Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Pooray Soobay Mein Aik Uniform

Pooray Soobay Mein Aik Uniform

میں نے کبھی عثمان بُزدار کو مشورے دینے کی کوشش نہیں کی کیونکہ مجھے علم ہے کہ وہ کالم پڑھتے ہی نہیں تھے۔ اگر پڑھ بھی لیتے تو سمجھ نہیں پاتے تھے۔ اگر کوئی نکتہ سمجھ میں بھی آجاتا تھا تو ان میں اتنی اہلیت نہیں تھی کہ تیز و طرار بیوروکریسی سے اس پر عمل درآمد کروا سکیں۔ نئی حکومت قائم ہونے کے بعد یہ صوبے میں صفائی کے نظام کی بہتری اور ہیلتھ سیکٹر میں اصلاحات کی سفارشات کے بعد میرا تیسرا کالم ہے، مجھے تعلیمی نظام پر بات کرنی ہے۔ آدھے سے زیادہ پاکستان کی چیف ایگزیکٹو مریم نواز بہت سارے ایسے اقدامات کر رہی ہیں جو انقلابی ہیں۔ یہ واقعی نظر آ رہا ہے کہ اس ایجنڈے کے سیٹ کرنے میں ان کے والد کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ وہ خود بتاتی ہیں کہ اس حوالے سے میاں نواز شریف خود اجلاسوں کی صدارت کرتے رہے ہیں۔

پنجاب کے تعلیمی نظام میں یکساں نصاب کے ذریعے ایک انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جس کا نعرہ پی ٹی آئی اپنے پورے دور میں لگاتی رہی مگر اس میں بہت سارے نکات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ آپ تمام اساتذہ اور تمام طالب علموں کو ایک ہی صلاحیت پر رکھ کر نہیں ماپ سکتے یعنی کسی کو اچھا لگے یا برا، پوش ایریاز میں رہنے والے ہائیلی کوالیفائیڈ پیرنٹس کے بچوں اور دیہات میں رہنے والے ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے والدین کے بچوں میں بہت بڑا فرق ہوگا۔ ان میں یہی فرق انگریزی میں سبق کو پڑھنے اور سمجھنے کے حوالے سے زیادہ ہوگا لہٰذا ضروری ہے کہ ان تمام بچوں کی اہلیت، ماحول اور مزاج کے مطابق بنیادی سلیبس ہو۔

پی ٹی آئی کے دور میں ایک سلیبس کا نعرہ مکمل طور پر سیاسی تھا۔ پنجاب کے پرنٹرز اور پبلشرز کی ایسوسی ایشن نے اس کے بودے پن پر بہت ساری پریس کانفرنسیں کیں۔ ہمیں یکساں نصاب پر جانا ہوگا مگر یہ مکمل طور پر یکساں نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے پاس کئی قسم کے تعلیمی ادارے چل رہے ہیں جیسے شائفات، امریکن سکول، ایل جی ایس یا بیکن ہاؤس جیسے ادارے۔ اس کے بعد انہی کی دوسری کیٹیگری آتی ہے جن کی فیسیں اول الذکرکے کئی لاکھ سے پچاس، ساٹھ ہزار تک کے مقابلے میں پانچ سے دس یا پندرہ ہزار روپوں تک میں ہیں۔ تیسری کیٹیگری سرکاری سکولوں کی ہے جن میں فیس نہیں لی جاتی۔ چوتھی کیٹیگری مدارس کی ہے جہاں بچوں کو دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور کچھ دنیاوی بھی مگر وہاں پر بچوں کی ضروریات زکواۃ و عطیات سے پوری کی جاتی ہیں۔ آپ ان سب کو یکساں سلیبس میں کیسے لا سکتے ہیں؟

محترمہ مریم نواز نے وزیراعلیٰ بننے سے بھی پہلے اپنی جن ترجیحات کا اعلان کیا ان میں سرکاری سکولوں کی اصلاح شامل ہے۔ انہوں نے سرکاری سکولوں کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر جانے کا بھی اعلان کیا۔ پنجاب میں اس سے پہلے پیف کا ماڈل بھی چل رہا ہے جو خاصا کامیاب رہا ہے مگر عثمان بزدار کے دور میں اس کی فنڈنگ کا بھی ایشو رہا۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر ضلعے میں دانش سکول بھی قائم کریں گی جو یقینی طور پر اربوں روپے کا پراجیکٹ ہوگا۔

