Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Shahbaz Sharif Aisa Nahi Kar Sakte

Shahbaz Sharif Aisa Nahi Kar Sakte

کیا کہا؟ دکانیں آٹھ بجے بند کر دیں؟ میں شہباز شریف جیسے عملی اور محنتی آدمی سے اس فیصلے کی توقع نہیں کر رہا تھا کہ معاشی بحران میں وہ معاشی سرگرمیاں محدود کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ اگر وہ کاروبار رات آٹھ بجے بند کردیں توایک ارب ڈالر کی بچت ہوگی توکیا انہیں ایک صنعتی اور کاروبار ی شخصیت ہوتے ہوئے بچت کی یہ شاندار تجویز دینے والے بیوروکریٹس سے نہیں پوچھنا چاہئے تھا کہ اگر ہم اپنی صنعتیں اور کاروبار مکمل طور پر بند کردیں تو پھر کتنی بجلی بچے گی؟ کسی نے پوچھا کہ محبت میں کمی کا علاج کیا ہے تو اس کا جواب تھا مزید محبت، اسی طرح کاروبار میں نقصان کا حل کیا ہے تو اس کا جواب ہے مزید کاروبار۔

میں نے دلی کو شاندارفلاحی حکومت دینے والی کجری وال کو سنا، وہ کہہ رہا تھا کہ اس کا دلی اب چوبیس گھنٹے جاگے گا، یہاں کے کاروباری مراکز چوبیس گھنٹے کھلیں گے۔ غربت اور بدحالی جیسے امراض کا صرف ایک علاج ہے اور وہ ہے کام، کام اورمزید کام۔ میں حیران ہوں کہ وہ گاہک جو یونٹ پچاس سے پینسٹھ روپے میں لے رہا ہے آپ اس کو بجلی بیچنا بند کرکے اس گاہک کو بیچیں گے جو پچیس سے پینتیس روپے میں لے گا تو آپ ایک ارب ڈالر کیسے بچائیں گے، یہوڈے دانشوڑ، کسی مینگو پیپل، سے ہی پوچھ لیں، آپ سرکلر ڈیٹ بڑھائیں گے۔

کیا کہا؟ یورپ میں دکانیں سرشام بند ہوجاتی ہیں اور ہمیں بھی ترقی کے اس فارمولے کو فالو کرنا چاہئے تو یہ مثالیں دینے والے یورپ کا موسم بھی یہاں لے آئیں۔ وہاں راتیں اتنی برفیلی اور ٹھنڈی ہوتی ہیں کہ وہ باہر نکلنے کا اسی طرح رسک نہیں لے سکتے جس طرح ہماری خواتین جون، جولائی کی گرمی میں دوپہر کے وقت بازاروں میں نہیں جاسکتیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میرے شہر میں پیکیجز اور ایمپوریم جیسے شاپنگ مال موجود ہیں جو سنٹرلی ائیرکنڈیشنڈ ہیں مگر میرے ہی شہر میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے ریٹیل کے بازار اچھرہ، انارکلی، ٹاون شپ وغیرہ کے ہیں جہاں ہماری نوے فیصد سے بھی زیادہ آبادی ضروریات زندگی سستے داموں خریدنے کے لئے جاتی ہے۔

میں اس میٹنگ میں ہوتا تو اس تجویز کو دینے والے بیوروکریٹ کو کہتا ہے کہ وہ گھر جا کے اپنی بیوی کو کہے کہ وہ دوپہر کے وقت ایسے کسی بازار میں جا کے دکھائے اور پھر اس کا جواب سنے۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کے فیصلے کرنے والے بہت سارے بیوروکریٹ عملی زندگی کے فیصلوں پورے کدو ہیں، پورے عثمان بزدارہیں۔ ہمارے موسموں کی شدت ایسی ہے کہ خواتین عصر کے بعد ہی بازارو ں وغیرہ کا رخ کرتی ہیں ورنہ ظہر کے وقت تک تو بوہنی نہیں ہوتی۔ اسی موسمی شدت نے ہمارے سماجی ضروریات اور رویوں کو بھی متعین کیا ہے۔ اس وقت سوا سات بجے مغرب کی اذان ہور ہی ہے اور سورج ڈوبنے میں آدھا گھنٹہ لے لیتا ہے یعنی عملی طور پر جیسے ہی موسم اس قابل ہوگاکہ باہرجایا جاسکے، آپ بازار بند کروا دیں گے؟

