مجھے پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی ورکنگ کوقریب سے دیکھتے ہوئے دو، اڑھائی عشرے ہوچکے۔ یہ درست ہے کہ جب تک انہیں صوبے کا وزیراعلیٰ نامزد نہیں کیا گیا تھا تب تک ان سے سلام دعا نہیں تھی مگر جب وہ وزیراعلیٰ بنے تو میں روزنامہ دن، کا چیف رپورٹر تھا جو اپنے وقت کا بڑا اخبار تھا۔ اس وقت سمجھاگیا کہ شہباز شریف کو چوہدری پرویز الٰہی کا حق مار کرپنجاب کی پگ پہنائی گئی ہے مگر مجھے یہ گواہی دینے میں کوئی عار نہیں کہ شہباز شریف نے ابتدا ہی میں ثابت کر دیا کہ وہ ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں، بیوروکریسی سے کام لینا جانتے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وفاق میں میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم تھے جبکہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی سربراہی مسلم لیگ ہی کے ایک دوسرے دھڑے کے پاس تھی اور اس کی ایوان میں سربراہی شریف النفس اور بہت ہی بردبار سعید احمد خان منیس کر رہے تھے۔ پیپلزپارٹی کے غالباً تین یا چار ایم پی ایز تھے جبکہ مسلم لیگ جونیجو کے سات، آٹھ۔ سب مل ملا کے ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ ارکان پر مشتمل یہ ننھی منی سی اپوزیشن کبھی ان کے لئے مسئلہ نہیں بنی۔ شہباز شریف نے ابتدا میں ہی دھڑا دھڑ افسران کو معطل کر کے بیوروکریسی پر بھی اپنی دھاک بٹھا لی تھی یوں جنگل میں شیر کے مقابلے میں کوئی بھی نہیں تھا۔
جب پرویز مشر ف کا مارشل لاء لگا تو شہباز شریف جلاوطن نہیں ہونا چاہتے تھے مگر انہیں اپنے خاندان کے فیصلے کی پاسداری کرنا پڑی۔ ابتدا میں نواز لیگ کا ووٹ بنک اینٹی پیپلزپارٹی تھا جس کی بنیاد ضیاء الحق مرحوم کے بعد حمید گل نے آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر رکھی تھی۔ یہ ووٹ بنک بنانے میں جماعت اسلامی نے بھی کردارادا کیا تھا مگر ہمیشہ کی طرح انہوں نے اس وقت نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا جب وہ کامیاب ہو گئے۔ یہ ساری تفصیلات اس موضوع میں غیر ضروری ہیں مگر بتانا یہ مقصود ہے کہ پرویز مشر ف کے مارشل لا تک اس ووٹ بنک میں شہباز شریف کی محنت، دیانت اور صوبے کو بدلنے کے لئے انتھک کوشش بھی شامل ہو چکی تھی۔ آج سے بیس برس پہلے ہی کراچی اور پشاور والوں نے تیزی سے بدلتے لاہور کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ شہباز شریف کا اگلا دوررواں صدی کے پہلے عشرے کے آخر میں شروع ہوا جس کا پہلا مقبول ترین نعرہ سستی روٹی تھا۔ اس کے بعدلیپ ٹاپ آئے، آشیانہ کے نام پر سستے گھر آئے، ہونہار طالب علموں کے لئے سکالرشپس آئے، بیرون ملک کے دورے آئے، لاہور میں انڈرپاسز اور فلائی اوورز آئے اور پھر میٹرو بس سمیت بہت کچھ آیا۔ یہ وہ دور تھا جب میں پروگرام نیوز نائیٹ کی میزبانی شروع کر چکا تھا اور میرے پروگرام لایعنی اور بے مقصد سیاسی بحث کے بجائے حقیقی ایشوز پر ہوتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ میں نے مختلف امور پر شہباز شریف کے کام کا بطور محتسب جائزہ لیا۔
جب آپ ایشوز پر پروگرام کرتے ہیں تو آپ کا مسئلہ ہوتا ہے کہ آپ نے حکومت وقت کو تنقید کا نشانہ بنانا ہوتا ہے، اسی سے اصلاح احوال کا مطالبہ کرنا ہوتا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ شہباز حکومت نے میری تنقید کو ہمیشہ مثبت لیا اور اس کے ذریعے بہتری لانے کی کوشش کی۔ آپ اس کی مثال ڈینگی کی وبا میں لے سکتے ہیں۔ جب یہ وبا پھیلی تو میرا ہر دوسرا یا تیسرا پروگرام ڈینگی سے مقابلے کے موضوع پر ہی ہوتا تھا مگر کبھی یہ نہیں ہوا کہ اس وقت کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق ہوں یا دوسرے، وہ سوالوں کے جواب دینے سے بھاگے ہوں جیسے آج کل کے وزرا میری ڈکشنری میں مفرور اور اشتہاری ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وائے ڈی اے کی حکومت مخالف مہم عروج پر تھی اور جیل روڈ پر سیون کلب کو جانے والے راستے کے عین سامنے بھوک ہڑتالی کیمپپ میں عامر بندیشہ سمیت اس وقت کی قیادت سچ مچ کی بھوک ہڑتال کئے ہوئے تھی۔ میں نے اعلان کر دیا تھا کہ جب تک حکومت ان کی بات نہیں سنے گی، مسائل حل نہیں کرے گی میں روزانہ یہاں پروگرام کروں گا۔ شہباز شریف نے فون پر ڈسکس بھی کیا، پرویز رشید کو میرے پاس میرے دفتر بھیجا تاکہ مسئلے کا حل نکالا جا سکے، ڈیڈ لاک توڑا جا سکے۔ آج بھی ڈاکٹر مانتے ہیں کہ جو کچھ اس دور میں ان کے لئے کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
میرے پروگراموں میں شہباز شریف کی مخالفت کے لئے آنے والوں میں یاسمین راشد، محمود الرشید، اسلم اقبال سمیت بہت سارے نام تھے مگر حکومت نے کبھی اس کو ایشو نہیں بنایا تھا۔ اس تمام بات کا حاصل یہ ہے کہ مجھے شہباز حکومت کے معاملات پر سٹیک ہولڈرزاورمخالفین کے ساتھ بہت زیادہ بات اور کام کرنے کا موقع ملتا تھا مگریہ کوئی ثابت نہیں کر سکا کہ شہباز شریف کو بھتہ، کمیشن یا کک بیکس جا رہے ہیں۔ یوں بھی جب ہم نیب کے بنائے ہوئے مقدمات میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی طرف سے ضمانت کے فیصلوں کو دیکھتے ہیں تو کرپشن کے تمام الزامات کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ شہباز شریف ہوں، شاہد خاقان عباسی ہوں، خواجہ سعد رفیق ہوں یا دیگر رہنما، ان کی ضمانتوں کے اعلیٰ عدالتوں سے فیصلے ان پر لگائے ہوئے الزامات اوربنائے ہوئے مقدمات کے ہی فیصلے ہیں جن میں واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کوئی کرپشن نہیں، کوئی کمیشن نہیں۔ میگا پراجیکٹس کے بعد کرپشن کے حکومتی بیانئے میں صرف منی لانڈرنگ رہ جاتی ہے کہ اس خاندان نے اربوں روپے لندن وغیرہ بھیجے اور اس پر بھی دنیا کے آزاد اور بااعتبار تحقیقاتی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی کی گواہی آ گئی ہے۔ این سی اے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر یہ کسی کے خلاف تحقیقات شروع کر دے تو اس پر برطانوی حکومت سمیت کوئی بھی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ یہ ادارہ باالعموم چھ سے نو ماہ میں تحقیقات مکمل کر لیتا ہے مگر ایوان وزیراعظم کے قائم کئے ہوئے شہزاد اکبر کے سیل کی مداخلت اور دعوؤں کی وجہ سے تحقیقات بیس ماہ تک جاری رہیں اور پھر این سی اے اور ویسٹ منسٹر کی عدالت نے شہباز شریف کی فیملی کو کلین چٹ دے دی۔ اب یہ بات غیر ضروری ہے کہ فیصلے میں شہباز شریف کا نام نہیں، ظاہر ہے، نام سلمان شہباز کا ہی ہونا تھا جو وہاں کاروبار کر رہا ہے۔
دو، اڑھائی عشروں کے ایک پروفیشنل تعلق کے بعد یہ گواہی میں تاریخ او ر وطن کا قرض سمجھتا ہوں کہ میں نے شہباز شریف کو حکومتی معاملات میں سختی سے میرٹ پر کاربند پایا یہاں تک کہ انہوں نے اپنے خاندان اور دوستوں تک کو ناراض کر لیا جیسے شوگر ملز کے معاملات۔ میں نے شہباز شریف کو ہمیشہ قومی خزانے کے ایک ایک روپے کی بچت کے لئے کوشش کرتا بلکہ لڑتا ہوا پایا جیسے میٹرو اور اس کے بعد اورنج لائن کی تعمیر میں اربوں روپوں کی بچت اوراس کے بعد بجلی گھروں کے منصوبے جو چین سے بھی کم مدت اور کم لاگت میں لگے۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سارے لوگ گھر بیٹھ کر محض تعصب میں بے پرکی اڑاتے ہیں مگر میں نے فیلڈ میں سب کچھ بہت قریب سے جانچاہے، بار بار اعتراضات کئے ہیں، بار بار سوال اٹھائے ہیں اور میں جج نکولس ریمر کی طرح شہباز شریف بارے اس پیراگراف میں دی گئی اپنی فائنڈنگز اور حتمی فیصلے سے پوری طرح مطمئن ہوں۔