یہ پاک فوج کے لئے مشکل فیصلہ ہے کہ وہ سیاسی امور میں نیوٹرل ہوجائے کیونکہ اس نے گذشتہ ستر برسوں سے پاکستان کے ایسے مفادات کی نگہبانی بھی سنبھال رکھی ہے جس کی ذمہ داری اسے آئین، قانون اور جمہوری روایات سے نہیں ملتی۔ فوج کے غیر جانبدار ہونے کا مطالبہ ہر اس سیاسی جماعت کا رہا جو اس کے نیوٹرل نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کاشکار ہوئی۔
ہمارے بنگالی بھائیوں کو بھی ایوب خان سے شکایت تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کو ضیاء الحق سے، نواز شریف کو ایک سے زیادہ آرمی چیفس کے ساتھ شکایات رہیں اور سب کامطالبہ رہا کہ سیاسی میدان میں سیاستدانوں کو مقابلہ کرنے دیا جائے، فوج نہ کسی کی سرپرست بنے نہ ہی کسی کابازو مروڑے مگر اب عمران خان کو فوج سے شکایت ہوئی ہے تو انہوں نے سب سے مختلف موقف اختیار کیا ہے کہ فوج ان کا ساتھ دے، ان کے اتحادیوں کو واپس لائے اور چھوڑ جانے والے ارکان اسمبلی کو بھی۔
وہ فوج کے اس سٹینڈ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جو دنیا بھر کی ریاستوں میں افواج کے لئے طے شدہ ہے کہ وہ کسی ایک سیاسی جماعت کی پشتی بان یا آلہ کار نہیں ہوتیں۔ عمران خان کے ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہونے والے موقف کی حمایت کرنے والے دانشورانہ بددیانتی سے کام لے رہے ہیں، یہ فکری کج روی بھی ہے اور جمہوریت سے کھلی بغاوت بھی۔
عمران خان نے نیوٹرل ہونے کو جانور ہونے سے تشبیہ دی تو فوج نے ایک اور مناسب لفظ اے پولیٹیکل، کا استعمال کیا یعنی جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو مگر انہیں یہ لفظ بھی پسند نہیں آیا مگرفوج سے نیوٹرل نہ رہنے اور سیاسی کردار کا مطالبہ اس قومی ادارے کے آئینی حلف اور پروفیشنل ازم کے ساتھ ساتھ قومی کردار اور تقاضوں کے بھی منافی ہے کیونکہ فوج کسی ایک سیاسی جماعت کی میراث نہیں، یہ ہر پاکستانی کی فوج ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔
میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ یہ ان پاکستانیوں کی بھی فوج ہے جو معاشرے کی نظر میں جرائم پیشہ سمجھے جاتے ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ ایک سابق حکومت کی طرف سے بجلی چوروں کو پکڑنے کے لئے پاک فوج کے استعمال کی مخالفت کی۔ میرا موقف یہ رہا ہے کہ بجلی چوری ایک جرم ہے اوراس جرم کی روک تھام کے لئے واپڈا کا عملہ اور پولیس موجود ہے۔ بجلی چوروں کو پکڑنے پاک فوج جائے اور و ہاں مزاحمت ہو یا مخالفت، ایک قومی ادارے کے سامنے یہ دونوں ہی مناسب نہیں۔
میں اس میٹنگ میں موجود تھا جس میں پاک فوج کے غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہونے کے بعد بڑھ جانے والی تنقید پر تشویش کا اظہار کیا جار ہا تھا۔ میرے ایک دوست نے رائے دی کہ فوج پر تنقید کرنے والوں اورنقلیں اتارنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ میں ریڈ لائن عبور کرنے والوں کے لئے نرمی کا حامی نہیں رہا مگر سمجھتاہوں کہ یہ لڑائی غلیل کی نہیں بلکہ دلیل کی ہے۔ وہ لوگ جو فوج کے غیر سیاسی کردار کے حامی ہیں انہیں فوج مخالف پروپیگنڈے کے توڑ کے لئے اپنا کردارادا کرنا چاہئے۔
مجھے اپنے طور پر خوف محسوس ہوتا ہے کہ یوں نہ ہو ہماری فوج اس بیرونی اور کچھ اندرونی دباؤ پر اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ جائے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ عشروں سے فوج کے غیر سیاسی ہونے کے لئے جدوجہد کرنے کے دعوے دار بھی اس وقت دلیل کی اس جنگ میں ساتھ نہیں ہیں بلکہ افسوس ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ بہت سارے ایسے ٹویپس جن کا تعلق جاتی امرا سے صاف نظر آتا ہے وہ بھی ماضی کے مختلف حوالوں کے ساتھ حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کسی بھی فوج کی اصل طاقت صرف بندوقیں اور توپیں نہیں بلکہ اس کی قوم ہوتی ہے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر ڈھاکہ میں عوام ہماری فوج کے ساتھ ہوتے تو کبھی بھارتی فوج کے سامنے ہمیں سرنڈر نہ کرنا پڑتا بلکہ ہم آخری فوجی اور آخری گولی تک لڑتے اور دشمن کو اسی طرح ڈھاکہ سے بھگا دیتے جیسے ہم نے لاہور کی بی آر بی سے نہر سے اس کے خواب اور دانت توڑتے ہوئے بھگا دیا تھا۔