میری گزارش یہ ہے کہ وہ اس سے پہلے اپنے پہلے سے موجود سکولوں کی حالت کو بہتر بنانے پر کام کریں۔ اس سے وہ ہر ضلعے میں ان ہزاروں اور لاکھوں والدین کے دل جیت لیں گی جو اپنے بچے کم آمدن کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں میں نہیں بھیج سکتے مگر اپنے سرکاری سکولوں کی حالت سے بھی خوش نہیں ہیں۔ انہیں سب سے پہلے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف پنجاب کے سرکاری سکولوں میں اس وقت سوا لاکھ کے قریب اساتذہ کی آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں اور ان میں سے بہت ساری آسامیاں سائنس جیسے مضامین کی ہیں۔ اب آپ خود سوچیں کہ ایک سکول میں اگر کیمسٹری، بیالوجی اورفزکس کا ٹیچر ہی موجود نہیں تو وہ بچہ اتنے مشکل مضامین کو خود کیسے پڑھے گا اور سمجھے گا۔

اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ فیل ہوجائے گا اور اس کے بعد زیادہ گمان ہے کہ تعلیم کے سفر سے ہی باہر۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سرکاری سکول کے ایک استاد کی غیر نصابی ڈیوٹیاں کیسے ختم ہو سکتی ہیں۔ ایک استاد کا پہلا اور آخری کام صرف اور صرف پڑھانا ہونا چاہئے۔ ایک اچھا کام یہ ہوا کہ میٹرک آرٹس اور سائنس کے ساتھ میٹرک ٹیکنیکل کا بھی آغاز ہوا ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ پروموشن کی ضرورت ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم اپنے تمام بچوں کو نہ تو ڈاکٹر انجینئر بنا سکتے ہیں اور نہ ہی پی ایچ ڈی کروا سکتے ہیں۔ ہمیں ان بچوں کو راستہ دینا ہوگا جو کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ کے روزگار پر لگ سکتے ہیں یا بیرون ملک جا کے وہاں سے ڈالر اور ریال بھیج سکتے ہیں۔ ٹیوٹا کے ماڈل کو آگے بڑھایا جائے اور بچوں کو زیادہ سے زیادہ ہنر مند بنایا جائے۔

میرے پاس ایک اور بھی تجویز ہے کہ میٹرک اور انٹر کے سٹوڈنٹس کے لئے انٹرن شپ لازمی کر دی جائے۔ اس وقت ہم کتابی کیڑے پیدا کر رہے ہیں جنہیں عملی دنیا کا کچھ علم نہیں ہوتا۔ ہر بچے کے لئے لازمی ہو کہ وہ میٹرک یا انٹر کرتے ہوئے دو سے تین ماہ کی کہیں نہ کہیں انٹرن شپ کرے تاکہ اسے دنیا کے اچھے برے کا پتا چل سکے۔ ہم نے بچوں کو خوابوں کی دنیا میں رکھا ہوا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب وہ تعلیم مکمل کرکے نکلیں گے تو دنیا کو فتح کر لیں گے۔ فٹا فٹ کروڑ پتی ہوجائیں گے۔

میں تو یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہم جس قسم کی بدتمیز یوتھ پیدا کر رہے ہیں اس کے لئے بھی کچھ سوچنے اورکرنے کی ضرورت ہے جیسے کہ اخلاقیات کی تعلیم۔ ہمارے بچوں کو قانون کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے اور قانون پر عمل کرنے والا ہونا چاہئے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم ٹریفک سگنل توڑنے کا باعث فخر اور بہادری سمجھتے ہیں جبکہ یہ سراسر بدتمیزی اور بے ہودگی ہے۔ مریم نواز نے اپنی پہلی تقریر میں خود کہا کہ بچوں کو اپنے والدین کا ادب کرنے والا ہونا چاہئے۔ کچھ ایسا کیا جائے کہ ہمارے بچے ادب، تمیز اور تہذیب سیکھ کر نکلیں۔ ہمارے ادارے اس وقت صر ف ڈگریاں دے رہے ہیں جو صرف روزگار میں کام آتی ہیں۔ دیانتداری نہیں سکھا رہے، اخلاق، تمیز اور تہذیب بھی نہیں جو ہر وقت اور پوری عمر ساتھ دیتی ہے۔

میں مانتا ہوں کہ یکساں نصاب کرنا بہت مشکل ہے مگر ایک کام ابھی ہوسکتا ہے کہ سب کا یونیفارم ایک ہی کر دیا جائے۔ کوئی بچہ یا بچی ڈرائیور کے ساتھ لینڈ کروزر پر کسی مہنگے ترین سکول جا رہی ہے یا کوئی بچہ یا بچی سائیکل پر اپنے باپ کے ساتھ سرکاری سکول۔ سب کا پہناوا ایک ہی ہو۔ یونیفارم کا اصل مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ سماجی اور معاشی تفریق نظر نہ آئے۔ کیا مریم نواز اپنے صوبے کی حد تک یہ انقلابی قدم اٹھا سکتی ہیں؟