Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Lage Raho Umar Sheikh (1)

Lage Raho Umar Sheikh (1)

میں نے شہرکی بہت ساری سڑکوں پرلاہور کے سی سی پی او محمد عمر شیخ کی تعریف میں لگے ہوئے بینرز دیکھے، کچھ پی ٹی آئی رہنماوں کی طرف سے تھے جنہیں میں نے نظرانداز کر دیا کہ اگر حکومتی پارٹی والے اپنے وزیراعظم کے لگائے ہوئے افسر کی تعریف نہیں کریں گے تو دوسرا کون کرے گامگرمیں نے تھیٹر فنکاروں کی طرف سے تعریفی بینرز دیکھے اوراس وقت شدید حیرت ہوئی جب لاہور پریس کلب کے سامنے مسلم لیگ نون کے ایک سابق چیئرمین اویس چیمہ اور دیگر کے بینرز دیکھے جن میں کہا گیا تھا کہ سی سی پی او عمر شیخ کو کام کرنے دیا جائے کیونکہ عوام کے تھانوں میں نو ے فیصد کام ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

عمرشیخ کی بطور سی سی پی او تقرری بارے میری رائے اچھی نہیں تھی مگر مجھے حیرت ہوئی کہ لاہورئیے ایک پولیس افسر کی تعریف کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے سورسز کومتحرک کیا، پوچھا، یہ عمرشیخ کون ہے، یہ پولیسنگ آف دی پولیس کیا ہے، میں نے کچھ دم درود کیا تو سی سی پی او آفس کی دیواریں بولنے لگیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں مگر دیواروں کی زبانیں بھی ہوتی ہیں اور یہ ہم صحافیوں کے سامنے بہت چلتی ہیں اگر صحافی عامل ہوں۔ میں نے ان سے پہلے آئی جی آفس کی دیواروں سے پوچھا، مجھے بتاو کہ ایک سی سی پی او ایک آئی جی پر کیسے بھاری پڑ گیا، دیواریں مسکرائیں اوربولیں، ہم نے یہاں بہت ساروں کوآتے بھی دیکھا ہے اور جاتے بھی دیکھا ہے، شعیب دستگیر کبھی یہاں سے رخصت نہ ہوتے اگر وہ تین غلطیاں ایک ساتھ نہ کرتے۔ پہلی غلطی کہ انہوں نے حکومت کی حکم عدولی کی، ہم نے یہاں کسی آئی جی کو حکومت کی حکم عدولی کے بعد ٹکتے ہوئے نہیں دیکھا، دوسری غلطی یہ تھی کہ انہوں نے بطور احتجاج دفتر آنا چھوڑ دیا اوراسے میڈیا میں پبلک کر دیا، یہ حرکت نان پروفیشنل بھی تھی اور ناقابل برداشت بھی۔ تیسری غلطی ان کی طرف سے پولیس سروس آف پاکستان میں اپنے لئے دھڑے بندی اور بغاوت پیدا کرنے کی کوشش تھی جس کے بعد ان کا جانا ٹھہر گیا تھا۔

