Wednesday, 08 January 2025
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Qazi Hussain Ahmad, Kuch Yaadein, Kuch Baatein

Qazi Hussain Ahmad, Kuch Yaadein, Kuch Baatein

میں نے نوے کی دہائی میں جب صحافت کا آغا ز کیا تو میری پہلی پولیٹیکل بیٹ جماعت اسلامی تھی اور میرے اخبار کے چیف ایڈیٹر کی پسندیدہ جماعت۔ جماعت اسلامی کے امیر دبنگ قاضی حسین احمد تھے اور قیم درویش منش، خوف خدا سے لرزتے سید منور حسن۔

میں دوسری پولیٹیکل پارٹیز کے متبادل رپورٹر کے طور پر کام کرتا تھا اور یوں ہوتا تھا کہ بہت سارے سیاسی رہنماوں کی پورا پورا دن کوئی ایکٹیویٹی یا اس ایکٹیویٹی کی کوئی خبر نہیں ہوتی تھی لیکن قاضی حسین احمد ایک ایسی شخصیت تھے کہ وہ صبح پشاور ہوتے تھے، دوپہر کو لاہور اور شام کو پتا چلتا تھا کہ وہ کراچی میں کسی تقریب یا اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کے ایک سے زیادہ دل کے بائی پاس آپریشن ہو چکے تھے اور میں حیران ہوتا تھا کہ وہ اتنے زیادہ متحرک کیسے ہیں اور دوسری سب سے اہم ترین بات ان کے ویژن کی کلئیریٹی، کے ساتھ ساتھ اظہار کی جرات تھی۔

اس دور میں الیکٹرانک میڈیا نہیں ہوتا تھا اور سیاسی رہنما اس کے بہت سارے فائدے اٹھا لیتے تھے جیسے کسی بھی سوال کے جواب کو آف دی ریکارڈ کر دینا یا جیسے کسی بھی بات سے یہ کہتے ہوئے مُکر جانا کہ میں نے تو کہا ہی نہیں یا یہ کہ سیاق وسباق سے ہٹ کے رپورٹ کیا گیا ہے مگر قاضی حسین احمد بولتے تھے اور ڈٹ کر بولتے تھے۔

جماعت اسلامی کے بارے بھی بہت سارے ایسے پرسیپشنز، ہیں جو حقائق پر مبنی نہیں جیسے یہ کہ جماعت اسٹیبلشمنٹ کی ایجنٹ رہی۔ یہ بات ہمیشہ سے جھوٹ تھی اور جھوٹ ہے۔ سچ تویہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ہی قوم کو تین لیڈر دئیے اور ان تین لیڈروں میں مولانا مودودی (رح) تھے نہ ہی میاں طفیل محمد۔ میں اس امر کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ قاضی حسین احمد بھی ہرگز ہرگز نہیں تھے۔

جماعت اسلامی نے کشمیر کے جہاد میں اگر فوج کا ساتھ دیا تو وہ فوج کا نہیں بلکہ پاکستان کا ساتھ تھا اور اسی طرح بہت پہلے اگر مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کا مقابلہ کیا تھا تو وہ بھارت کے ایجنٹوں اور غداروں کا مقابلہ تھا۔ یقینی طور پر پاکستان کے بیٹوں کو ایسا ہی کرنا چاہئے تھا اوراس محبت کی قیمت جماعت اسلامی کے مجنوئوں نے مجیب الرحمان کی ڈائن بیٹی حسینہ واجد کے اس سیاہ دور تک یوں دی ہے کہ پھانسیوں کے پھندوں تک کو جا کے چوما۔

جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کا معاملہ بھی سن لیجئے، اسلامائزیشن تو جماعت اسلامی کا خواب بھی تھا اور دستور و منشور بھی مگر جب ضیاء مرحوم نوے دن میں انتخابات کے وعدے سے پھرے توجماعت اسلامی وزارتیں چھوڑ کے حکومت سے باہر آ گئی تھی۔ قاضی حسین احمد کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے واقعے کی گواہی مجھ سے لیجئے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے ایک اور اخبار جوائن کیا جس کا میں چیف رپورٹر تھا۔ اس اخبار کے مالک کی منصورہ میں قاضی حسین احمد سے ملاقات تھی اور اس ملاقات میں قاضی حسین احمد نے اس دور کے کور کمانڈرز کو کروڑ کمانڈرز کہہ کے بلایا تھا۔ یہ ایک ایسا فقرہ تھا جو وہ اخبار شائع کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔

