ہوا کچھ یوں کہ ایک مخصوص پہچان اور بیک گراونڈ رکھنے والے محمد علی درانی متحرک ہو گئے۔ انہوں نے کچھ ملاقاتیں کیں اور تاثر دیا گیا کہ اس کے ذریعے مقتدر حلقوں کی کوئی بات چیت شروع ہوئی ہے بلکہ کوئی مفاہمت بھی ہوگئی ہے۔ دلیل یہ دی گئی کہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی طرف سے بائیس ستمبر کو ملاقاتوں میں باقاعدہ طور پر سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید اور اگلے چیف جسٹس اعجاز الاحسن کے نام لئے گئے، ان کی طرف سے کہا گیا کہ یہ سب ملکی تباہی کے ذمے دار ہیں اور انہوں نے ہنستے بستے پاکستان کو ایک سازش کے تحت بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔
اس بیان کے بعد پی ٹی آئی کے واٹس ایپ گروپوں میں ماحول، بنانے والے سرگرم ہو گئے۔ یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کے اس مؤقف نے شہباز شریف اور پارٹی کی دوسری فاختاؤں کے لئے مسائل پیدا کئے ہیں اور شہباز شریف نے پچیس ستمبر کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ان کی پارٹی کا بیانیہ ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی ہے، جیسے نواز شریف دور میں لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی ختم ہوئی، زراعت پھلی پھولی، صنعتوں کی بند چمنیاں چلیں، روزگار بڑھا، مہنگائی ملکی تاریخ کی کم ترین اور جی ڈی پی کی گروتھ بلند ترین سطح پر پہنچی۔
پہلے محمد علی درانی کی بات کر لیتے ہیں، وہ اس وقت مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جنرل ہیں ا ور فنکشنل لیگ ہمیشہ سے خود کو اسٹیبلشمنٹ کی ترجمان کہتی چلی آئی ہے۔ محمد علی درانی کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ وہ پرویز مشرف کے دور میں وفاقی وزیر اطلات رہ چکے ہیں لہٰذا وہ اب بھی خود کو اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ظاہر کرتے ہیں۔ میں ان کے دعوؤں کی تصدیق یا تردید کرنے کے قابل نہیں ہوں مگر میرے پاس تاثر یہ ہے کہ ماضی کی اسٹیبلشمنٹ کی پوری ٹیم ہی تبدیل ہوچکی ہے۔
آپ شیخ رشید احمد کو ہی دیکھ لیجئے جو گیٹ نمبر چار کے واحد ترجمان سمجھے جاتے تھے مگر بعد میں پتا چلاکہ ان کی تو اتنی اہمیت بھی نہیں تھی کہ جس شخصیت کے ساتھ پڑھنے کا وہ بار بار ذکر کرتے تھے کبھی ان سے ملاقات بھی ہوئی ہو اور اب وہ نجانے کہاں پر اورکس کے مہمان ہیں، اللہ جانے۔ اس میں وہ وکیل صاحب بھی شامل ہیں جو اپنے گھر پر کچھ واقعات کروانے کے بعد بیرون ملک جا چکے ہیں اور اب وہ نیم عادل راجا کا کردار ادا کر رہے ہیں، بہرحال، میرا خیال ہے کہ محمد علی درانی کی خدمات اپنی مدت پوری کر چکی ہیں اور اب انہوں نے محض ان، ہونے کے لئے صدر مملکت عارف علوی سمیت کچھ اور لوگوں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ایک پیغام مارکیٹ میں پھینکا ہے کہ تحریک انصاف مقتدر حلقوں سے لڑنا نہیں چاہتی۔
میں آپ کو پورے یقین سے کہتا ہوں کہ پی ٹی آئی کا یہ مؤقف آج سے نہیں ہے بلکہ اس وقت سے ہے جب سے وہ جلسوں میں اہم ترین شخصیات کو میرجعفر اور میر صادق کہہ رہے تھے۔ انہوں نے اس وقت بھی صلح کا ہی پیغام بھیجا تھا جب ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے علوی صاحب نے مملکت کے سربراہ کی بجائے خانصاحب کے ایلچی کا کردار ادا کیا تھا اور اس وقت کے آرمی چیف کو مجبور کیا تھا کہ ایوان صدر میں ان کے لیڈر کے ساتھ ملاقات کریں اور ان سے معاملہ طے کریں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ اس وقت بھی نہ لڑنے کے بھاشن دے رہے تھے جب ان کی ایما پر اور ان کی منصوبہ بندی سے یوتھیوں کے گمراہ گروہ جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس اورشہداء کی یادگاروں پر حملے کر رہے تھے۔
