آدھے سے زیادہ پاکستان میں گذشتہ ساڑھے تین برسوں سے فرحت شہزادی المعروف فرح خان (اور گوگی خان) کا راج قائم تھا۔ میں اپنے پروگرام نیوز نائیٹ، میں سینئر صحافی، پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کے سابق صدر اور ہمارے پروگرام بیوروکریٹ کے میزبان ایاز شجاع سے فرح خان بارے پوچھ رہا تھا۔ اس سے پہلے ایک رکن اسمبلی میں مجھے بتا رہے تھے کہ فرح خان کا شیخوپورہ میں ایک بیوٹی پارلر ہوا کرتا تھا مگر ایاز شجاع اصرار کر رہے تھے، نہیں، ان کا ایک اور بھی کاروبار تھا۔
میں ان سے ضد کررہا تھا کہ اس کاروبار کے بارے کچھ بتائیں مگر وہ شرما رہے تھے، آئیں بائیں شائیں کر رہے تھے۔ جب میں نے سوشل میڈیادیکھا تو جانا کہ ایک باحیا شخص، ایک ذمے دار صحافی ٹی وی سکرین پر ایسی ویسی واہیات بات کیسے کہہ سکتا ہے۔ میں حیران تھا کہ فرح خان، خاتون اول کی دوست کیسے بن گئیں۔ خاتون اول کی شہرت یہ ہے کہ وہ انتہائی دین دار اور پردہ دا ر خاتون ہیں مگر اسی دوستی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دوستی اتنی گہری تھی کہ گوگی خان کی ڈیفنس والی مشہور زمانہ رہائش گاہ میں ہی کپتان کا نکاح ہوا تھا اورگوگی خان کواسی دوستی نے پاکستان تحریک انصاف کی پہلی کیٹیگری میں سینیٹ کی امیدوار بنایا تھا۔
اس کی تجویزاور تائید کنندگان میں وزیر شامل تھے مگر یہ خاتون کی خاص شہرت کی وجہ سے ایک شورمچ گیا۔ یہ کہا گیا کہ فرح خان، ڈاکٹر زرقا تیمو ر کی کورنگ کینڈیڈیٹ تھیں جبکہ یہ بات درست نہیں تھی، درست یہ تھا کہ اگر میڈیا شور نہ مچاتا ڈاکٹر زرقا تیمور جیسی کارکن منہ دیکھتی رہ جاتی اورفرح خان ہمارے پنجاب سے سینیٹ کی رکن ہوتی۔
آج رپورٹ ہو رہا ہے کہ فرح خان کے اثاثے عثمان بزدار کے دورمیں چار گنا تک بڑھ گئے اور میں واضح کر دوں کہ یہ ڈیکلئیرڈ اثاثوں کی بات ہورہی ہے۔ عشارب سوہل، لاہور کینٹ کے منتخب نمائندے ہیں اوراسی وائے بلاک ڈیفنس کے رہائشی جس میں فرح خان کا گھر تھا۔ میں نے پوچھا، فرح خان کو ایس ایس پی لیول کی سیکورٹی حاصل تھی جبکہ ایک عام وزیر کو بھی ایک، دو کانسٹیبل ہی ساتھ ملتے ہیں۔
کوئی بہت تگڑا ہو تو اپنے ساتھ دو چار کانسٹیبلوں والی موبائل لے کر گھوم سکتا ہے یعنی اس لیول کی سیکورٹی منسٹرز کے پاس بھی نہیں ہوتی۔ عشارب سوہل بتا رہے تھے کہ علاقہ مکینوں نے پولیس موبائلز کے حوالے سے کئی بار شکایت کی۔ ان کی ڈیفنس کے فیز ٹین کے لئے زمینوں کی خریداری میں خاص دلچسپی تھی اور پٹواری انہی کے کہنے پر لگتے تھے اوراس کے ساتھ منگولیا ہاوسنگ الگ تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ فرح خان کو ایوان وزیراعلیٰ میں بھی دفتر دیا گیا تھا اور اس بی بی اورا سکے شوہر نے اپنی دھاک شروع میں ہی رضوان جمیل والے
معاملے سے بٹھا لی تھی۔ میں نے پوچھا کہ عثمان بزدار اس کے نیچے کیوں لگا ہوا تھا تو جواب ملا کہ جب شہرت یہ ہو کہ وزیراعلیٰ بنوایا ہی فرح خان اوراس کے شوہر نے ہو تو آپ کس طرح چیں، چوں یا چاں کر سکتے ہیں۔ میں حوالے کے طور پر بتا سکتا ہوں کہ ہم نے بار بار ایوان وزیراعلیٰ میں لگی ہوئی منڈی بارے شور مچایا اور خاص طور پر جب ٹی کے، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ ٹی کے، کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ اے سی، ڈی سی سے لے کر پٹواریوں، جیلروں اور ہیلتھ انسپکٹروں تک کی پوسٹنگز کی بولیاں لگوایا کرتے تھے۔ ایوان وزیراعلیٰ میں اسسٹنٹ کمشنر کا ریٹ ہی کروڑروپے تک پہنچا ہوا تھا اور دوسری طرف ڈی سی لگنے کے لئے تو مختلف پارٹیاں پے منٹس کیا کرتی تھیں جیسے ہمارے