مجھے منع کیا گیا مگر میں نے سرخیوں میں ہدایات کو فالو کرتے ہوئے کانٹینٹ میں ان کی خلاف ورزی کر دی۔ جب قاضی حسین احمد نے دیکھا کہ ان کے اتنے بڑے اٹیک کا ڈنک نکال دیا گیا ہے توانہوں نے وہی فقرہ اسلام آباد کی فیصل مسجد کے احاطے میں ہونے والے سالانہ اجتماع عام میں اپنے خطاب میں کہہ دیا۔ وہ اتنے بہادر آدمی تھے کہ سفید داڑھی، بزرگی کے باوجود بھسین میں گرفتار ہو ئے مگر نہ ڈرے اور نہ ہی جھکے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ ان کی میاں نواز شریف کی مخالفت اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر تھی مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ واقعی جماعت اسلامی کو ایک متبادل قوت بنانا چاہتے تھے۔

میں حیران بھی ہوتا ہوں کہ جب ہمارے لوگ کہتے تھے کہ انہیں اسلامی اور باکردار قیادت چاہئے تو وہ قاضی حسین احمد کو نظرانداز کیسے کر دیتے تھے جن کے پاس علم وفہم کے خزانے تھے اور جن کوقرآن کی آیات ہی نہیں بلکہ اقبال کی شاعری بھی کسی دریا کی روانی کی طرح آتی تھی۔

انور نیازی صاحب کی مہربانی سے میں نے قاضی صاحب کے ساتھ سفر بھی بہت کیا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران دئیے گئے دھرنے کے موقعے پر پنڈی کی مری روڈ پر برادرم امیر العظیم اورمنصور جعفر کے ساتھ اپنی زندگی کی سب سے زیادہ آنسو گیس بھی کھائی۔ میں عتیق سٹیڈیم (جو اب گریٹر اقبال پارک بننے پر ڈھے چکا) کے اس اجتماع میں بھی تھا جہاں پاکستان اسلامک فرنٹ بن رہا تھا۔

نجانے کیوں آصف لقمان قاضی اور آپا سمیعہ راحیل اس وقت ناراض ہوجاتے ہیں جب میں اسٹیبلشمنٹ کی اس زیادتی کی بات کرتا ہوں کہ وہ عمران خان جیسے پلے بوائے کو تو سلیکٹ کر لیتی ہے مگر قاضی حسین احمد جیسے نیک، باکردار، بہادر اور محب وطن سیاستدان کو موقع نہیں دیتی۔ ہوسکتا ہے کہ انہیں میرے معاملے کے پیش کرنے کے انداز سے برہمی ہوتی ہو مگر میری نظر میں معاملہ یہی ہے۔ میری قاضی حسین احمد مرحوم سے آخری ملاقات برادرم لیاقت بلوچ کے قریبی عزیز کی وفات پر افسوس کے لئے جانے پر ہوئی۔ یہ بھی میرے لئے ایک بھی ایک تاریخی اور دلچسپ یاد ہے۔

مجھے یاد ہے کہ میرا وہاں ایک بزرگ شخص سے نماز پر مکالمہ ہوگیا جن کا اصرار تھا کہ ان کے فقہ کے مطابق پڑھی جانے والی نماز ہی اصل ہے اور باقی ہر کسی کی نماز ضائع ہوجائے گی۔ میرا اصرار تھا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہم کسی کی نماز پر تھانے دار نہیں ہوسکتے۔ مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب قاضی صاحب نے اپنے ساتھی کی بجائے میرا ساتھ دیا اورفرمایا کہ ہمیں امت کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔

مجھے یہ گواہی دینے میں بھی کوئی عار نہیں کہ قاضی صاحب نے امت کو متحد کرنے میں بھی ایک بڑا کردار ادا کیا۔ میں نے شروع میں بتایا کہ جب میں نے صحافت شروع کی تو وہ نوے کی دہائی تھی اور پنجاب میں (میاں منظور وٹو کی وزارت اعلیٰ میں) فرقہ واریت انتہا پر تھی۔ سنی اور شیعہ انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اپنے نوگو ایریا بنا رکھے تھے اور ہر ہفتے کوئی نہ کوئی عالم دین قتل ہوجاتا تھا۔ ایسے میں قاضی حسین احمد نے آگے بڑھ کے ملی یکجہتی کونسل کو جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے دفاتر بھی دئیے اور بیانیہ بھی۔

میں نے لٹن روڈ پر جماعت اسلامی لاہور کے دفتر میں وہ بہت ساری نمازیں اہلحدیث، اہلسنت، اہل تشیع کے ساتھ اکٹھے پڑھیں اور بعد میں وہی ملی یکجہتی کونسل پہلے دفاع افغانستان کونسل اور پھر متحدہ مجلس عمل بنی۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر میں قاضی حسین احمد جیسا مجاہد پاکستان کا وزیراعظم بن جاتا تھا تو یہاں بھی نوے کی دہائی ہی میں ایسی تبدیلی آجاتی جیسی ترکی میں آ ئی تھی۔ خدا مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