ہمارے بہت سارے باخبر صحافیوں نے لکھا، نواز شریف اِن، عمران خان آؤٹ، یقین کیجئے سابق وزیراعظم کے لندن سے سعودی عرب پہنچنے اور دوبئی سے اُمید پاکستان، کے نام سے خصوصی فلائیٹ کی بکنگ اورلیگی فاختاؤں کے قائد شہباز شریف کے باربار دعوؤں کے باوجود میں ابھی تک سو فیصد یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن رہے ہیں۔ میں جو بات یقین سے کہہ سکتا ہوں وہ یہ کہ شہباز شریف دن رات انہیں چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنوانے کے لئے چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ نواز شریف نے ایوان وزیراعظم تک پہنچنے کے لئے کئی دریا عبور کرنے ہیں۔
میں ذاتی طور پرسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرف سے اپنے اختیارات کی قربانی دینے اور فرد واحد کی بجائے ادارے کو مضبوط بنانے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں مگر بطور سیاسی تجزیہ کار کہنے میں عار نہیں کہ یہ قانون بنایا ہی نواز شریف کے ساتھ ہونے والے منفی تجربات کے بعد انہیں ریلیف دینے کے لئے گیا تھا۔ کیا ہی دلچسپ بات ہے کہ ایکٹ تو آئینی اور قانونی قرار پا گیا مگر صرف ایک جج کے فرق سے نواز شریف کوملنے والا ریلیف ختم ہوگیا، کیا یہ محض اتفاق ہے؟
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں نواز شریف کو ریلیف نہ ملنے کے بعد پی ٹی آئی کے دوست بہت شاداں و فرحاں ہیں، وہ دعوے کر رہے ہیں کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس نہیں لوٹیں گے۔ میں جس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہوں اس وقت مسلم لیگ نون استقبال کے لئے بہت ساری ایکٹیویٹیز کر چکی ہے۔ شاہدرہ کے علاوہ ٹھوکر نیاز بیگ پر بھی جلسے کرنے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارٹی اپنی توانائیاں (اس کا مطلب ہے پیسے بھی) 21 اکتوبر کے لئے بچا کے رکھے کیونکہ ٹھوکر نیاز بیگ والے جلسے پر کم و بیش پانچ کروڑ روپے کا خرچ آیا اور مسلم لیگ نون کی سرگرمیوں کے حوالے سے باخبر صحافی عمر اسلم بتا رہے تھے کہ پارٹی نے اپنے قائد کے استقبال پر کم و بیش ایک ارب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا ہے۔
میں نے جمع تفریق کرکے دیکھا ہے کہ افراط زر کا جو عالم ہے اس میں مجوزہ سیاسی سرگرمی کے لئے ایک ارب روپے بھی کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے اور اگر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ ہولڈروں کے انفرادی اخراجات کو بھی شامل کیا جائے تو معاملہ بہت آگے جا سکتا ہے، بہرحال، اگر آپ نے اونٹوں والوں سے دوستی رکھنی ہے تو پھر آپ کو دروازے تو اونچے ہی رکھنے پڑیں گے۔ مسلم لیگ نون کی سرگرمیاں دیکھ کے نہیں لگتا کہ نواز شریف اپنی واپسی منسوخ کرنے بارے سوچ رہے ہیں۔
ابھی کچھ روز پہلے وزیر داخلہ سرفراز بگتی نے بڑھک ماری تھی کہ نواز شریف کی وطن واپسی پر، اگر ان کی ضمانت منظور نہ ہوئی تو، انہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور یہ کہ ائیرپورٹ سے گرفتاری کے لئے کوئی بہت بڑی فورس درکار نہیں ہوتی جس پر بہت ہی مہذب مریم اورنگزیب سے بہت ہی بلنٹ رانا ثناء اللہ خان تک نے بہت ہی سخت ردعمل دیا تھا جس کے بعد نگران وزیر داخلہ سے نگران وزیراعظم تک نے اپنے الفاظ تبدیل کر لئے تھے کہ قانون کے مطابق سلوک ہوگا یعنی بات وہی تھی مگر ملفوف ہوگئی۔