میں جانتا ہوں کہ نواز شریف بطور سیاستدان ابھی تک ناراض ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار ان کے بھائی کے پاس نہیں بلکہ ان کے پاس آنا چاہئے تھا مگر میں عرض گزار ہوں کہ انہیں ایک سیاستدان سے زیادہ مدبر کا تاریخ ساز کردارادا کرنا چاہئے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حکومت کی تبدیلی میں فوج مکمل طور پر غیر جانبدار رہی ہے اور کسی کو حساس اداروں کی طرف سے فون نہیں کئے گئے۔ حکومتی ارکان اسمبلی کو توڑنے اور اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے کا تمام تر کام سیاست کی طاقت سے ہوا۔
فوج اس حد تک غیر جانبدار تھی کہ اس نے چوہدری پرویزا لٰہی کو بھی غلط فیصلہ کرنے سے نہیں روکا، وہ فیصلہ جس نے انہیں یقینی وزارت اعلیٰ سے ہی (شائد ہمیشہ کے لئے) محروم نہیں کیا بلکہ اپنی بھلی روایات والا خاندان اور چھوٹی سی پارٹی بھی تڑوابیٹھے۔ سویہ وہ مرحلہ ہے جس میں جناب نواز شریف، جناب آصف زرداری، جناب شہباز شریف، جناب مولانا فضل الرحمان ہی نہیں بلکہ ایم کیو ایم اور اے این پی تک کی قیادت کو خم ٹھونک کرمیدان میں آنا چاہئے اور پاک فوج کے اے پولیٹیکل ہونے کے فیصلے کا دفا ع کرنا چاہئے۔ یہ وہ منزل ہے جو ترکی میں ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر حاصل کی گئی تھی اور ہمیں یہاں ایسے کسی ٹکراؤ کے بغیر ہی مل گئی ہے تو اس کی قدر کی جانی چاہئے، حفاظت کی جانی چاہئے۔
کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر لانے کے دعوے دارمغالطے پیدا کر رہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں مقابلہ نیکی اور بدی کا ہے، ہم نے اسی تصور کو تبدیل کرنا ہے کہ کوئی ایک سیاستدان فرشتہ جبکہ باقی شیطان ہیں۔ اس خدشے کا دوسرا پہلو بھی ہے، فوج کو بھی خدشہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کے مفادات کی راہ میں مزاحم ہوتی ہیں، اس کے پروفیشنل ازم اور ساکھ کو تباہ کرتی ہیں۔
میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں ایسے دانا اور مدبر لوگوں کی اکثریت ہے جو اپنے ہی قومی ادارے پر حملے اور اسے بدنام کرنے کے خلاف ہیں سو فوج کو بھی بطور ادارہ یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہئے کہ جو پارٹی عوام کے حقیقی ووٹوں سے آئے گی وہ لازمی طور پر فوج کے خلاف ہو گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نے بہت سارے نقصانات اور بہت ساری مشکلات کے باوجود ہر مشکل وقت میں اپنی ا فواج کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے سو یہ وقت آنا ہی نہیں چاہئے کہ وہ کوئی پارٹی یہ سمجھے کہ کوئی قومی ادارہ اس کے خلاف ہے۔
میں چاہوں گا کہ تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر جب ایک سیاسی جماعت اوراس سے وابستہ کچھ صحافی دانشورانہ بددیانتی سے کام لیتے ہوئے نظریاتی گمراہی پیدا کر رہے ہیں تو اس کا جواب جمہوریت پسندوں کی طرف سے ضروری ہے۔ پاک فوج نے ستر برسوں کے بعد ایسا فیصلہ کیا ہے جو ملک کی سیاسی اورجمہوری تقدیر بد ل سکتا ہے۔ اس سے سیاسی جماعتوں میں یہ اعتماد آ سکتا ہے کہ آج کے بعد وہی الیکشن جیتے گا جو کارکردگی دکھائے گا، عوامی مسائل حل کرے گا اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا۔
سیاسی جماعتوں کو اس سنہری موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی مجمع باز کی لچھے دار باتوں سے یہ مثبت سوچ بدل جائے۔ آئین اور جمہوریت پسندوں کو غیر جانبدار اورغیر سیاسی فوج کو تصور کو اپنی دانش، دلائل اور حمایت سے مضبوط کرنا چاہیے، اسے فکری حملہ آوروں کے سامنے تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