Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Nawaz League Kahan Khari Hai?

Nawaz League Kahan Khari Hai?

سابق وزیراعظم کی صاحبزادی اور ان کی پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے اسلام آباد میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاوں کا فیصلہ کالعدم قرارد ینے کے لئے دائر درخواست اورمیڈیا ٹاک میں حاضر سروس جنرل اور سپریم کورٹ کے ججوں کو ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا کی ٹاک کا بڑا موضوع بنا دیا ہے۔ نواز لیگ کے کارکن اور حامی صحافی اسے مریم نواز کی جرات اور بہادری سے تعبیر کر رہے ہیں۔ جب ہم میڈیا ٹاک سنتے ہیں تو ایک تشریح یہ بنتی ہے کہ مریم نواز محترمہ فاطمہ جناح، محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ کی جدوجہد کی وارث ہیں۔ تمام ملکی ادارے اور سیاسی جماعتیں سٹیٹس کو، کی حامی ہوچکی ہیں مگر یہ باپ بیٹی، مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل کر، ایک انقلاب برپا کرنے کے لئے کمر بستہ ہوچکے ہیں، اس آئینی اور جمہوری انقلاب کی جدوجہد میں اختلاف رکھنے والے بزدل ہیں، کرپٹ ہیں، لفافے ہیں۔

میں اگر کئی عشروں کی سیاسی جدوجہد کا بطور ایک کارکن صحافی حصہ نہ ہوتا، پرویز مشرف کے دور میں جنم لینے والے سوشل میڈیا کا ایک جذباتی ایکٹیویسٹ ہوتا تو میرے لئے یہ تعریف قابل قبول ہوتی۔ میں بھی بہت سارے دوسرے صحافیوں کی طرح اپنے ٹوئیٹس میں نعرے لگاتا، قدم بڑھاو نواز شریف قوم تمہارے ساتھ ہے۔ میں یہ نعرے عمر بھر سے سنتا چلا آ رہا ہوں جب نواز شریف بطور وزیراعظم اپنے ماڈل ٹاون والے گھر کے پرانے ڈرائنگ روم میں کارکنوں کی محفل سجایا کرتے تھے اور وہاں نعرے لگا کرتے تھے، میں بال کھڈاواں میاں دے، میں صدقے جاواں میاں دے۔

اسی میڈیا ٹاک والی شب میری گپ شپ کئی سینئر صحافیوں سے ہور ہی تھی اور ان میں سے ایک صحافی بتا رہے تھے کہ میاں نواز شریف سے ان کی تقریبا ہر روز ہی بات چیت ہوجاتی ہے۔ صحافیوں کا وہی گروپ اس ٹاک کی ایک دوسری وضاحت بھی کر رہا تھا کہ مریم نواز کی ٹاک چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ وہ دیوار سے لگا دی گئی ہیں، وہ فرسٹریشن کی انتہا پر پہنچ چکی ہیں، مقتدر حلقوں کے بعد پی ڈی ایم سے لڑائی کا ڈس کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے اور اس کے بعد ان کی اپنی پارٹی کے حلقوں کی زمینی سیاست کرنے والے عہدیدار، ان کے انداز سے بغاوت کر چکے ہیں، محترمہ کے ساتھ سوشل میڈیا کے میاں مٹھو ہیں جو ان کے رنگ برنگے کپڑوں کی تعریفیں کرتے ہیں سو ان کے پاس لڑائی کو بڑھانے کے سواکوئی دوسرا سیاسی آپشن باقی نہیں بچا۔

برادرم سلمان غنی لاہور کے سینئر اور معتبر ترین صحافی ہیں اور ان کی دی ہوئی خبر بتا رہی ہے کہ مریم نواز کے لئے پارٹی کے اندرسب اچھا نہیں ہے۔ آج کل نوازشریف کا میڈیا سیل ان کی پوری تقریریں جاری نہیں کرتا، ایک پوائنٹ آف ویو کے حق میں ٹوٹے جاری کئے جاتے ہیں مگر ا س میں بھی وہ بات جاری ہو گئی ہے جس میں نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ ان کی منزل آئین اور جمہوریت کی بالادستی ہے اور یہ منزل مفاہمت سے حاصل ہو یا مزاحمت سے۔ جس وقت مریم نواز اپنے معترفین کی نظر میں تاریخ ساز میڈیا ٹاک کررہی تھیں اس وقت بھی ان سے پارٹی بارے سوال ہوا تو انہوں نے شہباز شریف اور پارٹی بارے کچھ کہنے کی بجائے کہا کہ وہ اپنی اور اپنے والد کی بات کررہی ہیں۔ انہوں کا بطور بیٹی حق ہے کہ و ہ اپنے والد کو اپنے ساتھ بریکٹ کریں مگر کیا پارٹی سربراہ کے طور پر نواز شریف ایک گروپ کے ساتھ بریکٹ ہوں گے، یہ سوال اب نواز شریف کے سامنے ہے۔

