جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق درویش اور مست ملنگ آدمی ہیں، بہت سادہ اور بہت پرخلوص، منسکسرالمزاج اورانسان دوست، میں سابق چیف جسٹس کی ہر آبزرویشن اور ہر فیصلے سے اختلاف کے باوجود ان کی صرف ایک بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سراج الحق مالی حوالے سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ایمانداراور دیانتدار آدمی ہیں۔ جب وہ رکن اسمبلی اور سینیٹر بنے تو ان کے پاس نہ اپنا ذاتی گھر تھا اور نہ ہی گاڑی، نہ ہی کسی بنک میں ان کا اکاونٹ تھا۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والا ایک غریب گھر کابچہ، جو اپنی نظریاتی کمٹ منٹ اور تنظیمی محنت سے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ کے عہدے تک پہنچا۔ وہ نوجوان جس کے بچپن میں برفباری میں سکول جانے کے لئے پاوں میں جوتی تک نہیں تھی تو اس کی فرشتوں جیسی ماں نے اس کے سر پر ٹوپی ترچھی کرکے رکھ دی، کہا، جاو اب کوئی تمہارے پیروں کی طرف نہیں دیکھے گا اور اس نے فرمانبردار بچے نے ساری عمر اسی ترچھی ٹوپی کے ساتھ گزار دی۔
میں جانتا ہوں کہ لالہ نے کبھی انڈین تو کیا پاکستانی گانا بھی نہیں سنا ہوگا مگر نجانے کیوں مجھے اس گانے کے یہ بول لالہ پر پورے فٹ نظر آ رہے ہیں اور دھیرے دھیرے گنگنا رہاہوں، ترچھی ٹوپی والے اوبابو بھولے بھالے،۔ میری لالہ سراج سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں میں نے انہیں اپنی تنقید اور گستاخیوں کے باوجود محبت اورشفقت سے بھراپایا، یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے جس کا اعتراف مجھ پر فرض ہے۔ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن جیسی باکمال شخصیات کے وارث اور جانشین ہیں۔ میں حیران ہوں کہ کوئی سراج الحق جیسے اچھے شخص کو مارنے کی سازش کیسے کر سکتا ہے سوائے اس کے جو اسلام اور پاکستان کا دشمن ہو، ہم سب کا دشمن ہو۔
لالہ سراج پر خود کش حملہ بلوچستان میں ہوا ہے، وہ کوئٹہ سے ژوب جا رہے تھے جہاں انہوں نے جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ حملے کے بعد بھی ان کی ہمت، جرات اوربہادری میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی۔ ایک مومن موت سے ڈرتا ہی نہیں ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ موت کا دن اللہ رب العزت نے مقرر کر رکھا ہے، یہ اس سے نہ ایک منٹ پہلے آ سکتی ہے اور نہ بعد میں سوا حتیاطی تدابیر اپنی جگہ مگر خوف کے مارے سر پر بالٹیاں پہن لینا یا اپنے جیسے انسانوں کو اپنی گاڑی پر ڈھال بنا کے بٹھا لینا ہمیشہ جیتے رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ لالہ سراج کے ساتھ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے زخمیوں کی دیکھ بھال کی اور جلسہ گاہ میں پہنچ گئے۔
بلوچستان اس وقت عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں سی پیک کی ترقی نے انہیں سزا کامرتکب ٹھہرا دیا اور اب ایک مرتبہ پھر شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کا کمبی نیشن پاکستان کو تیزی کے ساتھ چین اور ایران کے قریب لے جا رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس وقت پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان چین اور امریکا ہی کی لڑائی ہے۔