سرفراز بگتی نے اس پر جو معذرت کی مجھے اس کی وجہ صرف یہ نظر آتی ہے کہ جب وہ نگرانی کے چھتے سے اڑیں گے تو نواز لیگ کی ٹہنی پر گھونسلہ بنائیں گے۔ اعظم نذیر تارڑ اور عرفان قادر کہتے ہیں کہ نواز شریف کی عبوری حفاظتی ضمانت کوئی ایشو ہی نہیں ہے، عدالتوں سے بڑی آسانی سے مل جائے گی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف نااہل نہیں رہے بلکہ نااہلی کی مدت پانچ برس تک مقرر کرنے کے قانون کے بعد گذشتہ برس ان کی نااہلی ختم ہوچکی مگر نواز لیگ سے باہر کے ماہرین قانون اس سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ خود نواز لیگ کے لائیرز کہہ رہے ہیں کہ اب نااہلی کا حتمی فیصلہ اس وقت ہوگا جب نواز شریف کاغذات نامزدگی جمع کروائیں گے اور کوئی مخالف امیدوار ان پر نااہل ہونے کا اعتراض داخل کرے گا۔
یہاں دو فیصلے ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ ریٹرننگ آفیسر قانون کو درست مانتے ہوئے نواز شریف کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دے اور اعتراض ختم کردے مگر یہاں نواز شریف کے مخالفین پہلے الیکشن ٹریبونل اور پھر اعلیٰ عدلیہ چلے جائیں گے۔ دوسری طرف ریٹرننگ آفیسر اعتراض کو درست مانتے ہوئے نواز شریف کے الیکشن مسترد کردے گا تو خود مسلم لیگ نون کو اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنا پڑے گا۔
ہمارے لیگی دوست کہتے ہیں کہ قانون میں تاحیا ت نااہلی والی کوئی شے ہی نہیں مگر سپریم کورٹ کا فیصلہ کہتا ہے کہ ایسی شے موجود ہے۔ یہ بڑی دلچسپ بحث ہے کہ پارلیمنٹ نے قانون بنایا کہ کوئی بھی نااہلی پانچ برس سے زیاد ہ نہیں ہوگی مگر گذشتہ برس بنا ہوا قانون موثر بہ ماضی ہو کے چھ برس پہلے ہونے والے فیصلے کو نہیں بدل سکتا۔ اب اس پر ایک اور دلچسپ صورتحال ہے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سپریم کورٹ میں ڈسکس ہو رہا تھا تو وہاں نہ نااہلی کا قانون زیر بحث تھا اور نہ ہی پانامہ کیس کا وہ فیصلہ جس میں نواز شریف نااہل ہوئے سو بادی النظر میں یہ تینوں الگ الگ معاملات ہیں مگر ان تینوں میں کامن، نواز شریف ہیں جن کے گرد ایک مرتبہ پھر سیاست گھوم رہی ہے۔
مقتدر حلقے شہباز شریف کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں اور شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کو۔ اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ خودمسلم لیگ نون کلیئر نہیں ہے کہ قانونی پوزیشن کیا ہے اور اس کے لیے العزیزیہ کیس میں عبوری ضمانت کے بعد انہیں نااہلی کے معاملے کو الگ سے دیکھنا پڑے گا اوراس امکان کو مسترد مت کیجئے کہ ثاقب نثار والی سپریم کورٹ کا فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر برقرار رہ سکتا ہے اورمیاں نواز شریف وطن واپسی کے باوجود انتخابی میدان سے باہر رہ سکتے ہیں۔ اب یہاں مسلم لیگ ن کا مقابلہ مقتدر حلقوں کے ساتھ ہوگا کہ وہ اپنے شرائط کس حد منا سکتی ہے مگر تاثر یہ ہے کہ ابھی تک مقتدر حلقے نواز شریف کے ساتھ کمفرٹ ایبل نہیں ہیں اور اس میں میاں نواز شریف نے وطن واپسی سے پہلے احتساب والا بیان دے کر اپنے لئے اور پارٹی کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ دباؤ کی سیاست کاحصہ تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہی دباو دوسری طرف سے بھی ہو تو پھر کیا ہوگا۔ یہاں ایک وکھری، رائے بھی ہے کہ اگر نورا کشتی نہیں ہوگی تو پھر سیاسی منظر نامے پر تھرِل، کیسے پیدا ہوگا، واللہ اعلم میں اس بارے کچھ نہیں جانتا۔ میں نے گذشتہ روز نعیم میر کی طرف سے بلائے گئے تاجروں کے استقبالی تیاریوں کے کنونشن میں شہباز شریف کی تقریر سنی ہے اور وہ اپنے بھائی کا مقدمہ ہر نظر آنے اور نہ نظر آنے والی جگہ پر لڑ رہے ہیں۔ وہ دل سے چاہتے ہیں کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنیں۔ مجھے اس پر اپنا پہلے کہا ہوا فقرہ دہرانے دیجئے کہ خدا، شہباز شریف جیسا چھوٹا بھائی ہربڑے بھائی کو دے۔