میں نے سی سی پی او آفس کی دیواروں سے پوچھا، یہ عمر شیخ کی تعریفیں کیوں ہو رہی ہیں تو دیواریں بولنے لگیں اور بولتی ہی چلی گئیں۔ میرا تاثر تھا کہ عمر شیخ کو لاہور میں اپوزیشن کو کچلنے کے لئے لگایا گیا ہے۔ عمران خان، عُمر شیخ سے وہ کام لینا چاہتے ہیں جوپنجاب کے آئی جیز سے بھی نہیں لے سکے۔ جواب ملا کہ اگر تم نے عمر شیخ کی کارکردگی کے بارے پوچھنا ہے تو پھر تمہیں اپنے سوالوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا، ایک حصہ سیاسی اور دوسرا حصہ انتظامی اور جہاں تک سیاسی کردار کا سوال ہے تو ذوالفقار حمید کو یاد کروجن کے بارے تاثر ہے کہ ان کا نواز لیگ کے لئے سافٹ کارنر تھا مگر انہی کی سی سی پی او شپ میں مریم نواز کی ریلی کے ساتھ پولیس نے جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، مطلب یہ ہے کہ سی سی پی او کوئی بھی ہو اس نے حکومت کے احکامات پر بہر صورت عمل کرنا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو وہ سی سی پی او ہی نہیں رہے گا۔ دیواروں نے سرگوشی میں بتایا کہ تیرہ دسمبر کے جلسے پر دس دسمبر سے گرفتاریاں شروع ہوجائیں گی اور ان مقدمات میں ہوں گی جو اب تک درج ہو چکے ہیں۔ ہمارے نئے مکین کو بھی علم ہے کہ اسے یہاں اپوزیشن رہنماوں کے ساتھ پی آرکے لئے نہیں لایا گیا لہٰذا سیاست الگ موضوع ہے اور پولیس کی ایڈمنسٹریشن الگ موضوع۔

میں نے مان لیا کہ یہاں کیپٹن صفدر کو بھی سی سی پی او لگا دیا جائے تو اسے حکومت کے احکامات پر عمل کرنا پڑے گا تو میں نے دیواروں سے پوچھا، یہ نواز شریف سمیت مسلم لیگ نون کی پوری سنٹرل ورکنگ کمیٹی پر بغاوت کامقدمہ بھی تودرج ہوا تھاکیا یہ سی سی پی او کا حکم نہیں تھا، ایک دیوا ر نے دوسری دیوار کو دیکھ کر قہقہہ لگایا اور بولی، دیکھو، کیسا بچگانہ سوال ہے۔ مجھے اپنے سوال کے بے وقوفانہ ہونے کا اندازہ ہو تو اپنی حیرانی کی بنیاد بننے والا سوال پوچھ لیا کہ شہر بھر میں عمرشیخ کے حق میں بینرز کیوں لگ رہے ہیں، جواب ملا، لاہورئیے بہت سمجھدار ہیں، وہ ایویں ہی کسی کی تعریف نہیں کرتے جب تک واقعی ان کاکام نہ ہو رہے ہوں۔ لاہور سمیت پنجاب بھر کی پولیس دوکاموں کے لئے بہت زیادہ بدنام ہے، پہلا جھوٹی ایف آئی آریں اور دوسرا قبضہ گروپوں کی سرپرستی۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اب کسی شہری پر جھوٹی اور بے بنیادایف آئی آر نہیں ہوگی چاہے اس کے لئے کوئی حکومتی شخصیت ہی کیوں نہ دباو ڈالے اور دوسرا یہ کہ اب لاہور میں قبضہ گروپ کسی کی جائیداد پر ناجائز قبضہ برقرارنہیں رکھ سکے گا۔ لاہور میں اب تک ایک سو ایسے قبضوں کو چھڑوایا جاچکا ہے جن عشروں سے برقرار تھے۔ دیواروں نے میرے کان میں کہا کہ ابھی کچھ روز قبل ایک بیوہ عورت اپنی بیوہ بیٹی کے ساتھ آئی تھی اور سی سی پی او کے پیٹی بھائی اورلاہور کے حال ہی میں تبدیل ہونے والے ایس ایس پی انویسٹی گیشن ذیشان اصغر کے سگے بھائی پر الزام لگایا تھا کہ اس نے ڈی ایچ اے رہبر میں ان کے مکان پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس نے مکان کرائے پر لیا اوراس کے بعد آٹھ ماہ سے کرایہ ہی نہیں دیا بلکہ ان عورتوں پر مقدمہ درج کروا دیا ہے۔ دیواروں نے کہا کہ اسے ٹیسٹ کیس سمجھ لو، اگر سی سی پی او اپنے پیٹی بھرا، سے قبضہ خالی کروانے میں کامیاب ہو گیا تو پھر وہ کسی دوسرے کو بھی خاطر میں نہیں لائے گا۔