انہوں نے تین برس تک کامیابی کے ساتھ مزاحمت اور مفاہمت کی کشتیوں میں اکٹھے سفر کیا ہے مگر اب ان کشتیوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ پارٹی کی تقسیم نہ مزاحمتیوں کے حق میں ہے اور نہ ہی مفاہمتیوں کے حق میں اور یہ واحد مفاد ہے جس نے اب تک دونوں دھڑوں کو ایک ساتھ رکھا ہوا ہے لیکن ان کو دیکھنا ہوگا کہ ان کے مخالفین بھی پوری طرح متحد اور یکسو ہیں۔ مجھے یہ سمجھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ مریم نواز کی پولیٹیکل موو کے بارے میں دوسروں کو پہلے سے اندازہ ہو گیا تھا لہذا جس وقت وہ جنرل فیض کے نام کے ساتھ رٹ دائر کر رہی تھیں اور میڈیا ٹاک میں ان کا نام برملا رہی تھیں عین اسی وقت انہیں پشاور کا کور کمانڈر مقرر کیا جا رہا تھا۔ یہ بات یاد رکھئیے کہ کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کے آرمی چیف بننے کے لئے کسی کور کی سربراہی لازمی تصور کی جاتی ہے، سو یہ ان کی پریس کانفرنس کا ایسا جواب تھا جو سمجھنے والے بہت اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔

میں اب بھی مسلم لیگ کو ملکی ترقی اور خوشحالی کی ایک ضمانت سمجھتا ہوں، میں نواز شریف پر کرپشن کے الزامات کو بھی غلط سمجھتا ہوں مگر سوال اس اناا ور غرور کا ہے جو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ ایک بار جس کے لئے دل میں تعصب رکھ لیتے ہیں اسے نکال ہی نہیں پاتے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ سب کی سنتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں مگر ان کے فیصلے بتاتے ہیں کہ وہ نہ کسی کی سنتے ہیں او رنہ سمجھتے ہیں، جو ان کے دل میں آتا ہے وہ کرتے ہیں۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ تین مرتبہ وزیراعظم بنے اور بدقسمت ہیں کہ ایک مرتبہ بھی تدبر اور حکمت کے ساتھ اپنی مدت پوری نہیں کرسکے، اس ناکامی کی ذمہ داری ان کو کرنی چاہیئے۔ انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد ایک مرتبہ پھر خود کو کسی آمر کی طرح بااختیار بنانا چاہا اور اپنے ہی لگائے ہوئے آرمی چیف، چیف جسٹس اور دیگر عہدیداروں کے ساتھ بگاڑ بیٹھے۔ وہ عہدے سے ہٹائے گئے تو انہوں نے مزاحمت کی راہ اختیار کی مگر جب انہوں نے محمد زبیر کو مفاہمت کے لئے بھیجا تو کسی سے مشورہ نہیں کیا۔ جب انہوں نے پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ کے جلسے میں اعلان جنگ کیا تو پارٹی کی کوئی میٹنگ ریکارڈ پر نہیں تھی۔ ہمارے کچھ دوست فوجی سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع کے بل کی حمایت کی ذمہ داری پارٹی کے کچھ رہنماوں کی لندن میں مشاورت پر ڈالتے ہیں مگر ا س موقعے پر پارٹی کے کسی ادارے کا کوئی اجلاس، کوئی فیصلہ، کوئی قرارداد ریکارڈ پر نہیں ہے۔

میاں نواز شریف سے درخواست ہے کہ وہ جس جمہوریت کو ملک میں دیکھنا چاہتے ہیں اسے پہلے اپنی پارٹی میں لے کر آئیں۔ عہدوں کی تقسیم سے فیصلوں تک میں کوئی میرٹ اور کوئی اصول اپنائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی سیاسی وراثت ان کی بیٹی کو ملے تو اس کے لئے پوری پارٹی کو داو پر مت لگائیں۔ وہ صرف یہ دیکھیں کہ کشمیر کے انتخابات کے بعدجب مفاہمت اور مزاحمت کا تنازع زیادہ بڑھا اور انہوں نے شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کو کسی حد تک فری ہینڈ دیا تو ان کی پارٹی نے کنٹونمنٹ کے انتخابات میں حکمران جماعت کو مٹی چٹوا دی۔ حمزہ شہباز جنوبی پنجاب گئے تو وہ لوگ جنہوں نے ٹکٹیں لے کر واپس کر دی تھیں وہ پارٹی کا حصہ بن گئے جس نے پارٹی کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ کیا مگر مریم نواز نے خود کو دیوار سے لگتے دیکھ کر ایک مرتبہ پھر خود کش حملہ کر دیا ہے۔ ایک بات یاد رکھنے والی ہے کہ جب تک عمران خان کی حکومت اپنی نااہلی سے مہنگائی اور کرپشن میں اضافہ کرتی جا رہی ہے، لوگ شیر کے انتخابی نشان پر ٹھپے لگاتے رہیں گے مگر اس مقبولیت اور کامیابی کوحکمت، تدبر سے ہی اقتدار تک لے جایا جا سکتا ہے اس میں لال رنگ کے جوڑے جتنے مرضی خوبصورت لگیں مگر کوئی کردارادا نہیں کرسکتے۔