پی ٹی آئی کی چوبیس نومبر کی فائنل کال ڈیڑھ برس قبل نو مئی کے احتجاج سے بھی زیادہ نقصان دہ اورتباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ پہلا نقصان یہ ہوا ہے کہ پارٹی تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں پوری طرح ایکسپوز ہوگئی ہے۔ لاہور جیسے شہر میں جہاں وہ مسلم لیگ نون کا مقابلہ کرتی اور بعض پوش حلقوں سے جیتتی بھی نظر آتی رہی ہے وہاں اس کے مرکزی سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا ہمیں گاڑی میں اکیلے ہی موو کرتے نظر آئے۔ وہ بتی چوک جہاں ہزاروں کارکنوں کو کال دی گئی تھی وہاں بتی کارکن بھی جمع نہ ہوسکے۔
میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی لاہور کے جنرل سیکرٹری حافظ ذیشان رشید جیسے چند سرپھرے نہ ہوتے تو ایک بھی گرفتاری نہ ہوتی۔ میں نے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے ٹرولز کو پنجاب اور پنجابیوں کو گالیاں دیتے اور الزامات لگاتے ہوئے دیکھا۔ یہ بات بہرحال طے شدہ ہے کہ پنجاب سے پارٹی کے عہدیداروں اور ارکان اسمبلی کی اکثریت نے چوبیس نومبر کی احمقانہ کال کا بائیکاٹ کیا جس کے مقاصد کے بارے سب کو علم تھا کہ وہ احتجاج سے حاصل نہیں ہوسکتے۔
ان کا سب سے بڑا اور فوری مقصد یہ تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو جیل سے رہائی دلائی جا سکے مگر عملی طور پر یہ ہوا کہ اس احتجاج کے ساتھ ہی عمران خان کی نو مئی کے آٹھ کیسوں سمیت تمام مقدمات میں ضمانتوں کی درخواستوں کو مسترد کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا کیونکہ عدالتوں کے سامنے یہ حقائق رکھ دئیے گئے کہ یہ آئین، قانون اور عدالت نہیں، دھونس، دھاندلی اور دہشت گردی کے ذریعے مقاصدکا حصول چاہتی ہے۔ اس سے پہلے مجھ سمیت کچھ سیاسی تجزیہ کار امید ظاہر کر رہے تھے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آنے کے بعد اگلے سال مارچ تک بانی پی ٹی آئی کی رہائی ہوسکتی ہے مگر عملی طور پر انہوں نے اپنے فوجی ٹرائل کی راہ بھی ہموار کر دی ہے۔
احتجاج کے بعدیہ بھی سامنے آیا کہ جہاں پارٹی کے عہدیدار اور ارکان اسمبلی بار بار احتجاج کی کال سے بغاوت کر رہے ہیں اس سے بھی زیادہ ان کے لئے خوفناک بات یہ ہے کہ پارٹی میں بانی کے فیصلوں کو مسترد کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ بشریٰ بی بی نے احتجاج سے پہلے اور اس کے بعد پارٹی کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے عمران خان نے ریحام خان کو اسی الزام پر طلاق دی تھی کہ وہ پارٹی کے معاملات میں مداخلت اور سیاسی اثرورسوخ کی کوشش کر رہی تھیں۔ تجزیہ یہ ہے کہ عمران خان اختیارات کی شئیرنگ نہیں چاہتے چاہے وہ ان کی اپنی اہلیہ کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔
بشریٰ بی بی نے پہلے پشاور میں ارکان اسمبلی اور عہدیداروں کو قابو کیا، سعودی عرب سے تعلقات خراب کرنے والا ایک احمقانہ خطاب جاری کیا اوراس کے بعد جب مبینہ طور پر عمران خان اپنی پارٹی کی سینئر قیادت کے ساتھ ملاقات میں احتجاج کو ریڈ زون سے باہر رکھنے پر آمادہ ہوگئے تو بشریٰ بی بی نے عمران خان کے فیصلے کو ویٹو کر دیا۔
اب پی ٹی آئی جو مرضی وضاحتیں دیتی رہے مگر اس سیاسی مہم جوئی نے اسے نقصان پہنچایا ہے اور وہ پارٹی مکمل طور پر ایکسپوز ہوگئی ہے جو اس سے دو برس پہلے خود بانی کی قیادت میں ایک ناکام لانگ مارچ کر چکی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس دو ہی طاقتیں ہوتی ہیں پہلی یہ کہ اگر وہ حکمران رہی ہو تو وہ اس کی کارکردگی اس کی طاقت ہوتی ہے اور اگر وہ اپوزیشن میں ہوتو اس کی احتجاج کی دھمکی، پی ٹی آئی عملی طور پر ان دونوں سے محروم ہوچکی ہے۔
