Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Mehnat Kash Banam Wazir e Azam

Mehnat Kash Banam Wazir e Azam

 یکم جنوری سے لے کر تیس جون تک دس لائن مین بجلی کی تاروں سے چمٹ کر شہید ہوچکے مگر کسی وزیر، مشیر نے اظہار تعزیت نہیں کیا، اظہار افسوس تک نہیں کیا، کیا ان کی جانیں، جانیں نہیں ہیں، ، یہ دکھ واپڈاہائیڈروالیکٹرک یونین کے رہنما سرفراز کاظمی مجھے سنا رہے تھے جب میں ان سے بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کا شکوہ کررہا تھا۔ گرڈ سٹیشن سرکل کے چئیرمین جاوید اقبال کہہ رہے تھے کہ اس وقت لیسکو چالیس فیصد عملے کے ساتھ کام کر رہا ہے، لائن سٹاف میں بھی بہت زیادہ کمی ہے۔ طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ پرانا سسٹم بھی ہے جو اوور لوڈ ہو کر کام چھوڑ دیتا ہے، بیس جون سے بیس جولائی ہمیشہ پریشانی والے دن ہوتے ہیں۔ میں نے شکوہ کیا کہ جس جگہ خرابی ہوجائے وہاں گھنٹوں بجلی بحال نہیں ہوتی تو اس کا بھی دلچسپ جواب ملا۔ سرفراز کاظمی کہنے لگے کہ جس جگہ چھ سے آٹھ بندوں نے کام کرنا ہے وہاں دو بندے کام کر رہے ہیں تواس کا منطقی نتیجہ خرابی کو دور کرنے میں تاخیر سے ہی نکلے گا۔ شکایات کی ایک لمبی لسٹ ہوتی ہے اور لائن مین دو، وہ کہاں کہاں جائیں، یوں بھی ہوتا ہے کہ ورکرز کو بارہ بارہ اور سولہ سولہ گھنٹے ڈیوٹی کرنا پڑتی ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ جب سے نیا پاکستان بنا ہے تب سے لیسکو میں ڈیلی ویجز پر بھرتی ہونے والوں کو مستقل نہیں کیا جا رہا، ایک طرف جان کے خطرات ہیں اور دوسری طرف کچی نوکری کا ظلم، یہ ناانصافی کی انتہا ہے۔

اس وقت لیسکو میں ایک ہزار کے قریب کچے ملازمین ہیں اور وہ اسی طرح جان ہتھیلی پر رکھ کر بجلی کی فراہمی کے لئے کام کر رہے ہیں جس طرح پکے ملازمین مگر ان کی تنخواہیں بجٹ میں مزدور کے لئے مقررکی گئی تنخواہوں کے برابر بھی نہیں ہیں۔ جاوید اقبال بتا رہے تھے کہ آپ نے تاروں سے چمٹ کر شہید ہوجانے والے اہلکاروں کے بارے سنا اور دیکھا ہو گا مگر جب گرڈ سٹیشن میں آگ لگتی ہے تو کسی کو علم تک نہیں ہوتا مگر وہاں ڈیوٹی پرموجود اہلکارمکمل طور پرجل جاتے ہیں۔ میں نے سنگدلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ واپڈا اور پیپکو میں شہید ہوجانے والوں کا پیکج کیا ہے، جواب ملا، بہت جدوجہد کے بعد پینتالیس لاکھ روپے منطور ہوا ہے۔ میں سوچنے لگا کہ شہید، شہید میں بھی فرق ہوتا ہے، کسی جگہ شہید کے وارثوں کو ڈیڑھ، ڈیڑھ کروڑ روپے اور پلاٹ ملتے ہےں اور کسی جگہ شہید کواس سے ایک تہائی سے بھی کم اوروہ بھی فنڈز کی فراہمی سے مشروط۔ علم ہوا کہ فنڈز کی فراہمی میں دو، دو برس تک بھی لگ رہے ہیں حالانکہ یہ وہ محسن ہیں جو اپنی جانوں کوخطرے میں ڈال کر دن رات کام کرتے ہیں تو ہم اپنے گھروں میں پنکھے، روم کولر اور ائیرکنڈیشنرز لگا کر سکون کی نیند سوتے ہیں اور جس روز سے کام کرنا چھوڑ دیں گے ہم سو نہیں سکیں گے، کام نہیں کرسکیں گے بلکہ ہمارا تو جینا ہی مشکل ہوجائے گا۔

