جب مجھے بہت ہی مہربان دوست سید مبشر حسین ڈائریکٹر پبلک ریلیشنزآئی جی پنجاب کی طرف سے اس تقریب میں شمولیت کی دعوت ملی جس کا عنوان ہی فرینڈز آف پولیس تھا تو میرے ذہن میں شبہات تھے۔ بُرا نہ منائیے گا، پولیس کے دوست پولیس کے ٹاؤٹ سمجھے جاتے ہیں جوکوئی قابل فخر مقام اور مرتبہ نہیں ہے۔
مگر میرے سامنے ایک بنیادی نوعیت کا سوال بھی تھا کہ اگر میں پولیس کا دوست نہیں ہوں تو پھر کیا پھر میں چوروں، ڈاکووں، قاتلوں، زانیوں اور منشیات فروشوں کا دوست ہوں کیونکہ کتابی، اصولی اور نظریاتی طور پر دوستیاں اور دشمنیاں دو ہی ہیں، آپ جرم کے دوست ہیں یا جرم کے خلاف لڑنے والوں کے۔ لہٰذایہ سوچا سمجھافیصلہ تھا کہ اگر میں ایک پرامن اورمنصفانہ معاشرہ دیکھنا چاہتا ہوں تو مجھ سمیت کسی کو بھی پولیس کے دوست ہونے سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ہمارا آئینی، قانونی، اخلاقی اور معاشرتی فرض بھی ہے۔
الحمرا ہال میں میرے علاوہ بھی بہت سارے اچھی شہرت کے حامل صحافی موجود تھے۔ مجھے آئی جی پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ عثمان انور کی یہ بات زور دار لگی، انہوں نے کہا، ہم تسلیم نہیں کرتے کہ ہم ایک کرپٹ آرگنائزیشن ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ مجھے دستیاب معلومات کے مطابق بہت ہی ملنسار آئی جی پنجاب عثمان انور سے لے کراینگری ینگ مین سی سی پی او لاہور بلال کمیانہ تک اور سی آئی اے کے دبنگ سربراہ لیاقت علی ملک سے لے کر بہت سارے نوجوان ایس پیز تک، سب کے سب باصلاحیت ہیں، ایماندار ہیں، شاندار ہیں، جرأت مند ہیں، سو اپنی حد تک وہ سو فیصد درست کہتے ہیں۔
میں اگر پولیس والوں کو اپنادوست سمجھتا ہوں تومیری ذمے داری ہے کہ ان سے جھوٹ نہ بولوں او ر سچی بات یہ ہے کہ پبلک ڈیلنگ کرنے والے کسی محکمے کو ایسے دعوؤں کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے پاکستان ریلوے کی، ایشئین ڈویلپمنٹ بنک کے ساتھ، ایک میٹنگ میں بہت کام کی بات سنی جب ریلوے کے ایک ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ نے اے ڈی بی پی وفد کے غیر ملکی سربراہ سے کہا کہ وہ بہت کام کرتے ہیں مگر ان کا اچھا امیج پیش نہیں ہوپاتا۔
اے ڈی بی پی وفد کے سربراہ نے جواب دیاآپ اپنی ٹرینوں کو خبروں اور تصویروں میں دنیا کی بہترین ٹرینیں ثابت کر دیں مگر یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہوجائے گا جب ایک مسافر آئے گا تو اسے گندی اور ٹوٹی ہوئی ٹرین ملے گی، اپنے وقت روانہ نہیں ہوگی یاراستے میں حادثے کا شکار ہوگی۔ پبلک ڈیلنگ میں پرفارمنس ہی اصل پبلک ریلیشننگ ہے، امیج بلڈنگ ہے۔ ایک مطمئن کسٹمر آپ کا وکیل بن جاتا ہے اور غیر مطمئن آپ کا دشمن۔
یہ بات مجھے اس وقت یاد آئی جب فرینڈز آف پولیس میں سے ایک صاحب انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے پنجاب کی پولیس کوپلینیٹ یعنی کرہ ارض کی بہترین پولیس کہہ رہے تھے اور افسران کو کرہ ئارض کا بہترین پولیس افسر۔ کیا ہی اچھا ہو، یہ کسی ناکے سے گزرنے یا کسی مقدمے کو بھگتنے والے بھی کہیں۔ ابھی دو، چا ر روز پہلے پاکستان میں سروے کرنے والے معتبر ادارے گیلپ نے شاہد خاقان عباسی کے کہنے پر ایک سروے کیا جس میں بیان کیا گیا 54فیصد پاکستانی پولیس پر بطور ادارہ اعتماد کرتے ہیں، یقین کیجئے میرے حلقہ احباب میں سے کسی ایک نے بھی اس پر اعتبار نہیں کیا مگر میں تعریف کرتا ہوں کہ برس ہابرس سے جس کمیونٹی پولیسنگ کے بارے سن رہا ہوں، آئی جی پنجاب اس کا آغاز کردیا ہے کہ کوئی پولیس ہو یا فوج وہ اپنی قوم کی سپورٹ کے بغیر نہ دشمن سے لڑ سکتی ہے نہ جرم سے۔ ڈاکٹر عثمان انور الیکٹرانک اور پرنٹ ہی نہیں سوشل میڈیا کی پوسٹس کا بھی نوٹس لیتے ہیں۔ وہ محض پولیس کے سافٹ امیج کے لئے شاہد جٹ جیسے لوگوں کو بھی گلے لگا لیتے ہیں جنہیں اصل میں جوتے لگانے چاہئیں۔