دوست صحافی قیصر کھوکھر نے باقاعدہ اپنی شائع شدہ تحریر میں انکشاف کیا تھا کہ جہلم کے ڈی سی کے لئے وہاں کی معروف ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک نے کئی کروڑ ادا کئے۔ جاننے والے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ڈیکلئیرڈ اثاثوں کا گوگی خان کے اصل اثاثوں سے کوئی موازنہ ہی نہیں کیونکہ ان میں سے بہت ساری ادائیگیاں دوبئی میں ہوتی تھیں۔ میں یہ کہوں کہ پی ٹی آئی کا پورا دور ہی حرام مال کے حوالے سے خوفناک ترین تھا تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
آپ اسی وقت میرا کالم پڑھتے ہوئے اٹھیں، دولت مندوں کے علاقوں کو باقی شہر سے ملاتے ہوئے شیر پاو اور میا ں میر پلوں کے اوپر سے گزریں، وہاں آپ کو نت نئے پلازوں کے بل بورڈز نظر آئیں گے اوراس کے ساتھ ہی نیچے لکھا ہوا ہوگا کہ اس خریداری کے لئے آپ کو ایف بی آر کے لئے ایسیٹ ڈیکلئیرنگ سرٹیفیکیٹ دینا ضرور ی نہیں یعنی آپ پیشہ ور قاتل ہیں، ڈاکو یا سمگلر، آپ کوبتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ آپ نے مال کہاں سے کمایا ہے۔
ایک اور بات بتاتا چلوں کہ فرح خان کا ایسے تمام بیوروکریٹس کے ساتھ ایک خاص گٹھ جوڑ تھا خاص طورپر ایک خاتون افسر، جسے کوئی بھی اچھی حکومت ایک لمحہ ضائع کئے بغیر گرفتار کر سکتی ہے، جو ایکسائز میں تھی تو وہاں کرپشن کی اپنی ایس او پیز ہیں، وہاں عہدے بکتے ہیں اور جب ایک عہدہ بک جاتا ہے توپھر وہ اپنی مقررہ مدت میں کمائی پوری کر لیتا ہے۔
وہ خاتون افسر، جنہیں فرح خان کی پارٹنرشپ حاصل تھی، ایکسائز میں سٹینڈرڈ ریٹ پر بندے لگاتی تھی اور پھر مدت پوری ہونے سے پہلے یعنی خرچہ پورا ہونے سے پہلے اسی پوسٹ کو ڈبل ریٹ پر نئے بندے کو بیچ دیتی تھی کیونکہ اسے کسی کا ڈر نہیں تھا اور پھر وہ لاہور کی ڈی سی لگ گئی تھی۔ باخبر صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ جوطے ہوا تھا وہ ون ٹائم نہیں تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ رہنے والے چار پرنسپل سیکرٹریوں کے بارے تحقیقات شروع ہو گئی ہیں۔
میں چونکہ نہ انویسٹی گیٹیو رپورٹنگ کرتا ہوں اور نہ ہی کرائم رپورٹنگ، میں پولیٹیکل ایشوز کو زیادہ دیکھتا ہوں تو میں یہ ضرور کہوں گا کہ پنجاب میں گوگی راج کا قیام صرف عثمان بزدار کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس کی ذمے داری صرف وزیراعظم اور خاتون اول پر بھی نہیں ڈالی جاسکتی۔ اس ڈاکو راج کو قائم کرنے میں ہمارے صحافتی دلالوں نے بھی اہم کردارادا کیا ہے۔ انہوں نے فکری بددیانتی سے اس بھان متی کے اس کنبے کو مسیحا بنا کے پیش کیا۔ بہت سارے گلے سڑوں نے گلی سڑی رپورٹنگ کی اور ایک خاص رائے عامہ بنانے میں اہم کردارادا کیا۔
ان گلے سڑے لوگوں میں سے بہت سارے اب بھی ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے منہ سے غلاظت اگل رہے ہیں۔ کچھ ایسے فنکار بھی ہیں جو اب فرح خان کے اوپر پروگرام کر کے انکشافات کر رہے ہیں حالانکہ یہ سب اس گینگ کا حصہ تھے، سب کے سب واردات میں شریک تھے۔ اب، جس وقت گوگی خان فرار ہو چکی ہے تو اپنی انفارمیشن اور سچ بیانی کے ڈھونگ رچانے بیٹھ گئے ہیں حالانکہ تب یہ ان کے ارد گرد اورپیارے ہوا کرتے تھے۔
اس صحافتی ٹولے کی دانشوارانہ بددیانتیوں نے نااہلی اور بدعنوانی کے اس دور کو فکری جواز دئیے ہیں۔ یہ جس تبدیلی کے ڈھول بجاتے تھے وہ تونسہ کے بزداروں، پاکپتن کے مانیکاوں اور شیخوپورے کی گوگی خانوں کو ارب اور کھرب پتی بنا کے رخصت ہو رہی ہے، باقی انصافین تبدیلی کاپیاز چھیلتے رہیں اور رہ گئے صحافتی دلال، وہ بہت جلد نئے انکشافات کے ساتھ نئے حکمرانوں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہوں گے۔