احتجاج کے دوران کارکنوں کو اکیلا چھوڑ کے بھاگ جانے کی خفت اور شرمندگی ایسی ہے کہ اسے جھوٹ اور پروپیگنڈے میں ہی چھپایا جا سکتا ہے جیسے یہ کہ بہت فائرنگ ہوئی اور بہت ہلاکتیں مگر یہاں متعدد سوالات ہیں۔ پہلا یہ کہ جب فائرنگ ہورہی تھی تو اس وقت نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا وہاں پر موجود تھا اس نے اس کی رپورٹنگ کیوں نہیں کی۔ دوسرا یہ کہ اگرنیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا رپورٹنگ نہیں بھی کر رہا تھا (جو ناممکن ہے) تو وہاں پی ٹی آئی کے کارکنوں سے زیادہ یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز موجود تھے تو انہوں نے اس کی ریکارڈنگ کیوں نہیں کی۔
تیسرا یہ کہ یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز بھی اسے نظرانداز کر گئے تو پی ٹی آئی کے جتنے بھی کارکن تھے ان کے پاس موبائل فون موجود تھے انہوں نے فائرنگ ہونے اور درجنوں کے مرنے کی ویڈیوز کیوں نہیں بنائیں۔ چوتھا یہ کہ اگر ہلاکتیں ہوئی بھی ہیں تو وہ کسی جگہ پر ہوئی ہوں گی وہاں خون اور زخمی کیوں دکھائی نہیں دئیے بلکہ آپریشن کے فوری بعد جب وہاں وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے دورہ کیا تو وہاں ایسی کوئی علامت تک نہیں تھی کہ فائرنگ ہوئی ہو، گولیوں کے خول ہوں، زخمیوں کا لہو ہو۔ پانچواں یہ کہ اگر جینوئن ہلاکتیں ہوئی ہیں تو پی ٹی آئی میڈیا ٹرولز کوغزہ اور پارا چنار کی ویڈیوز شئیر کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ چلیں مان لیا کہ احتجاج کی جگہ پر وہ پریشان تھے مگر کیا وجہ ہے کہ کسی ہسپتال کے اندر سے بُلٹ انجریز والوں کی کوئی ویڈیو سامنے نہیں آئی۔
ساتواں سوال یہ ہے کہ اگر بلٹ انجریز سے ہلاکتیں ہوئی ہیں تو ان کے پوسٹمارٹم ہوئے ہوں گے ان کی رپورٹس کہاں پر ہیں۔ آٹھواں یہ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کے وارث کہاں ہیں۔ نوواں سوال یہ ہے کہ مبینہ طور پر ہلاک ہونے والوں کے جنازے کہاں ہوئے۔ دسواں سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے لوگ بھی ہلاکتوں پر ایک جیسے فگرز کیوں نہیں دے رہے کہ کوئی چار سو کہہ رہا ہے، کوئی پونے تین سو، کسی کی تعداد ایک سوچار کی ہے اور کسی کی پچاس یا تینتیس کی۔
گیارہواں سوال یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور، اسد قیصر، بیرسٹر گوہر اور سلمان سمیت تمام عہدیداروں نے کسی بھی جنازے میں شرکت کیوں نہیں کی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کوئی جنازہ ہی نہیں ہوا۔ بارہواں سوال یہ ہے کہ تمام ہسپتال بلٹ انجریز سے ہلاکتوں کی تردید کیوں کر رہے ہیں اگر وہ واقعی ہوئی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اس احتجاج میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عطارتارڑ نے اپنی اہلیت اورقابلیت ثابت کر دی ہے اور پی ٹی آئی کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی ہے۔ شہباز شریف وہ سیاسی جن ہے جس نے اپنے بھائی اور بھتیجی کو جیل سے نکالا اور لندن بھجوا دیا، د وسری طرف عمران خان کو ایوان وزیراعظم سے نکالا اور جیل پہنچا دیا۔ اپنی پارٹی کو حکومت میں لائے اور ملک کو یقینی ڈیفالٹ سے بچانے کا کارنامہ بھی کر دکھایا۔ پی ٹی آئی کی فائنل کال واقعی فائنل بنا کے دکھا دی۔ محسن نقوسی اور عطا اللہ تارڑ اس پورے ایپی سوڈ میں چھائے رہے۔ پی ٹی آئی کے ہر حملے اور میڈیا کے ہر سوال کا جواب دیا اور میدان مار لیا۔