مجھے نہیں علم کہ پولیس والوں نے جنہیں فرینڈز بنایا ہے اس کا انہیں کیا فائدہ ہوگاکیونکہ وہاں سینکڑوں یا شائد ہزاروں کی تعداد میں بچے موجود تھے۔ مجھے ایک کرائم رپورٹر نے کہا، انہیں اصل میں وکیلوں، صحافیوں، علمائے کرام وغیرہ کو دوست بنانا چاہئے، بہرحال، اگر پولیس والوں نے دوستوں کا چناؤ کیا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا کیونکہ رشتے دار ہمیں قدرت کی طرف سے ملتے ہیں مگر دوست ہم اپنی مرضی سے بناتے ہیں۔ کیا ہم انکار کر سکتے ہیں کہ معاشرے میں امن قائم رکھنا صرف پولیس کی ذمے داری نہیں ہے، یہ ہر شہری کی ذمے داری ہے مگر اس وقت کیا ہوگا جب ایک شہری کسی جرم کی اطلاع دیتا ہے، وہ مجرم پکڑا نہیں جاتا مگر اطلاع دینے والے کا فون نمبر جرم کرنے والوں تک پہنچ جاتا ہے، یقین کیجئے خود میرے ساتھ گذشتہ برس یہ واقعہ ہوا۔
میں نے نشاط بازار میں فائرنگ ہوتے دیکھی تو ون فائیو پر کال کردی۔ پہلے پولیس والوں نے اصرار کیا کہ میں موقعے پر پہنچ کر انہیں فائرنگ کرنے والے شناخت کرکے دوں، پھر رات مجھے فائرنگ کرنے والوں کا فون آ گیا، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ فون کیا ہوگا۔ بہرحال شخصی خامیوں اور کوتاہیوں کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ اگر پولیس میں بر ے لوگ ہیں تومیری فیلڈ میں کون سے حاجی بھرے ہوئے ہیں، ہم سب ایک ہی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آئی جی پنجاب نے درست کہا، پولیس کے سترہ سو شہدا ہیں اور دو ہزار ایسے غازی ہیں جنہوں نے ہماری خاطر ہی جانیں قربان کی ہیں، آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں کھوئے ہیں، معذور ہوئے ہیں۔ میں ایسا کم ظرف نہیں ہوسکتا کہ انہیں سلام پیش نہ کروں۔
سچ کہوں تو مجھے عثمان انور، بلال کمیانہ اور علی رضوی کی تقریروں نے کافی جذباتی کر دیا۔ میں نے سوچا کہ میں اپنی پولیس سے دوستی کا حق ادا کروں گا۔ میں الحمرا ہال سے باہر نکلا، ایوان صنعت وتجارت کے سامنے سے ہوتا ہوا شاہ جمال پہنچ گیا۔ وہاں واسا کے دفتر کے سامنے میرے سکول کے زمانے کے دوست علی اکبر کی پان سگریٹ کی دکان ہے۔ میں نے جاتے ہی اسے بھاشن دینا شروع کردیا۔ وہ کچھ دیر مجھے سنتا رہا پھر بولا۔ تمہیں تین چاردن پہلے فہد کا فون ملاہوگا کہ بابا کا کئی گھنٹوں سے پتا نہیں چل رہا کہ وہ کہاں ہیں۔ مجھے یاد آگیا اور شرمندگی ہوئی کہ مجھے پوچھنا چاہئے تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اس وقت اچھرہ تھانے میں بند تھا۔
ادھار کے کسی معاملے میں وہ گواہ تھا اور پولیس والے اسے اٹھا کے لے گئے کہ جس نے پیسے لئے ہیں وہ واپس نہیں کر رہا تو تم ادا کرو۔ پھر اسے بغیر کسی جرم کے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ گھر فون کرنے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ تنویر نام کے پولیس اہلکار نے کہا، تم پورے پیسے نہیں دے سکتے تو بیس ہزار ہمیں دے دو۔ چار، پانچ گھنٹے قید رہنے کے بعد معاملہ پانچ ہزار روپے پر طے پا گیا اور اسے رہا کر دیا گیا۔ بس یہیں میری بولتی بند ہوگئی۔ کہتے ہیں راہ پیا جانے یا واۂ پیا جانے۔ اب میں کیسے ثابت کرتا کہ میں خود دیکھ کے آیا ہوں کہ ہماری پولیس بہت اچھی ہوگئی ہے۔