کیا کہا؟ ہمارے تاجروں کو بھی گھروں میں جا کے اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہئے، اپنی فیملیز کو وقت دینا چاہئے مگر یہ سب عیاشیاں اس وقت ہی ہوسکتی ہیں جب آپ کی جیب بھری ہو۔ ہمارے مردوں کی پہلی اور بنیادی ذمہ داری کمائی کی ہے تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کر سکیں۔ مجھے علم ہے کہ آپ پھر یورپ کی مثال دیں گے تو وہاں فی کس آمدن اتنی ہوچکی کہ وہ ہفتے میں چار دن تک چھٹیوں کاسوچ رہے ہیں مگر آپ غریب غربے ایسا کس طرح سوچ سکتے ہیں۔

اپنی چادر دیکھیں او رپھر پاوں پھیلائیں۔ ویسے بھی شہباز شریف جتنی بھی سماجی اصلاحات کر رہے ہیں وہ لاہور تک ہی محدود ہیں عملی صورتحال یہ ہے کہ شادیوں پر رات دس بجے وقت کی پابندی کا اطلاق ہو یا ون ڈش، ان سب پر لاہور سے باہر عمل نہیں ہو رہا۔ اسی طرح جب ہم بازاروں کے بند ہونے کی بات کرتے ہیں تو کینٹ کی مارکیٹوں پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کیا شہباز شریف صرف لاہور کے شہری کے علاقے کے وزیراعظم ہیں؟

کیا کہا؟ یہ قومی اقتصادی کونسل کا فیصلہ ہے تو اس فیصلے کو بلوچستان ماننے کے لئے تیار نہیں اور کسی بھی ایسی حکومت میں جو جمہوری ہونے کی دعوے دار ہو، میں بھی کسی ایسے فیصلے کو ماننے کوتیار نہیں جو سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر ان پر تھوپا گیا ہو۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ تاجروں کی بھاری اکثریت مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہے اور سوال یہ ہے کہ وہ کون سی قوت ہے جو تاجروں کی حکومت کو تاجروں سے بدظن، بدگمان اور دور کرنا چاہتی ہے۔ یہ الیکشن ائیر ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے بولڈ سٹیپ لیتے ہوئے تاجروں کو اس بجٹ میں بہت ساری سہولیات اورمراعات دی ہیں لیکن اگر آپ ان سے ان کا بنیادی حق اور کام ہی چھین لیں گے تو باقی کیا بچے گا۔

میں نے اس سلسلے میں لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر کاشف انور، چین سٹورز ایسوسی ایشن کے صدر رانا طارق، انجمن تاجران پاکستان کے رہنماؤں نعیم میراور مجاہد مقصود بٹ سمیت بہت ساروں سے بات کی ہے۔ وہ سب حکومت سے تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مجھے ان کی بات مناسب لگتی ہے کہ اگر حکومت کو ئی قانون سازی کرنا چاہتی ہے تو اس پر قومی اسمبلی میں بحث کرے۔ وہ قانون منظور کرے جس میں سٹیک ہولڈرز کی رائے شامل ہو اور وہ ملک بھر یکساں نافذ العمل ہو۔ اگر آپ دکانوں کو رات دس بجے بند کرنے کا قانون بنا دیں توکسی حد تک قابل قبول مگر میں اس کے باوجود کاروباری سرگرمیوں کو محدود کرنے کا حامی نہیں ہوں۔

کیا کہا؟ یہ شہباز شریف کا فیصلہ ہے تو مجھے اس پر شک ہے کہ یہ حبیب جالب کے اشعار پڑھنے والے اور غریبوں کے لئے دن رات بات کرنے والے شہباز شریف کا ہی فیصلہ ہے۔ میں نے وزیراعظم کے سامنے اب سب سے بڑا اور اہم مقدمہ رکھنا ہے کہ رات دیر تک جب مارکیٹیں کھلتی ہیں اور جن میں بہت بڑی تعداد میں کھانے پینے کی دکانیں ہیں تو ایک ایک مارکیٹ میں ہمارے کئی کئی سو بچے کام کرتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کے گھروں کا خرچہ اس افراط زر اور کساد بازاری میں ایک نوکری سے نہیں چلتا۔

وہ اپنی تعلیم اور بزرگوں کی ادویات کے لئے مغرب سے لے کر رات ایک، د و بجے تک گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے اور ان سے آرڈر لیتے ہیں۔ ویٹروں سمیت بہت سارے دوسرے کام کرتے ہیں۔ کیا شہباز شریف یہ پسند کریں گے کہ وہ روزانہ جو پانچ، سات سو روپے اضافی کما کے لے جاتے ہیں اور وہ ان کی زندگیوں میں بڑی سہولت اور آسانی دیتے ہیں۔ انہی کمائے ہوئے پیسوں سے وہ گھروں کے پنکھے چلا کے بل ادا کرتے ہیں وہ ان سے یہ روزگار چھین لیں گے؟ آپ ان کی خوشیاں اور آسانیاں چھین لیں گے؟ نہیں نہیں، میں جس شہباز شریف کوجانتا ہوں وہ ایسا نہیں کرسکتے۔