میں نے پوچھا، لاہور جیسے شہرمیں ان کارکنوں کی کیا صورتحال ہے، جواب ملا کہ وہ لوگ جو اس خطرناک ڈیوٹی کو سرانجام دے رہے ہیں ان میں سے ایک ہزار کو ریگولر کرنے کا وعدہ سی ای او نے کیا ہے مگر یہ وعدہ کب پورا ہو گا کوئی نہیں جانتا کیونکہ حکمران لیسکو سمیت دیگر اداروں کی نجکاری پر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومت بھی کرنا چاہتی تھی مگر اس دور کے وزرا نے جب مزدور رہنماوں کی طرف سے حقائق سنے تو اس سے توبہ کر لی۔ اس وقت بھی آئی ایم ایف کا دباو ہے کہ بجلی فراہم کرنے والے اداروں کی نجکاری کر دی جائے اور میں اپنے پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ نجکاری ہو گئی تو لاہور سمیت دیگر شہروں کے عوام بھی اسی طرح چیخیں ماریں گے، حکمرانوں کوبددعائیں دیں گے جیسے کراچی کے شہری کے الیکٹرک کی کارکردگی پر دیتے ہیں جو ان سے کمپلینٹ کرنے کے بھی پیسے چارج کرتی ہے۔ بجلی فراہم کرنے والے اداروں کے ریلوے کی طرح اربوں، کھربوں سے بھی زیادہ کے اثاثے ہیں جن پر بہت ساروں کو رال ٹپک رہی ہے۔ بات کارکنوں کی ہو رہی ہے تو لیسکو میں مزید ایک ہزار بھرتیوں کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے مگر یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے، لاہور کو کم از کم اس سے چار سے پانچ گنا زیادہ کارکنوں کی بھرتی کی ضرورت ہے جو بڑھتے ہوئے لوڈ اور صارفین کی دیکھ بھال کرسکیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ نئی بھرتیاں ہوں یا پہلے سے موجود کارکنوں کو ریگولر کرنا ہو، اس کے لئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظور ی ضروری ہے اور اس میں عوامی نمائندگی کا فقدان ہے، اس بورڈ کو ان ارب پتیوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے جن کے طبقے پر بجلی چوری کے اصل الزامات ہیں، اب غریب دہائی کہاں دے؟

یہ وزیر توانائی حماد اظہرکی ہمت اور جرات ہے کہ جب ملک میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ہاہا کار مچی ہوئی ہے تو انہوں نے ٹوئیٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ڈومیسٹک فیڈرز پر چھبیس جون سے لوڈ شیدنگ زیرو ہے، اس وقت صرف بہت زیادہ چوری والے فیڈرز پر لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت کی طر ف سے لوڈ شیڈنگ کا کوئی شیڈول بھی جاری نہیں کیا گیا اور یوں اسے فورسڈ لوڈشیڈنگ کانام دیا جا رہا ہے۔ میں سیاسی بحث اور وجوہات میں نہیں جانا چاہتا مگر چونکہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ تو ایک طرف رہے، شہروں کے چھوٹے چھوٹے ڈی سی حضرات کے گھربھی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں، ان کے گھروں میں ا یک نہیں تین، تین فیڈروں سے کنکشن ہیں تو انہیں واقعی علم نہیں کہ بجلی کتنی جا رہی ہے۔ اس سے ایک اور المیہ یہ جنم لیتا ہے کہ ڈبل سورس، عوامی زبان میں، کرنٹ کاریورس مار دیتا ہے اور جہاں بجلی بند بھی ہو تو وہاں کی تاروں میں بھی بجلی آجاتی ہے جس سے وہاں کام کرتے ہوئے کارکن کرنٹ لگنے سے شہید ہوجاتے ہیں یعنی ان امیروں اور طاقتوروں کا ٹھاٹھ اور سہولت غریب کارکنوں کی موت بن جاتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی خوفناک بات ہے مگر اس کے باوجود ہر طاقتور کے گھر یہ قاتل ڈبل اور ٹرپل کنکشن موجود ہیں اور دھڑلے سے چل رہے ہیں۔

جب بات مزدوروں کی ہی ہورہی ہے تو میں ریلوے کے مزدورں کی بات بھی کرتا چلوں، ریلوے میں گینگ مین پتھر اور لوہے کو ٹھیک کر کے ریل کی پٹڑی کو چالو رکھتے ہیں، یہی مزدور انجن شیڈوں میں انجنوں کو دوبارہ پٹڑی پر رواں رکھتے ہیں مگر مسئلہ یہاں بھی یہی ہے کہ متعلقہ وزیر ان مزدوروں کو چور کہتے ہیں اور پکا کرنے سے صاف انکا رکر تے ہیں۔ میں اپنے پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر بجلی اور ریل کے پرانے اور فرسودہ انفراسٹرکچر کو کوئی چلا رہا ہے تو وہ یہی مزدور ہیں۔ میں ریلوے مزدوروں سے بات کر رہا تھا تو وہ مجھے اپنے ہاتھوں کے چھالے دکھا رہے تھے۔ ریلوے میں دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہاں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد ریٹائر ہونے والوں کو واجبات تک نہیں مل رہے جو اپنی زندگی بھر کی محنت کے صلے سے محروم کئے جانے کے مترادف ہے۔ میں وزیراعظم عمران خان سے کہوں گا کہ تین برس جس طرح گزرنے تھے، گزر گئے، اب آخری دو برس ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اگلے دور کے لئے بلاول بھٹو زرداری کا انتخاب ہوچکا ہے۔ کیا وہ ان دو برسوں میں ان مزدوروں کی دعائیں لینا پسند کریں گے جنہیں اللہ نے اپنا دوست کہا ہے۔