعایات دی گئی ہیں انہوں نے دو، پونے دوکروڑ کی گاڑی پچیس سے چالیس لاکھ روپے تک سستی کر دی ہیں یعنی جب یہ کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت امیروں کی حکومت ہے، امیروں کے ذریعے ہے اور امیروں کے لئے ہے تو یہ بات یہاں پوری طرح ثابت ہوتی ہے۔ تو پیارے غریبو، نئے پاکستان کے نام پر ستر اور اسی کی دہائی کا وہ پاکستان انجوائے کرو جب گاڑی واقعی امیر آدمی کے پاس ہوا کرتی تھی۔ اس وقت عالمی ادارے بھی پاکستان میں نئی نئی گاڑیاں متعارف کروا رہے ہیں مگر حیرت انگیز طو رپر ان میں مڈل کلاس کے لئے کوئی گاڑی نہیں جیسے برطانوی ادارے نے اپنی مشہور گاڑی دی تو اس کی قیمت آدھے کروڑ کے برابر تھی اور اسی طرح کِیا، کی اسی ہفتے آنے والی گاڑی ستر لاکھ کے لگ بھگ میں ملے گی۔
گاڑی سستی کیسے ہو سکتی ہے تو عمران خان کے سابق شیدائی، کار ڈیلرز فیڈریشن کے سربراہ، شہزادہ سلیم کہتے ہیں کہ اس کے لئے دعا کی ضرورت ہے کہ یہ حکومت چلی جائے، یہ حکومت گاڑی سستی نہیں کر سکتی۔ میں نے ان سے کسی اور اقدام بارے بھی پوچھا کیونکہ مجھے علم ہے کہ ابھی حکومت کہیں نہیں جا رہی تو انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کی امپورٹ پالیسی بحال کر دی جائے تو گاڑی سستی ہوسکتی ہے۔ وہ مجھے چیلنج دے رہے تھے کہ میں ٹھیک دو ماہ بعد ان کے ساتھ دوبارہ بیٹھ جاوں، قیمتیں کم ہونے کے دعوے سہانے خواب ہوچکے ہوں گے اور کاریں مزید مہنگی ہوچکی ہوں گی۔ میں نے دعا کی، اللہ خیر کرے، رحم کرے۔