دیواریں کہتی ہیں کہ پولیسنگ آف دی پولیس، کے بہترین نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے یوں ہوتا تھا کہ پولیس والے رشوت بھی لیتے تھے، قبضے اور جعلی مقابلے بھی کرواتے تھے، جوا اور قحبہ خانے بھی چلاتے تھے مگر جب پکڑے جاتے تھے تو وہ کبھی محکمانہ ہتھکنڈوں اور کبھی عدالتوں کے ذریعے واپس آجاتے تھے مگر جب سے سی سی پی او نے کورٹ مارشل کی تجویز دی ہے اور یہ کہا ہے کہ کرپٹ عناصر واپس نہیں آئیں گے تو یوں سمجھ لیں کہ وزیراعظم نے بھی عمر شیخ فارمولے کو اپنا لیا ہے۔ اب جو افسر کرپشن میں جائے گا وہ واپس نہیں آئے گا۔ اگریہ تصور کر لیا جائے کہ لاہور پولیس میں صرف ایک فیصد کرپٹ ہیں تو ابھی عمر شیخ نے ان ایک فیصد کے بھی ایک فیصد کو نہیں پکڑا، سزائیں نہیں دیں مگر ایک پیغام چلا گیا ہے کہ اب کرپشن نہیں چلے گی۔ میں نے دیوار سے کہا، تم کمال کرتی ہو، اس وقت لاہور کے ہرتھانے میں اخراجات پورے کرنے کے لئے ہر ایس ایچ کو ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے اپنے وسائل سے کمانے پڑتے ہیں تو جب وہ دو لاکھ اوپر سے تھانے کے لئے کماتا ہے توسوچتا ہے کہ میں دو لاکھ مزید کیوں نہ کما لوں۔ دیواروں نے کہا کہ پھر بات اگلے دو لاکھ تک نہیں رہتی تھی، بیس اور چالیس بلکہ ایک ایک کروڑ روپے مہینے تک پہنچ جاتی تھی۔ اب ان کو پیغام چلا گیا ہے کہ اس کمائی کی شکایت نہیں آنی چاہئے اور جہاں سے شکائت آئے گی وہاں سے بندہ چلا جائے گا لہٰذاپولیسنگ آف دی پولیس نے نتیجہ دینا شروع کر دیا ہے۔

ایک طویل عرصے بعد یہ ہوا کہ لاہور پولیس کو چودہ کروڑ روپے انویسٹی گیشن کے اخراجات کی مد میں دے دئیے گئے ہیں اوریہ پیسے براہ راست تفتیشی کے اکاونٹ میں اس کے ویری فائیڈ بلوں پر ٹرانسفر ہوں گے۔ پولیس کی تمام گاڑیوں میں ٹریکر لگائے جا رہے ہیں اور اب دیکھا جاسکے گاکہ افسری گھر یا دفترمیں بیٹھ کر تو نہیں ہو رہی، اس سے دوسرا فائدہ یہ بھی ہو گاکہ پولیس کی گاڑیوں کے پٹرول کے جعلی بل کنٹرول ہوجائیں گے۔ عمرشیخ نے خفیہ اداروں سے کہا ہے کہ وہ لاہور میں برس ہا برس سے لگے ہوئے پولیس افسروں کی جائیدادوں بارے بتائیں کہ کس نے کتنے عرصے میں کتنی جائیداد بنائی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق خفیہ اداروں نے ایسی معلومات دینے سے انکار کر دیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ معلومات آگئیں تو علم ہوجائے گا کہ قانون نافذکرنے والے ادارے کے بدن پر پھوڑے کہاں، کہاں ہیں جن کا آپریشن ضروری ہے۔ (جاری ہے)