معاملہ کچھ یوں ہوا کہ ایک طرف سے محمد علی درانی صاحب نے مفاہمت والی بات مارکیٹ میں پھینکی اور دوسری طرف سے میاں نواز شریف نے وہی کیا جو وہ ہمیشہ کرتے ہیں۔ اب ہم تیسری طرف کی آتے ہیں، تیسری طرف یہ ہوا کہ تحریک انصاف سے جذباتی وابستگی رکھنے والے ہمارے دوست عمران ریاض خان تین، چار ماہ کے بعد اپنے گھرواپس پہنچ گئے۔ ساتھ ہی عدالت نے صنم جاوید خان اور دیگر تین، چار خواتین کی ضمانت بھی منظور کر لی۔ سونے پر سہاگہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کو اٹک جیل سے نکالا جائے اور اڈیالہ میں رکھا جائے جہاں انہیں کچھ بہتر سہولیات مل سکتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ہمارے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگتی اے آر وائی کے ایک پروگرا م میں پہنچے اور اینکرکے سوال پر کہا کہ اگر عدالت نواز شریف کی ضمانت نہیں لے گی تو انہیں ملک واپسی پر ائیرپورٹ سے ہی گرفتار کر لیا جائے گا جس پر رانا ثناء اللہ خان سے مریم اورنگزیب تک نے ان کے ایسے لتے لیے کہ انہیں وضاحت کرتے ہی بنی کہ ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کرلیا گیا۔ یہ وہ تمام حالات تھے جو پی ٹی آئی کے ان دوستوں کے بھنگڑوں بہت سے بھی کچھ زیادہ ہی تھے جو روزانہ بہت ذوق وشوق سے ایسے یوٹیوبرز کو سنتے ہیں جو اپنی ویڈیوز میں اٹک جیل کے رات گئے دروازے کھلنے یا پنڈی کے کسی گھر کے تہہ خانوں میں ملاقاتوں کی خبریں ہی نہیں سناتے بلکہ یہ تک بتاتے ہیں کہ خانصاحب سے معافیاں مانگی جا رہی ہیں، جانوں کی امانیں طلب کی جار ہی ہیں۔
سو پیارے قارئین! میں یہ نہیں کہتا کہ میں کسی اہم ادارے کی میز کے نیچے چھپا ہوتا ہوں اور میرے پاس وہ خبریں ہوتی ہیں جو کسی دوسرے کے پاس نہیں ہوتیں مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ میں اپنا دماغ اور صحافتی تجربہ ضرور استعمال کرتا ہوں لہٰذا میں آپ کو پورے یقین سے بتاتا ہوں کہ ابھی ایسے کوئی حالات نہیں ہوئے کہ اس گروہ کو کوئی ریلیف ملے جس نے جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس اور شہداء کی یادگاروں پر حملے کئے۔
میں مانتا ہوں کہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کو بھی معافیاں، ملتی رہی ہیں مگر آپ کو بھی ماننا پڑے گا کہ اتنی تیزی کے ساتھ تبدیلی نہیں آتی، اس میں عشرے لگ جاتے ہیں، نسلیں بدل جاتی ہیں اور دوسری اس سے بھی اہم بات، پی پی پی او ر نواز لیگ کے اسٹیبلشمنٹ سے جتنے بھی شکوے رہے ہوں انہوں نے آج تک کوئی نو مئی برپا نہیں کیا جو بنیادی فرق بن چکا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی یا ان کے ساتھیوں کو جو بھی عدالتی ریلیف مل رہا ہے اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ پاک فوج نے نو مئی کے واقعات پر میچور رسپانس، دینے کا فیصلہ کیا اور اگر یہ ردعمل ویسا ہی ہوتا جیسا کہ عمل تھا تو بہت ساروں کولگ پتا جاتا۔
عمران ریاض خان اپنی واپسی پر بہت سارے سوالوں کے جواب خود دیں گے مگر ذہن میں رکھیں کہ صنم جاوید پھر گرفتار ہوگئیں اور عمران خان اٹک جیل میں رہیں یا اڈیالہ جیل میں، کیا فرق پڑتا ہے۔ محمد علی درانی نے جو حاصل کرنا تھا وہ کر لیا یعنی اپنے لئے کچھ میڈیا ہائپ، کچھ پروگرام۔ باقی رہ گئی ملکی سیاست تو مجھے صرف یہی کہنا ہے کہ اگر فوج نومئی جیسے واقعے کے بعد میچور رسپانس دے سکتی ہے تو باقیوں کو میچور ہونے میں کیا مسئلہ ہے؟