اول الذکر چین کے ساتھ ہیں اور موخر الذکرلابنگ فرمیں ہائر کرکے اس خطے میں امریکا کے مفادات پورے کرنے کی یقین دہانیاں کروا رہے ہیں۔ اس لڑائی میں مولانا فضل الرحمان بھی ایک بڑا ٹارگٹ ہیں، انہیں بھی اپنی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے مگر دشمن نے سراج الحق کا چناو ئکرکے یقینی طور پر کسی ایک سیاسی دھڑے کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو پیغام دیا ہے کہ وہ بلوچستان کی ترقی کے خلاف ہے۔ اس حملے کے پیچھے وہ بھی ہوسکتے ہیں جو مولوی ہدایت الرحمان بلوچ کے خلاف ہیں، ان کی آواز اور جدوجہد سے خوفزدہ ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر یوتھیے اور پٹواری بہت بڑی تعداد میں ہیں اور دونوں ہی سراج الحق کے ناقد ہیں۔ ٹائیگرز یہ سمجھتے ہیں کہ لالہ سراج کو جماعت اسلامی اسی طرح عمران خان کی گود میں ڈال دینی چاہئے جس طرح سید منور حسن ان کے ساتھی اور پشتی بان بنے تھے۔ پٹواریوں کا خیال ہے کہ اگر جماعت اسلامی، تحریک انصاف کی حلیف نہیں رہی تو اسے نواز لیگ کا اتحادی بن جانا چاہئے اورمیری اس پر جماعت اسلامی کے بہت سارے دوستوں سے بہت ساری گفتگو ہوئی ہے۔
میں ان کے اس مؤقف سے پوری طرح متفق ہوں کہ انہیں اپنی ایک الگ شناخت اور الگ حیثیت بنانے کا حق حاصل ہے۔ اب یہ سوال الگ ہے اور ون ملین ڈالر کی تحقیق چاہتا ہے کہ نیک اور دیانتدارلوگوں کی ایسی جماعت، جو فرقہ واریت سے بھی بالاتر ہے، وہ عوام کی توجہ کیوں نہیں لے پاتی۔ جماعت اسلامی کے قائدین کی محنت سے بھی انکا رنہیں ہے جیسے قاضی حسین احمد نے ظالمو قاضی آ رہا ہے جیسا طاقتور نعرہ دیا اور پاکستان اسلامک فرنٹ جیسا بہترین پولیٹیکل پلیٹ فارم۔
یہ پاکستان کی وہ سیاسی جماعت ہے جس میں جمہوریت دوسری تمام سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بہترین شکل میں موجود ہے، جہاں مشاورت ہے، جہاں موروثیت نہیں۔ میں اس پر بھی حیران ہوں کہ اگر لبیک والے توجہ لے جا سکتے ہیں تو جماعت اسلامی والے کیوں نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کو مقبول سیاسی قیادتیں اورکامیاب سیاسی جماعتیں ایک ہی فیکٹری سے ملتی رہی ہیں مگر اس فیکٹری نے بھی جماعت اسلامی کو پاکستان، مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں اس کی وفاؤں، محنتوں اور قربانیوں کے باوجود اچھا صلہ نہیں دیا۔ شور ہے کہ اس فیکٹری نے اب پروڈکشن بند کر دی ہے مگر حق، سچ کہوں تو ان سے گلہ بنتا ہے کہ آپ کو انہیں بھی ایک موقع دینا چاہئے تھا۔
لالہ سراج کو ایک تو خود کش حملے میں بچ جانے کی مبارکباد دینی ہے اور امید رکھنی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے کوئی اچھا، کوئی شاندار کام لینا چاہتا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما ایک مرتبہ پھر گوادر کے ساتھ ساتھ کراچی میں بھی عوام کی زبردست توجہ لے رہے ہیں، کچھ جگہوں پر ہمیں کھڑکی توڑ رش نظر آ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ درست سمت میں سیاسی محنت سے سیاسی کامیابی ایک وائرس کی طرح پھیل سکتی ہے۔
نواز لیگ ناگزیر مہنگائی کی وجہ سے مشکل میں ہے اورعمران خان اپنی غلطیوں سے ناقابل تلافی نقصان کر چکے ہیں۔ بہت ساری جگہوں پر بہت سارا خلا پیدا ہوچکا ہے۔ اب اگر سیاستدان بنانے والی فیکٹری بند ہوگئی ہے تو جماعت اسلامی اپنے زبردست نظرئیے، زبردست تنظیم اور زبردست محنت کے ذریعے میرٹ پراپنی جگہ بنا سکتی ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ لاہور میں عوامی مسائل کی نشاندہی اور حل کی کوششوں کے ذریعے جماعت نے لاہوریوں کے دل میں جگہ بنانے کی ڈھیر کوشش کی ہے۔ وہ لاہور کو بھی ایک حافظ نعیم الرحمان اور مولانا ہدایت الرحمان دے سکتے ہیں۔
میں خوش گمان ہوسکتا ہوں کہ لالہ سراج الحق کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کو بھی ایک نئی زندگی مل رہی ہے۔ اللہ ان نیک اور اچھے لوگوں کا حامی وناصر ہو۔